| |

لو کہ آج ہم نے خود ھار مان لی ۔۔۔

لو کہ آج ہم نے خود ھار مان لی ۔۔۔

تحریر: فیصل شہزاد چغتائی
 
لاہور میں رنجیت سنگھ کا مجسمہ بادشاہی مسجد میں لگانا ابتدا تھی جو کہ اب اسلام آباد میں مندر تک پہنچ گئی۔ ہر دور میں مختلف حیلوں بہانوں سے قوم کی دل اعزاری کی گئی میں نے پہلے بھی یہ پوسٹ لکھنے کی جسارت کی مگر کچھ احباب کی وجہ سے اس بارے نہیں لکھا مگر اب جب کہ میرا وجود اس پاکستان سے جڑا ہے جس کا مطلب ہی پہلا کلمہ ہے اس ریاست کو اسلامی مملکت ریاست کے نام سے دنیا پہچانتی ہے۔ اس ریاست میں اقلیتیوں کو پہلے سے بہت مراعات دی اور آزادی دی گئی ہے کسی کیساتھ ظلم ذیادتی نہیں ہوتی اور عام پاکستانی کی طرح وہ بھی اپنی زندگی اور عبادتیں کرنے کی مکمل آزادی اور حق رکھتے ہیں ۔ ایک طرف بھارت کے ظلم دیکھتا ہوں مساجد کو انتہا پسند ہندووں کو گراتے دیکھتا ہوں دوسری طرف اپنے ملک میں ان کی عبادت گاہوں کو سہولتیں اور تحفظ کو دیکھتا ہوں تو دل ندامت کرتا ہے، ہم جس انسانیت کا درس دیتے ہیں در حقیقت انسانیت کا وجود ہی قرآن پاک سے جڑا ہے جس میں تمام انسانوں کو یکساں مقام دیا گیا ہے سوائے ان کے جو مشرقین کافر اور مرتدد ہیں ، اللہ کے کلام پاک میں واضح لکھ دیا گیا کہ حضرت محمد صلی اللہ و علیہ و آلہ و اسلم خاتم النبین ہیں قرآن پاک قیامت تک فلاح کا قانون ہے نہ اس کے بعد کسی کتاب نے آنا ہے اور نہ پیغمبر نے سوائے ظہور مہدی علیہ السلام جس پر سب ایمان رکھتے ہیں اوراور خواہش رکھتے ہیں کہ اس قافلے سے جڑنے کا کوئی سلسلہ بنا رہے۔ بات غربت بھوک و افلاس پاکستان کے تجارتی منڈیوں میں لٹیروں کے لوٹ مار ، غلہ ذخیرہ خوروں ، قبضہ گیروں اور سرداروں وڈیروں تک کی نہیں نمٹی کہ اب ایک نیا کٹا کھول دیا گیا۔ جسے فی الوقت تسلیم نہیں کیا جا سکتا ، اگر اس کے جواب میں بھارت یہ کہتا ہے کہ تمام مساجد بھارت سے بند کرو یا کوئی اور ملک کہتا ہے تو ان کا اپنا مسئلہ ہے ہمارے معاملات ہمارے ملک پاکستان اسلامی مملکت ریاست کیساتھ ہیں، برما میں جو مسلمانوں کیساتھ ہوا ، کشمیر میں جو مسلمان بہنوں بھائیوں کیساتھ ہوا ، فلسطین میں اسرائیل نے جس طرح سے معصوم فلسطینیوں کو مارا اور قبضہ کیا وہ تمام بھی مسلمان تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب آرمی چیف نے کہا تھا کہ ہم کسی دوسرے کی جنگ کیوں لڑیں ؟ برما میں مسلمانوں کو جس بے دردی سے کاٹا گیا ، ان کی اجتماعی قبریں بنا کر دفن کر دیا گیا ہم ٹُس سے مس نہ ہوئے کیونکہ ہمارا تعلق صرف اپنے ملک پاکستان کے مسلمانوں کے دفاع تک محدود ہے۔ تو دوسرے طرف اگر مندر نہیں بنتا تو مساجد پوری دنیا کی بند ہونگی اس کا چکر سمجھ نہیں آتا ۔ وہ اس لیے کہ جب پاکستان سخت حالات میں گھیرا تھا تو پوری دنیا کے مسلمان اپنے اپنے ملک میں رہے اور جب ہم معاشی بحران میں تھے تو دنیا کے مسلمان دور بھارت کے مسلمانوں نے بھی آواز نہیں اٹھائی تو دنیا کے مسلمان بہتر سمجھ اور سوچ رکھتے ہیں کہ وہ اپنی مساجد کا تحفظ کیسے کریں گے۔ ہم جب برما میں نہیں گئے فلسطین میں نہیں گئے کشمیر جو کہ بالکل گھر کے کونے پر ہے اس میں نہیں گئے تو دنیا کے مسلمانوں کے لیے کہاں جائیں گے؟




مودی کو راضی کرنے کے لیے مندر کی بنیاد اسلام آباد میں رکھنا افسوسناک امر ہے اس شخص کی خوشنودی حاصل کرنے کا مطلب منافقت ہے یہ وہی مودی ہے جو انتہا پسند ہندوو تنظیموں کی سرپرستی کر رہا ہے اور ان کا ممبر ہے جو مسلمانوں کا قتل عام بھارت اور کشمیر میں کھلے عام کر رہا ہے اور آئے دن دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ مودی کو خوش کرنے کے لیے آج مندر بنایا ، کل کلبھوشن بھارتی جاسوس جو دھماکوں میں اے پی ایس سکول میں معصوم بچوں کے خون ایسی کارروائیوں کا اعتراف کر چکا ہے اسے ابھی تک مہمان بنا کر رکھا ہوا ہے وہ واپسی دیں گے۔ ہم تجارت تو روک نہیں پائے ، نمک ، پیٹرول بھارت میں جا رہا ہے اور وہاں سے آنے والے پانے کے پتے ، چھالیاں کی قیمت آسمان تک پہنچ چکی ہے۔ لال نمک جیسے دولت سے مالامال ہے پاکستان مگر کوڑیوں کے بھاو میں بھارت کو بیچ رہا ہے ۔ یہی حساب افغانستان سے تجارتی ٹرکوں کو بھارت تک راہ داری دینا۔ یہ سب دنیا سے مخفی نہیں۔ ایک طرف بھارت آپ کی گردن کاٹنے کے در پر ہے اور دوسری طرف آپ کی ھمدردیوں کا سلسلہ ایسا سلسلہ ہے کہ ختم نہیں ہوتا۔ وہ آپ کے ملک کو پانی بند کر کے بنجر کر رہا ہے اور آپ ان کے لیے سبیلیں لگا رہے ہیں ۔ ننکانہ صاحب میں پیسے نہ ہونے کے باوجود اتنے بڑے پیمانے پر سکھوں کے لیے سڑکیں بنوانا ان کی عبادت کی راہ کھولنا اور انہیں ہر قسم کی سہولت اور تحفظ دینا اور دوسری طرف عرس مبارک خواجہ معین الدین اجمیری پر جانیوالے پاکستانیوں کی ننگے کر کے ان کی تلاشی لینا ، ان پر جاسوس لگا دینا ، ویزے نہ دینا ۔ صاف الفاظ میں یہ پیغام دیتا ہے کہ پاکستانی سفارتکاروں کی کوئی حیثیت نہیں جب ایسا ہے تو بھارت کا سفارتخانہ کیوں ؟ جب بھارت جیسے منہ زور دہشت گرد آپ کے بارڈز پر تاک لگائے بیٹھا ہے کہ کب دھیان ادھر ادھر جائے تو ہم حملہ کریں دوسرے طرف ایران اور افغانستان کیساتھ ملک کر بلوچستان میں ایسے بلوچوں کو خرید کر کارروائیاں کر رہا ہے جو پوری دنیا کے سامنے عیاں ہیں ۔ اس کے باوجود ہم گھلے گھلے جا رہے ہیں ۔ یقینا اس کا بہت بڑا ازالہ بھگتنا پڑے گا۔
انسانیت کا پرچار کرنا اور ہر انسان کو برابر قرار دینے کی خواہش یقینا ہمیں ایک دن اس در پر لے آئے گی جہاں اچھائی اور برائی ایک جیسی ہو جائیں گی ، مطلب قادیانی بھی بھائی ، ھندو بھی بھائی ، سکھ بھی بھائی ، عیسائی بھی بھائی سب بھائی بھائی تو جھگڑے ختم۔۔۔ دنیا بھی تو یہی چاہتی ہے کہ ان کا مذہب ان کا دین آپ قبول کر لیں جو کہ اب تقریبان کرتے جا رہے ہیں ۔ اسلام آباد میں مندر بنانے کا اعلان، اس کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنا جیسے معاملے بھی منظر عام پر آئیں گے۔ اور قادیانی بھی اسمبلیوں میں برجمان ہونگے اور سیاسی باگ دوڑ سنبھالیں گے۔ جو نبی آخرالزمان حضرت محمد کے بعد بھی اپنے پیروکار کو نبی کا درجہ دیتے ہیں جیسے عدالتیں کافر قرار دے چکی ہیں اسے بھی مستقبل میں مسلمانوں کی صف میں کھڑا کر دیا جائے گا۔
پاکستان کے معاملات ہمارے اندرونی معاملات ہیں کسی ملک کو اختیار نہیں کہ وہ ھمارے گھر کے معاملات میں مداخلت کرے اور اپنا قانون چلائے۔ عوامی ووٹوں کی طاقت سے منتخب ہو کر جانیوالے طاقتور لوگ ووٹ کی وجہ سے طاقت ور بنے ہیں مطلب دیدہ دلیری سے بغیر کسی چاپلوسیوں اور خوشامدوں کے اپنے فرائض انجام دیں ۔ ہم سب کے لیے سب سے افضل ہمارا ملک ہمارا پاکستان ہے ہمیں کوئی ضرورت نہیں کسی کے مذھب کو پروموٹ کرنے کی، ہم اپنی دینی اداروں کو آج تک بجلی تو مفت نہیں دے سکے۔ مساجد میں آج بھی ھزاروں کے بل ڈال دیئے جاتے ہیں ، حافظ قرآن دین کی کتاب پڑھانے میں زندگیاں لگا دیتے ہیں مگر ان کے لیے آج تک کوئی وظیفہ مقرر نہیں کیا گیا۔ اپنا گھر کے حالات بہتر کیے جائیں مساجد جو کے اللہ کا گھر ہے اس گھر کی قدر کی جائے اور لوگوں کو اپنے بہتر اسلوب سے دین کی تبلیغ دی جائے نا کہ رام رام جپنا پرایا مال اپنا والی کہاوت بن جائے۔
جو فیصلہ کئے جا رہے ہیں اس کا صاف مطلب ہے کہ ہم نے ھار مان لی ہم نے مان لیا کہ تمام دوسرے مذاھب افضل ہیں اور دین اسلام کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس وجہ سے مساجد کو تجاوزات قرار دے کر گرایا جا رہا ہے۔ مدرسوں کو بند کروایا جا رہا ہے لوڈ اسپیکر تو پہلے ہی بند ہے اب عید میلاد النبی ، عید الفطر ، عیدالضحی اور دیگر مذہبی تہواروں کو بھی ہم نے کورونا وباء کے تلے دبا دیا ہے ، نماز جمع کی آج بھی سندھ میں ادائیگی تقریبا” نا ممکن سی ہے۔ ہم نکل پڑے ہیں مندر بنانے۔ مندر سے بہتر ہے بچوں کے لیے تعلیمی ادارے بنائیں۔ تمام اقلیتیں قابل احترام ہیں مگر تعلیم کے بغیر کچھ نہیں۔ تعلیم کے معیار کو مزید بہتر کریں اور پرائیویٹ اسکولوں کی لوٹ مار کو بند کریں۔ تحریک انصاف جو انصاف کا دعوی لے کر حکومت میں آئی اب بھی اس کے علم میں ہونا چاہئے کہ لوگ آج بھی گلیوں میں سرعام لُٹ رہے ہیں اور لوٹنے والے کوئی اور نہیں تاجر ہیں وہ منافق ہیں جنہوں نے یوٹیلیٹی اسٹوروں کیساتھ ملک کر ہزاروں ٹن چینی جمع کی اور اب ٨٠ روپے کلو بیچ رہے ہیں ، آٹا جوں کا توں ہے ، کھانے کے تیل کے ریٹ اسمانوں سے باتیں کر رہے ہیں ۔ روزگار ختم ہو چکے ہیں مگر کرپشن بڑھ چکی ہے ریڑھی والا ٤٠ روپے کلو والی سبزی میں پولیس کا بھتہ ملا کر ١٤٠ روپے کلو میں بیچ رہا ہے اور صوبائی حکومتیں ابدی نیند سو رہی ہیں اور وفاق بھی خاموش ہیں۔ خدارا ! ملک کے غیور عوام کو ریسکیو کیا جائے ان تاجروں سے نجات دلائی جائے جو غریبوں کا آئے روز خون کر رہے ہیں یہ سب سے اہم کاموں میں سے ایک کام ہے۔ ناکہ کہ ہم ہمسائیہ ممالک کو خوش کرنے نکل پڑیں۔

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *