| |

ہمیں امریکا کیساتھ ہو کر کیا ملے گا؟

ہمیں امریکا کیساتھ ہو کر کیا ملے گا؟

فیصل شہزاد چغتائی
Ad Setup by Google
تحریر: فیصل شہزاد چغتائی
 
جس امریکا کے پیچھے دم ھلا کر سب یکے بعد دیگرے جا رہے ہیں اس سے ہمیں کیا ملنا ہے، ہم کسی ایسی ملک کو سپر پاور سمجھ کر اس کی پرستیش کرنے نکل پڑے ہیں ایسا ملک جس نے ہر موڑ ہمیں دھوکا دیا اور ابھی بھی کینہ بغض رکھتا ہے۔ جس جغرافیہ پر ہمارے ملک کا وجود ہے اس جغرافیائی حساب سے اب سی پیک کے بعد ہماری اہمیت و قدر پوری دنیا میں اہمیت کی حامل بن چکا ہے دنیا بہتر جانتی ہے کہ اب پاکستان بھی یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا ہوگا، تجارتی سطح سے چائنہ کو راہداری دینا اور روس سے تعلقات مناسب رکھنا دو سطحی فوائدہ ہے جس سے ہمارا ملک دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرے گا جو کہ دنیا کو چبھ رہی ہے ۔ ابھی تک سی پیک ہضم نہیں ہوا ، اس کے بعد روس سے تعلقات مزید بہتر کر لیے یہ ایک اچھا سفارتی قدم تھا اس کا تمام تر سہرا وزیر اعظم عمران خان کو جاتا ہے۔ جو بہتر مستقبل کی نوید ہے۔
میری نظر سے آرمی چیف صاحب کا بیان گزرا جس میں انہاں نے کہا کہ ہم روس کی یوکرین پر حملے کی حمایت نہیں کرتے ۔ ایک طرف تو ہماری فوج نے کھل کر دنیا کو کہہ دیا تھا کہ ہم صرف اپنے ملک کے دفاع کے لیے ہیں دوسری طرف اپنے ملک کے مفادات کو چھوڑ کر امریکا کی جھولی میں بیٹھ جانا کچھ سمجھ سے باہر ہے۔
ہر ملک اپنا ایک وجود رکھتا ہے اور آگے بڑھنے کے لیے اپنی پالیسیاں ترتیب دیتا ہے تاکہ ملک میں ترقی ہو ، کاروبار بڑھے نوجوان دوسرے ملکوں کی بجائے اپنے ملک میں روزگار حاصل کریں اور اپنے کاروبار کریں۔ مگر لگتا یہ ہے کہ کسی کو ملک کی ترقی عزیز نہیں ۔ ٣٠ سے ٣٥ سال تک جمہوریت کے نام پر باریاں لینے والوں کا ملک کو لوٹ لوٹ کر اب تک پیٹ نہیں بھرا، ہر دور میں روٹی کپڑا اور مکان اور سستا گھر روزگار اسکیم فلاں اسکیم آٹا سکیم گھی سکیم دیکر لوگوں کو فقیر بنایا۔
اگر ماضی میں نیشنل لیول کی سیاسی جماعتیں اپنا بہتر کردار ادا کرتیں تو آج اس ملک کا ہر نوجوان ان کے گن گا رہا ہوتا، ادھر تو کراچی کو ہی لے لیں اس کی گلیاں ، سڑکیاں گھنڈرات کی منظر کشی کرتی تھی ، گند کے پہاڑ ، نالے گندگی ، بارش آنے پر گردن تک گٹروں کا پانی، فلائی اور بھر جانا کیساتھ ساتھ تمام گرین بیلٹ پر لگے درخت پودوں کا غائب ہو جانا ، پارک کی جگہوں پر پلازے تجارتی مراکز کا بن جانا ، گراونڈ ویران ہو جانا ۔ غرض یہ کہ اتنی ذیادتیاں روا رکھی گئیں کہ لکھ لکھ کر تھک جائیں مگر یہ ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
بچوں سے کھیلنے کے گراونڈ ، نوجوانوں سے انٹرٹینٹمنٹ کرکٹ فٹ بال ھاکی اور دیگر سپورٹس کی تمام سہولیات چھین لی گئیں۔ یہ عکاسی صرف کراچی کی ہی ہے جس میں گزشتہ پندرہ سالوں میں گرین سے برون اور اب صحرا کا منظر گراونڈ دیتے ہیں۔ اور سڑکوں کے اطراف میں درخت ، گرین بیلٹ کا تو نام و نشان نہیں، کورنگی انڈسٹریل ایریا میں ڈبل روڈ جو قیوم آباد سے لانڈھی تک دوباری بنی اس میں گرین بلٹ ایک خوبصورتی تھی اور انڈسٹری ہمشیہ سے ہر ملک کی ریڑھ کی ھڈی کی اہمیت رکھتی ہیں مگر افسوس اسوقت بھی اگر کورنگی روڈ سے گزر کر دیکھا جائے تو دونوں اطراف سبزہ نام کی کوئی چیز نہیں۔ اور نہ اس بارے کوئی سوچ۔ بس کھاو پیو اور چلتے بنو۔
 
یہ تمام وہ تھوڑی تھوڑی جھلکیاں جو صبح سے شام تک ہم سب کی نظر سے گزرتی ہیں ۔ اب اگر حالات مارکیٹوں دکانداروں ، گرانفروشوں دودھ بیچنے والے گوالوں ایسے مافیا کا تذکرہ کیا جائے تو انہیں فل پروف آزادی ہے جب کبھی ان پر تھوڑی سختی کر بھی دی جائے تو مقامی تھانے سینہ چوڑا کر کے انہیں من مانی قیمتوں پر اشیاء کی فروخت کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں جس کے عوض اچھا خاصہ معاوضہ منتھلی ان تک تھانوں میں ہی پہنچ جاتی ہے۔ صرف کراچی کے تھانوں کے نیٹ ورک کو ہی اگر سدھار دیا جائے یا یہ جو بھتہ پولیس سبح سے شام تک وصول کرتی ہے اسے ہی آفیشل کر دیا جائے تو یقین مانیں ٹیکس سے ڈبل رقم ہر ماہ قومی خزانے میں جمع ہو سکتی ہے۔ مگر اتنے سال گزرنے کے باوجود آج تک ہم تھانوں کو سیدھا نہیں کر سکے۔ آج بھی اگر آپ موٹر سائیکل کی گمشدگی کی ایف آئی آر درج کروانے نکلیں تو ھزار سے کم جیب خرچ کے بغیر اندراج نا ممکن ۔۔۔۔
 
تحریک انصاف جب حکومت میں آئی تو اس نے وعدے کیے حکومت میں آنے سے پہلے اور بعد میں مگر جب صوبائی حکومتیں میں نہ مانوں والی بات کریں گے اور اپنی من مرضیاں کرتے رہیں گے تو کیا ممکن ہوگا، معذرت کیساتھ صوبے اپناحصہ تو لینے کے لیے جان کی بازی لگا دیتے ہیں مگر افسوس صوبائی نظام کے اندر جو ناسور ادارے ہیں ان کی ھڈدھرمی کی انتہا ہے ، چاہے وہ کے ایم سی ہو ، واٹر بورڈ ہو یا دیگر گورنمنٹ کے ادارے سب بس مہینے کے آخری دو چار دنوں میں آتے ہیں اور تنخواہ لی اور چلتے بنے۔ کراچی جہاں چار بڑے انڈسٹریل زون اپنا وجود رکھتے ہیں وہاں ہر یونین کونسل میں مارکیٹیں بازار اور دکانیں موجود ہیں۔ آج تک کراچی جیسے بڑے شہر میں پرائس کنٹرول کرنےو الے ادارے پرائس کنٹرول نہیں کروا سکے۔ بس دو گالیاں حکومت کو دیتے ہیں اور سو روپیہ بڑھا دیتے ہیں۔ اللہ اللہ خیر صلہ۔۔۔
گورنمنٹ سکول میں بچوں کے واش روم ، پینے کا پانی کا نظام کچھ بھی نہیں سب زیرو ، کھیل کے گروانڈ سکول میں نہیں سب زیرو ۔ مارکیٹوں میں قصائی بیٹھے ہیں جو صبح سے شام تک عوام کی کھال اتارتے ہیں کوئی ادارہ و سرکار نہیں جس کا سکہ چلتا ہو ۔ پیپلزپارٹی ہو ، ن لیگ ہو ، ایم کیو ایم یا دیگر کوئی اور جماعت جس جس نے کراچی میں اپنے پنجے گاڑے صرف کھایا ہے کچھ ڈیلیو نہیں کر سکے۔ نعمت اللہ ناظم جب تھے مجھے یاد ہے ان کے بعد جب مصطفی کمال ناظم کراچی بنے تو اس نے جان توڑ محنت کی کراچی پر مگر بدلے میں اسے بھی کچھ نہ ملا آخر وہ سب چھوڑ کر چلا گیا۔
 
کیا ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ جو ملک میں مخلص آتا ہے اسے بھاگنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے یا بھگا دیا جاتا ہے ؟ اب اتنے سالوں کے بعد اگر کسی نے کچھ کرنے کی ٹھان ہی لی تھی تو باریوں پر باری لینے والی جماعتوں کو تھوڑا تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا، مہنگائی سب کو نظر آ رہی تھی عوام بھی اس پر تلملا اٹھے تھے۔ مگر ان پارٹیوں سے صبر نہ ہوا اور تحریک عدم اعتماد لے کر کود پڑے۔ اندھے کو بھی صاف نظر آتا ہے ایک طرف دنیا میں روس اور یوکرین کی جنگ کے بعد بہت سے ملک اس مہنگائی کے سیلاب کو بھگت رہے ہیں دوسری طرف پاکستان یعنی ہمارے گھر میں خانہ جنگی کا منظر بنا دیا گیا، سب جانتے ہیں کہ یہ صرف ایک شٹ اپ کال دینے سے ہوا ایسے ملک کو جس کے آگے پیچھے دم ھلا کر وفاداریاں کی گئیں۔ اور آج بھی انہیں کا حکم پر سر ھلا کر سب نکل پڑے تباہ کرنے۔
 
اسوقت اشد ضرورت تھی کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو یکجا ہو کر ملک کی ترقی کے لیے ہم پلہ ہونا چاہئے تھا مگر نہ تو انہوں نے اپنے دور میں کچھ کیا اور اگر اب کوئی اگر کچھ کرنے کی نیت سے آیا تو اسے بھی پہلے دن سے جعلی ووٹ ، ری پولنگ ، وزیر اعظم ماننے سے انکاری رہے جب سب معاملات ووٹ کی گنتی نے ظاہر کر دیا تو دل کھول کر مصنوعی مہنگائی کے جن کو پورے ملک میں اتارا گیا جس کا کام ہی ہر شہر گلی محلہ میں دندناتا رہا اور نقصان میں صرف غریب رہا اور فوائدے میں تاجر ۔
 
ملک و قوم سے محبت کا جذبہ بیدار کریں خدارا اس ملک کی قدر کی جائے جس طرح سیلف ریسپکٹ ایک لفظ ہر زندگی میں بہت اہمیت رکھتا ہے اس طرح سے اپنی ملک و قوم پر ایک لفظ کسی کا نہ سنیں۔ سیاست جس کا مطلب ہی خدمت گزاری ہے تو صحیح معنوں میں خدمت گزار ہونے کا ثبوت دیں۔ ملک کی اچھائی اور بہتری اور قوم کی فلاح و بہبود کے لیے ہر ممکن کوشش کریں اپنے کردار سے قوم کو ثابت کریں کہ آپ واقعی اچھے ہیں۔ اتنے کیس زیر التواء ہیں ضمانتوں پر ضمانتیں ، پکڑ سے پہلے ھزار ھا بیماریاں پھر فرار، عدالتوں کے بلانے پر بھی حاضر نہ ہونا، تو یہ کھلی بدمعاشی والا رویہ کہلاتا ہے۔ جس وقت صرف الیکٹرانک میڈیا یا اخبارات تک بات تھی تب تک معاملات ہر در تک نہیں پہنچتے تھے سب اچھا ہے کی رپورٹ تھی مگر اب سوشل میڈیا پر کوئی بات کسی سے مخفی نہیں رہ سکتی۔ ادھر بات نکلی ادھر سب سے شیئر ہو گئی۔ اب لوگ جاہل نہیں۔ اور تمام سیاسی و سماجی اداروں کو بھی یہ بات پلے باندھ لینی ہوگی کہ ملک پاکستان کی عوام اب بے وقوف نہیں اور اپنے ملک کی بہتری کے لیے یک جاں ہے۔
 
اسوقت ہمہیں کسی ملک کے اشاروں پر ناچنے کی بجائے اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرنا چاہئے ، سی پیک ایک ایسا پراجیکٹ ہے جسے دنیا تباہ کرنے کے در پر بیٹھی ہے ہر سمت سے سازشیں ہو رہی ہیں ۔ ایک طرف چائنہ اتنی بڑی انویسٹمنٹ سی پیک پر کر چکا ہے اور اب دیگر ممالک بھی پاکستان میں اپنی انڈسٹری انویسٹمنٹ لے کر آ رہے ہیں ۔ تو کیا موجودہ حالات دیکھ کر وہ تمام انویسٹرز پاکستان میں انویسٹمنٹ کریں گے؟ دنیا میں اب سب جانتے ہیں کہ کس نے کتنا ہاتھ مارا کتنی کرپشن کی اور کتنی لوٹ مار کر کے باہر کے ملکوں میں مال بنایا، اگر ماضی کی سیاسی جماعتوں میں اگر واقعی کوئی مخلص جماعت ہے تو پہلے اپنا دامن صاف کریں اور اپنی ذاتوں پر لگے الزامات کو ختم کروائیں اس کے بعد پاکستان کے خدمت گزار بننے کی کوشش کریں ۔ فی الوقت تو نا ممکن سی بات ہے پاکستان کے عوام اسوقت وزیر اعظم عمران خان کیساتھ ایک آواز بنے ہیں۔
 
کیونکہ وہ ملک و قوم کا عروج دیکھنا چاہتا ہے اس کا ٹارگٹ گول ہی کچھ اور ہیں ہم اور آپ تو نوکریاں تلاش کرنے کی جستجو کرین مگر وہ ہر فرد کی قسمت بدلنے کے در پر ہے ۔ وہ ہنر مند دیکھنا چاہتا ہے وہ اپنے کاروبار کرتے دیکھنا چاہتا ہے، ہمارے ملک سے لوگ دوسرے ملک جا کر نوکریاں کرتے ہیں ہمارا وزیر اعظم چاہتا ہے کہ دوسرے ممالک کے لوگ ہمارے ملک میں نوکریاں کریں۔ ہم شکر الحمداللہ پاکستانی ہیں اپنے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کی قدر کرنا سیکھیں اور حق اور سچ کا ساتھ دیں اپنا ضمیر کھنگالیں اور سوچیں کہ آج اتنے سالوں امریکا اور دیگر ممالک کیساتھ مخلصی کا ہمیں کیا صلہ ملا ہم نے اپنا ملک میں جو عذاب کی زندگیاں گزاریں ہر دن بم دھماکے ، ڈرون حملے ، قتل و غارت کے بعد ایک نئے پاکستان میں ہم آج سکون کا سانس لے رہے ہیں۔ ماضی کو یاد کرتے ہیں تو دل دھل جاتا ہے کیا اس وقت جمہوریت میں پی پی اور ن لیگ نہیں تھے جب ہر روز نعشیں ، قتل دھماکے ڈکیتیاں وارداتیں ہوتی تھیں اس وقت ان تمام معاملات کے ذمہ دار وہ تمام عناصر نہیں تھے جو جمہوریت چلا رہے تھے ۔ ؟؟
 
اب اپنے اور پرائے کے بارے میں جان لیں خدارا کسی کے ہاتھ استعمال نہ ہوں اور اپنے ملک کی ترقی و سالمیت کے لیے ملکر کام کریں اور ایسی کوئی حرکت نہیں کریں جس سے ہمارے ملک بدنام ہو ۔ ماضی کی غلطیوں کو اگر پھر سے دھرتا جاتا رہا تھا ہم غلام ہی رہیں گے اور اس ملک میں ٹھیکدار قابض رہیں گے ایک ٹھیکدار کے بعد دوسرا ٹھیکیدار ، بس اپنا اپنا مال بنائیں گے اور چلتے بنیں گے حالات نہیں بدلیں گے ، ٢٢ سال پہلے بھی مہنگائی کرپشن کا رونا تھا آج بھی مہنگائی کرپشن کا رونا ہے ۔ ہر رمضان عید و تہوار آنے سے قبل سفید پوش خاندانوں ، غریبوں کا قتل عام شروع ہو جاتا ہے گرانفرشوں کے ہاتھ منافع خوروں تاجروں کے ہاتھ ، خدارا عوام کو ریلیف دیں تاکہ عوام زندہ رہ سکیں۔ اگر یہی سلسلہ رھا تھا تو ہم کبھی ترقی کی راہ پر گامزن نہ وہ سکیں گے ۔
 
میری اداروں سے بھی گزارش ہے خدارا پاکستان کی بہتری کے لیے حق کا ساتھ دیں نا کہ کسی ملک کی شابشی کے لیے ان کی ہاں میں ھاں ملائیں ہمارا ملک زرعی اور معدنیاتی اعتبار سے مالا مال ہے اور اب تجارتی اعتبار سے سی پیک کے بعد مالا مال ہونے جا رہا ہے بہتر مستقبل ہمارا منتظر ہے کسی کی چال بازیوں میں آنے سے بہتر ہے ہم اپنے ملک کی بہتری کے لیے آگے بڑہیں اور کام مل جل کر کام کریں۔

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *