کالا ہرن
|

چولستان ڊا ”بزرگ“ جانور۔۔۔کالاہرن

 لکھت : نویدگل  
یوں ارض وطن کا کونہ کونہ خوبصورت اور دل موہ لینے والا ہے۔ قدرت نے جہاں اس سر زمین پر چار موسم اور بے شمار نظارے پیدا کیے ہیں وہاں اسے مختلف نوع کی جنگلی حیات سے بھی نوازا ہے۔ ملکِ عزیزکا مرکزی سرائیکی خطہ بھی ان علاقوں میں سے ایک جو قدرت کی بے شمار نعمتوں سے مالا مال ہیں۔ سرائیکی وسوں کے صحرائی علاقے تھل (سندھ ساگر دوآبہ) اور روہی (گم شدہ دریائے ہاکڑا کی سر زمیں جسے چولستان بھی کہا جاتا ہے)، اپنے دامن میں بہت سی نایاب و کم یاب جنگلی و صحرائی حیات لئے ہوئے ہیں مگر کالا ہرن ایک ایسا جانور ہے جس کی نسل تھل سے مکمل طور پر ناپید ہو چکی ہے جبکہ صحرائے چولستان روہی کے قدیم باسی روہیلے بھی کئی عشروں سے اسے دیکھےنے کو ترستے ہیں۔ روہی میں کالا ہرن اب صرف لال سوہانرا نیشنل پارک تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
 





کالا ہرن زیادہ تر ہندوستان میں پایا جاتا ہے اسی بدولت دنیا بھر میں اسے ہندوستانی ہرن بھی کہا جاتا ہے۔ لفظ ہندو کے لغوی معنی بھی کالا یا سیاہ کے ہیں۔ کالا ہرن کا سائنسی نام Antilope Cervicapra ہے۔ اینٹی لوپ یونانی لفظ “Anthalop” سے ماخوذ ہے جس کے معنی ”سینگ والا جانور “ کے ہیں جب کہ Cervicapra دو لائنی الفاظ Cervus بمعنی ہرن اور Capra بمعنی بکری، کا مرکب ہے۔ یوں کالے ہرن کے سائنسی نام سے مراد ایسا ہرن ہے جو بکری نما (سینگ والا ہو) ۔ مشرقی پنجاب اور ہریانہ کے علاوہ راجستھان اور گجرات کی ریاست میں اس کی نسل کے تحفظ اور افزائش کے لئے متعدد رکھوکھ (Sanctuaries) بنائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان اور نیپال بھی اس جانور کے آبائی وطن ہیں ۔ جب کہ امرےکا کی ریاست ٹیکساس اور لاطینی امریکی ریاست ارجنٹائن میں بھی اس کی افزائش کی جا رہی ہے۔ یوں دنیا بھر میں کالا ہرن کی افزائش کے اب تک صرف 13سنٹر بنائے گئے ہیں جن میں سے 2 سنٹر پاکستان میں ہیں۔ کیرتر نیشنل پارک سندھ میں جب کہ لال سوہانرا نیشنل پارک پنجاب میں ہے
 
تاریخ کے مطابق سابق ریاست بہاول پور کے آخری حاکم نواب صادق محمد خان عباسی پنجم نے لال سوہانرا کے مقام پر 1927ءمیں 17769ایکڑ پر مشتمل ریاست کا سرکاری جنگل لگوایا جسے فاریسٹ سب ڈویژن کی حیثیت دی گئی۔ بعد ازاں 1966ءمیں صدر مملکت ایوب خان کی دعوت پر بین الاقوامی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کے عہدیدار پاکستان آئے تو انہوں نے پاکستان میں جنگلی حیات کی مسلسل گھٹتی ہوئی تعداد کی وجوہات کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستان کے علاقے بہاول پور میں ایسی آب وہوا موجود ہے جو کالے ہرن کی افزائش کے لئے موثر ہے۔ سو اس غرض سے صدر ایوب کے دور حکومت میں لال سوہانرا کے مقام پر جنگلات کے لئے مزید کئی ہزار ایکڑ مختص کئے گئے جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں 26 اکتوبر1972ءکو سابق ریاست بہاولپور کے اس سرکاری جنگل کو نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا۔ ایک لاکھ 60 ہزار5 سو 68 ایکڑ پر اراضی پر پھیلا ہوا لال سوہانرا اپنے اندر کئی جہان لئے ہوئے ہے مگر اس پارک کا خوبصورت ترین اور دلکش حصہ جسے ”ہرن محل“ کا نام دیا جا سکتا ہے، میں صرف چولستان سے مخصوص ہرن”کالا بک“ موجود ہے
 
سرائیکی زبان میں ”بک“ ہرن کے بچے کو کہتے ہیں۔ اپنے محصوص رنگ اور شکل و صورت کی بنا پر ہرن کی یہ قسم سرائیکی میں ”کالا بک“ کے نام سے معروف ہے۔ ”کالابک“ سے ہی انگریزی میں اس کا نام “Black Buck” وجود میں آیا۔
 
صحرائے چولستان کو اگر دو حصوں میں تقسیم کریں تو ایک حصہ گریٹر جبکہ دوسرا Lesser کے طور پر واضح صورت میں موجود ہے۔ چولستان خرد جسے سیمی ڈیزرٹ بھی کہا جا سکتا ہے، کے علاقے میں ہی لال سوہانرا نیشنل پارک واقع ہے۔ یہی نیم صحرائی علاقہ کالے ہرن کا آبائی وطن ہے۔ یہ ہرن گریٹر چولستان میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ روایت ہے کہ جنگ عظیم دوم کے بعد امریکی ایئر فورس کے ایک اعلیٰ افسر نے نواب صادق محمد خان عباسی پنجم سے کالے ہرن کا ایک جوڑا تحفتاً لیا جسے امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے جنگل میں افزائش کے لئے رکھا گیا۔ 2005ءمیں سامنے آنے والی ڈبلیو ڈبلیو ایف کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں کالے ہرن دو ہزار سے زائد کی تعداد میں موجود ہیں۔ 1972 میں جب لال سوہانرا جنگل کو نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا تو چولستان میں حد سے زیادہ شکار ہونے کی وجہ سے کالا بک قریباً معدوم ہو چکا تھا، اس لئے حکومت پاکستان نے ٹیکساس ہی سے کالے ہرن کے دس جوڑے منگوائے جنہیں یہاں افزائش سنٹر میں رکھا گی
 
لال سوہانرا نیشنل پارک کے Black Buck Breeding Centre میں اس وقت کم و بیش 582 ہرن موجود ہیں جن میں 223 کے قریب نر جب کہ 189 مادہ اور دیگر بچے ہیں۔ کالے ہرن کے کئی جوڑے فروخت بھی کئے جا چکے ہیں۔ لال سوہانرا نیشنل پارک کی انتظامیہ کے مطابق ایک جوڑا 60 سے 70 ہزار روپے تک فروخت ہوتا ہے۔ لال سوہانرا نیشنل پارک کے اس سنٹر سے دس جوڑے رحیم یارخاںکے علاقہ ٹوبہ ٹوکن والا پر بھی شفٹ کئے گئے جہاں ان کی افزائش جاری ہے۔ لال سوہانرا نیشنل پارک کا بلیک بک بریڈنگ سنٹر ایشیا بھر میں واحد سنٹر ہے جہاں کالا ہرن اتنی زیادہ تعداد میں موجود ہے
 
کالے ہرن کی خوراک میں درختوں کے پتے، سبز چارہ خاص طور پر برسیم، کیکر اور جنڈ کی پھلیاں اور چنے شامل ہیں۔ ایک جوڑے کے رہنے کے لئے تین سے چار کنال ایریا درکار ہوتا ہے۔ مادہ چھ ماہ بعد ایک بچہ جنم دیتی ہے جو تین دن ماں کا دودھ پی کر چوکڑیاں بھرنے لگتا ہے۔ چھ ماہ کے اندر اگر بچے کے سینگ نکلنا شروع ہو جائیں تو یہ اس بات کا اعلان ہے کہ وہ نر ہے۔ جو دو اڑھائی سال کی عمر کا کالا ہرن افزائش کے قابل ہو جاتا ہے۔ سینگ کے علاوہ نر اور مادہ کی پہچان یہ ہے کہ نرکے جسم کے اوپر والے حصے کا رنگ دو سال میں ہی کالا یا گہرا بھورا ہونا شروع ہو جاتا ہے لیکن نچلا حصہ سفید رہتا ہے جب کہ مادہ کا پورا جسم عمر بھر سفید اور ہلکا بھورا (لائٹ برا¶ن) ہی رہتا ہے۔ نر ہرن کے سینگ کم و بیش 28انچ لمبے ہوتے ہیں جن میں کم از کم 3 سے چار کنڈل بنے ہوتے ہیں۔ جوان نر ہرن کا قد قریباً32 انچ جبکہ وزن 25 سے45 کلو گرام تک ہوتا ہے۔ کالے ہرن کی عمر دس سے بارہ سال ہے جبکہ بعض صحت مند ہرن 18 سال تک کی عمر بھی پاتے ہیں۔ ”کالا بک“ ہرن کی ایسی قسم ہے جو دیگر کے مقابلے میں کم ایکٹو شمار ہوتی ہے۔ تاہم نر اور مادہ میں سے نر نسبتاً زیادہ ایکٹو اور جھگڑالو سمجھا جاتا ہے۔ نر ہرن کم و بیش 16 سے18 مادہ کو اپنے گھیرے میں لے کر ایک فرضی حصار بنا لیتا ہے جس میں دوسرے نر کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ چیت (فروری ، مارچ) اور ساون (جولائی، اگست) اس کی افزائش کا موسم ہوتا ہے۔ کالا ہرن انسان سے مانوس نہیں ہوتا بلکہ خوف کھاتا ہے۔ نر کالا ہرن افزائش نسل کی رت میں انسان کو قریب تک نہیں پھٹکنے دیتا بلکہ اگر کوئی قریب جانے کی کوشش کرے تو یہ حملہ بھی کر سکتا ہے۔ سرائیکی لوک ادب میں کالا ہرن سے متعلق کئی لوک کہانیاں اور ٹپے موجود ہیں۔ تھل اور روہی کے مقامی باشندے اپنے بڑے بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ ایک زمانہ تھا جب ان کے کھیتوںمیں کالے ہرن گلوں کی صورت میں چرتے اور قلانچیں بھرتے دکھائی دیتے تھے۔ اس بات کی گواہی 16ویں صدی عیسوی کے کلاسیکی صوفی شاعر شاہ حسین ؒکی کافی میں بھی ملتی ہے۔
 
کالے ہرناں چر گئیوں توں
شاہ حسین دے بنے
 
ہندی اساطیر کے مطابق کالا ہرن (جسے کرشنا جنکا بھی کہا جاتا ہے) چند رما (چانددیوتا) کی سواری اور خوش حالی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح ہندی اساطیر میں جہاں اسے کرشن مہاراج کا محبوب جانور تصور کیا جاتا ہے وہیں بدھ مت سے متعلق جاتکا کہانیوں میں اسے مہا تما بدھ کا 70 واں جنم بتایا گیا ہے۔ تھل اور روہی کے مقامی باشندے اسے بزرگ جانور سمجھتے ہیں۔ خاص طور پر چولستانی لوگ اسے ”روہی دا فقیر“ کہتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا یقین ہے کہ کالا ہرن ایسا بزرگ جانور ہے جو چولستان ایسے وسیع و بسیط صحرا میں بھولے بھٹکے مسافروں کو انسانی آبادی کا راستہ دکھاتا اور ٹوبوں (پانی کے قدرتی تالاب) تک ان کی راہنمائی کرتا ہے۔ لیکن کئی عشروں سے چولستان میں دفاعی اہمیت کے پیش نظر کئے جانے والے اقدامات و متعدد دیگر معروضی وجوہات کے باعث نہ صرف یہاں کے مقامی پکھی واس قبائل اپنے فطری نقل و حرکت کی آزادی کے حق سے محروم ہو چکے ہیں بلکہ بے تحاشہ غیر قانونی شکار ہونے کے سبب ”روہی دا فقیر“ کالا ہرن بھی اپنے قدرتی ماحول میں قریباً ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہرئے جہاں ایک طرف چولستان کی جادوئی آواز لوک فن کار فقیرا بھگت کا عزیز ایک 90 سالہ بزرگ نہال دہائی دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ”جڈاں دا روہی دا فقیر ختم تئے، روہی سنج تھی گئی اے “ (جب سے روہی کا فقیر (کالا ہرن) ختم ہوا ہے، یہ دھرتی ویران ہو گئی ہے)، وہاں عصر حاضر کا مجمان سرائیکی ساہر اشو لال اپنی ایک نظم میں یوں نوحہ کناں دکھائی دیتا ہے:
 
جیڑھا ماس کھاوے آکھو ہرنیاں دا
موئی ماءاپنی دا ماس کھاوے

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *