ملتان: سرائیکی وسیب کی ’معلوم‘ تاریخ میں خطے کی ثقافت کو گزشتہ 300 سالوں سے زندہ رکھنے والے خاندانوں کے چشم و چراغوں نے جدید دنیا کو اپنی تہذیب وثقافت سے آگاہی دلانےدست ہنر جاری رکھا ہوا ہے۔ ان کاریگروں کے ہاتھوں ایسے شاہکار تخلیق ہوتے ہیں کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں ’خیرہ‘ ہوجاتی ہیں اور وہ بے ساختہ داد دینے پہ ’مجبور‘ ہوجاتے ہیں۔
سرائیکی نیوز کے مطابق مٹی کے برتنوں کی بناوٹ ایسی تھی کہ دور جدید کے برتنوں کی چمک دمک ماند پڑ گئی۔ ہاتھوں سے تراشیدہ جیولری کا نکھار ایسا تھا کہ مشینوں سے بنی ہوئی جدید جیولری کی خوبصورتی گہنائی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔
روایتی ڈیزائنوں سے مرصع جدید تراش خراش کی ’قبائیں‘ معروف برینڈڈ سوٹوں کی شرمندگی کا سبب بن رہی تھیں۔ پتھروں کو محنتی ہاتھوں نے لگاوٹ اور محبت سے تراش خراش کر جو رنگ و روپ دیا تھا وہ نمائش کے لیے آنے والوں کو اپنی جانب کھینچ رہا تھا۔
ملتان چیمبر آف کامرس کے زیر اہتمام وقتا فوقتا ہوتا رہتاہے۔ ان فنکاروں میں عمررسیدہ تھے تو نوجوان بھی شامل تھے اوران کی فنکارانہ مہارت کسی تعارف کی محتاج نہیں تھی۔ کاشی گری کے نایاب فن سے ’مالا مال‘ سیکنڈ ایئر کے طالب علم شاہ زیب نے نمائش میں ’ہم نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں پڑھتا ہوں لیکن یہ فن ہمارے بزرگوں کی میراث ہے تو میں اپنے والد کے ساتھ یہ کام کرتا ہوں جس پر مجھے فخر ہے۔
سرائیکی نیوز کے مطابق فن پاروں میں اونٹ کی کھال سے بنے خوبصورت لیمپ سب کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ نمائش میں رکھے گئے فن پاروں میں اسٹون ورک اور دھاگوں سے بنی ہوئی جیولری قابل دید تھی۔
عبد الرحمان نے اس موقع پر نمائش کے انعقاد کے حوالے سے کہا کہ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ حکومت دستکاروں اور ہنرمندوں کی سرپرستی کرے تاکہ ایک جانب ان کی حوصلہ افزائی ہو، خاندانی اور نسلی فن پروان چڑھے، دنیا ہماری قدیم روایتی تہذیب و ثقافت سے آشنا ہو، ملک کو کثیرزرمبادلہ حاصل ہو اور غیر ملکی سیاح یہاں کا رخ کریں۔
قدیم روایتی فن ’کاشی گری‘ سے مزین نمائش کو دیکھنے بطور خاص امریکہ کے قونصل جنرل کولن کرنویلگی بھی تشریف لائے اور فنکاروں کے فن سے بے حد متاثر ہوئے۔ اس موقع پر امریکی قونصل جنرل کولن کرنویلگی کا کہنا تھا کہ ملتان آکر بہت اچھا لگا ہے اوریہ دیکھ کر خوشی محسوس ہوئی ہے کہ یہاں کے لوگوں نے اپنی روایتی تہذیب و ثقافت کو زندہ رکھا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ملتان کا شمار دنیا کے چند زندہ اورانتہائی قدیم شہروں میں ہوتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے ساتھ قائم و آباد ہونے والے دنیا کے بیشتر شہرزمانے کی بے ثباتی کا شکار ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ قدیم شہروں کی تاریخ یا تو کتابوں میں ملتی ہے اور یا پھر عجائب گھروں میں ان سے وابستہ اشیا دیکھ کرلوگ اپنے آباؤ اجداد کے رہن سہن کے متعلق آگاہی حاصل کرتے ہیں لیکن ملتان ان شہروں میں شامل ہے جو تاحال پوری آب و تاب سے نہ صرف زندہ ہے بلکہ زندگی کی پوری حرارت سے ’سانس‘ بھی لے رہا ہے۔
سرائیکی وسیب کی تہذیب و ثقافت کو اجاگر کرنے والے ان ہنر مند فنکاروں نے نمائش میں ہم نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر ان روایات کے امین فنکاروں کو حکومتی سرپرستی نہ ملی تو اس بات کے خدشات موجود ہیں کہ یہ فن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دم توڑ دے گا۔ اگر ایسا ہوا تو اس طرح دنیا کی ایک قدیم ثقافت صفحہ ہستی سے مٹ کر صرف تاریخ کی کتب میں ’زندہ‘ رہ جائے گی اور شاید ہماری آئندہ نسلیں فن پاروں کو کسی عجائب گھر میں دیکھنے پہ مجبور ہوں گی۔
مٹی کے ظروف‘ روغنی ٹائلوں اور دیگر آرائشی مصنوعات پر جب ’کاشی گر‘ ہاتھ سے خوبصورت پھول، پتیاں اور دلکش نقوش اجاگر کرتا ہے تو ’بلیو پوٹری‘ وجود میں آتی ہے۔ کاشی گری ایک مخصوص روایتی فن ہے۔ ابتدا میں فنکار صرف نیلے رنگ کا استعمال کرتے تھے اور چونکہ کاشی گری کا زیادہ تر کام برتنوں پر ہوتا تھا اس لیے ’بلیوپوٹری‘ کی اصطلاح مشہور ہو گئی تھی۔ کاشی گری کی تاریخ ملتان شہر کی تاریخ کی طرح قدیم ہے بتائی جاتی ہے۔ نقش و نگار میں پتوں شاخوں اور پھولوں کا استعمال اس فن پر ایرانی اثرات کا غمازکہا جاتا ہے۔
ایرانی ’فنون لطیفہ‘ میں چونکہ منگول اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں اس لیے بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ کاشی گری کا آغاز غالباً کاشغر (چین) میں ہوا تھا۔ جب مسلمان فاتح محمد بن قاسم نے ملتان فتح کیا تو اسلامی لشکر کے ہمراہ کاشی گر یہاں آئے اور ملتان کو انہوں نے اپنا مسکن بنایا۔
تاریخ میں درج ہے کہ مغلیہ دور حکومت میں بھی اس فن کی حوصلہ افزائی اور قدر کی گئی۔ 1853 میں جب کنگھم الیگزینڈر نے ملتان کے قلعہ کہنہ قاسم باغ میں کھدائی کرائی تو ایسی ٹائلیں برآمد ہوئیں جن کے متعلق ماہرین کی رائے ہے کہ وہ نویں صدی عیسوی میں تیار کی گئی تھیں۔
کاشی گری کا خوبصورت ہنر نسل در نسل منتقل ہوا ہے۔ ایک زمانے میں اسے موروثی کہا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ کاشی گری میں استعمال ہونے والے نباتاتی رنگوں کی آمیزش کا فارمولا خاندانوں کی میراث ہوتا تھا اور وہ اس میں اس قدر سخت گیر تھے کہ اپنی بہو کو تو فارمولا بتا دیتے تھے مگر بیٹی کو اس کی ہوا بھی نہیں لگنے دیتے تھے کیونکہ اس نے بیاہ کردوسرے گھر جانا ہوتا تھا۔ اس فارمولے کی حفاظت قیمتی کاروباری ’راز‘ کی طرح کی جاتی تھی لیکن اب منظر بدل گیا ہے کیونکہ اس فن کو سکھانے کے لیے باقاعدہ ادارے بھی وجود میں آگئے ہیں۔
ملتان آنے والے ملکی و غیر ملکی سیاح قلعہ کہنہ قاسم باغ میں واقع ’نگار خانہ‘ سے کچھ نہ کچھ ضرور خرید کرلے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اسی شوروم سے خریدا ہوا ایک گلدان لندن کے عجائب گھر کی زینت ہے۔ کاشی گری سے مزین روغنی ٹائلوں سے سجاوٹ اور دیواروں پر کاشی کے کام کا رواج بھی قدیم ہے۔
ملتان میں شاہ یوسف گردیز، شاہ رکن عالم اور علی اکبر جیسے اولیائے اکرام کے مزارات، مسجد نواباں اور اوچ شریف میں واقع مزارات کی تعمیر میں استعمال کی گئیں روغنی ٹائلیں صدیاں گزر جانے کے بعد بھی دیکھنے والوں کو متاثر کرتی ہیں۔ ملتان میں حضرت حقانی کا مزار، ساوی مسجد،عید گاہ، سندھ میں حضرت سچل سرمست اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مزارات پر بھی انہی ٹائلوں کو لگایا گیا ہے۔ موجودہ دور جدید میں یونیسکو، ورلڈ بینک اور حکومت جاپان کاشی گری یا بلیو پوٹری کے فن کے فروغ میں ازحد دلچسپی رکھتی ہیں۔