الرئيسيةمضامینفیصل شہزاد چغتائیامیر ریاست کے غریب لوگ ۔۔۔

امیر ریاست کے غریب لوگ ۔۔۔

امیر ریاست کے غریب لوگ ۔۔۔

 

جیسے جیسے جمہوریت کا شکنجہ مگرمچھوں پر سخت ہو رہا ہے ویسے ویسے ان کے چاھنے والے عوام کے گلے کے گرد رسی سخت کرتے جا رہے ہیں۔ جمہوریت میں بیٹھے لوگ خدارا ہرگز یہ بات نہ بھولیں کہ فیکٹریوں ، مارکیٹوں انڈسٹریوں میں جو تاجر ٹولہ سر گرم ہے وہ صوبائی سطح پر گلی محلوں تک پہنچ رکھتا ہے اور غریبوں کے لیے جینا تنگ کر رہا ہے تاکہ لوگ بھوک و افلاس سے مریں اور سڑکوں پر نکلیں اور احتجاج کریں اس طرح بغیر کچھ کہیں ان کا منصوبہ کامیاب ہو اور یہ ان کو سورس بنا کر میڈیا کے سامنے چیخ چیخ کر بولیں کہ دیکھا ہم نہیں کہتے تھے کہ نا اھل حکومت ہے۔
اپوزیشن پر ندامت کرنے کا دل کرتا ہے ان لوگوں نے سیاست کو جو رنگ دے رکھا ہے وہ عجیب ہے یہی وہ لوگ ہیں جو گزشتہ حکومتوں میں کھل کر اپنی اپنی باری میں لوٹ مار کرتے رہے اور یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہر دور میں غریبوں کو لوٹا، اور موجودہ جمہوری حکومت اپنا مکمل وجود رکھتی ہے مگر وہ ہرگز یہ بھول چکی ہے کہ لیگی حکومت میں ہمیشہ تاجروں کو نوازا گیا ، اور جب آپ نواز پر ہاتھ ڈالیں گے تو ان کے چہیتے بدلے میں حکومت کا نہیں ، عوام کا جینا دو بھر کر دیں گے اور کر بھی چکے ہیں۔

جس سمت سے بھی دیکھیں جس صوبے میں بھی دیکھیں جس گلی میں دیکھیں محلے میں دیکھیں ایک خود ساختہ سسٹم رائج ہو چکا ہے۔ وہ سسٹم اس وقت ہی کھل کر سامنے آئے گا جب اعلی نشستوں سے اُٹھ کر ان بے نسل منافع خوروں کے لوٹنے کے طریقے دیکھیں گے۔ ان کی اس تاجر مافیا ٹولے کی انٹیلی جینس ایسی ہے کہ اگر آٹا ٩٠ روپے کلو بیچنا ہے تو وہ خیبر سے لے کر کراچی تک ٩٠ روپے میں ہی فروخت ہوگا ، جو کرنا ہے کر لیں، ٹھیک اسی طرح دودھ مافیا، ٥٠ روپے لیٹر ملنے والا دودھ اگر ١٢٠ روپے فروخت کرنا ہے تو کرنا ہے جو کرنا ہے کر لو ، یہ ایک کھلا چیلنج ہے ریاست کی رٹ کو یہ لوگ گلی محلوں میں کھلے عام چیلنج کر رہے ہیں۔ اب اسی طرح روز مرہ جو زندہ رہنے کے لیے اشیاء ضروری ہیں ان میں گھی ، تیل ، چینی ، پتی ، آٹا ، دالیں ، جو ہر طبقہ خرید کرتا ہے اور انہیں تمام چیزوں پر بہت بڑا گیم چل رہا ہے۔ تحریک انصاف نے انصاف کا اور احتساب کا نعرہ لگایا اور شروعات کی۔ اچھا اقدام رہا، مگر افسوس اس تمام مرحلے میں وہ ایسے عناصر کو بھول گئی جو قتل عام کر رہے ہیں ہر روز گلی محلے میں غریبوں کا قتل ہو رہا ہے اس کی وجہ نیکا تھانیدار ہے کسی بھی صوبے میں ہو ، شہر میں ہو یا دیہات محلے میں نیکا تھانیدار سب معاملہ محترم قائد اعظم کی تصویر والے نوٹ دیکھ کر رفع دفع کر دیتا ہے۔ اب ریاست اوپر اوپر حکم چلاتی رہی، مہنگائی کا رونہ روتی رہی ۔۔۔ میڈیا مہنگائی ، کرپشن ، لوٹ مار دیکھاتا رہے کوئی فرق کسی کو نہیں پڑتا۔

میں پہلے بھی نشاندھی کر چکا ہوں کہ بنیاد کو سدھارا جائے اور ریاست کے خلاف چلنے والوں کو لگام ڈالنے کے لیے سب سے پہلی دیوار مقامی پولیس یعنی نیکا تھانیدار ہے جو حکم منسٹری سے نیچے تک آتا ہے وہ نیکے تھانیدار کے کوٹ میں آ جاتا ہے اور نیکا تھانیدار مُک مکا کر کے حساب کتاب کبھی دن کی روشنی میں اور کبھی رات کی تاریخی میں برابر کر دیتا ہے۔ اب زبانی جمع خرچ کارروائی جی ہو گئی ۔ کچھ بندے جو جیب گرم نہیں کرتے اٹھا لیے میڈیا ٹرائل ہوا اور کام ٤٨ گھنٹوں میں اختتام کو پہنچا۔ غریب کے بارے کچھ نا ہوا ۔ مزید اگلے دن کھل کے لوٹ مار ۔۔۔ ١٤٠ روپے لیٹر تیل ملنے والا ٢٤٠ روپے لیٹر ۔۔۔ آٹا ٥٠ روپے کلو سے ٨٥ روپے کلو ۔۔۔ گھوم پھیر کر ان تمام کے قصور وار نیکے تھانیدار نکلتے ہیں ، ٹریفک کانسٹیبل کھل کر بھتہ لیتے ہیں جس کی وجہ سے زمین سے ٥ روپے کلو چلنے والا آلو شہر تک ٨٠ روپے کلو ہو جاتا ہے۔

جمہوریت میں بیٹھے تمام اعلی افسران سے چھوٹی سی گزارش ہے خدارا غریبوں کے جینے کے لیے کوئی ایسا در کھلا رکھیں جہاں سے انہیں زندہ رہنے کا سامان سستا مل سکے۔ یوٹیلیٹی اسٹور ایک اچھا پلیٹ فارم تھا مگر افسوس رعایتی لسٹ تو لگی ہے مگر کسی یوٹیلیٹی اسٹور پر ، آٹا چینی دالیں سستی نہیں اور گھی اور تیل کے علاوے تو کچھ ملتا ہی نہیں ان پر ۔ تو جمہوریت کی کون سن رہا ہے اور کون مان رہا ہے سب اپنی من مانی کر رہے ہیں اور اگر کسی سے کہیں کہ بھائی چینی تو کل آپ نے ٧٠ روپے کلو دی تھی تو وہ یہ کہتا ہے پچھلے تین ماہ سے میں چینی ٩٥ روپے کلو بیچ رہا ہوں ۔ آٹا پچھلے ہفتے اگر آپ ٦٥ روپے کلو لیں گے تو اس ہفتے اک ریٹ ٨٤ روپے کلو ۔۔۔ کل سبزی کا جو ریٹ تھا وہ آج ٢٠ روپے اضافے کے ساتھ فروخت ہو رہی ہیں ۔۔۔ انڈے ١٨٠ روپے درجن۔ میرا مقصد اعلی حکام کو ریٹ لسٹ بتانا نہیں صرف اتنی توجہ دلانا ہے کہ خدارا ، گلی محلوں کی سطح پر ایمرجنسی بنیادوں پر کمیٹی تشکیل دی جائیں یا جو ٹائیگر فورس پاکستان تحریک انصاف نے ترتیب دی ہے اسی سے مانیٹرنگ کروائی جائے اور ریاست پورے ملک میں بغیر بلا تفریق کارروائی عمل میں لائے اور پرائس لسٹ آویزاں کی جائے۔

دکاندار کس طرح بچ جاتے ہیں تو دکاندار اس طرح سے بچتا ہے کہ وہ بلیک نوٹ چھاپ رہا ہے نہ اس نے ایف بی آر کو ٹیکس دینا ہے نہ ہی کسی قسم کا حساب کتاب رکھا ہوا ہے نہ ہی کسی کو بل دیتا ہے اور نہ ہی ٹیکس دیتا ہے اب جو کرنا ہے کر لو جب ایک گاھک کوئی چیز آپ سے خرید رہا ہے تو اس کا بل اصرار کرنے پر کچا بنا کر دیا جاتا ہے جس پر نہ ہی دکان کا نام ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی اسٹمپ اور سائن۔ مطلب کھل کر حرام کھایا جا رہا ہے۔ ایف بی آر ایسی تمام دکانیں جو محلے گلیوں میں چل رہی ہیں ان کو این ٹی این بنا کر دے اور ان کو پابند کرے کہ وہ اپنی دکان کے نام سے رسید بک بنوائیں اور اس پر این ٹی این نمبر تحریر ہو ۔ اور جو چیز فروخت کریں اس پر قیمت لکھیں کہ کتنے کی چیز فروخت کی ہے ۔ تب کہیں جا کر یہ تمام کالا دھن جمع کرننے والے مانیٹر ہو سکتے ہیں۔ اور کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے اگر فیکٹری یا ڈسٹری بیوٹر سامان مہنگا سپلائی کر رہا ہے تو اس طرح ان ڈسٹری بیوٹر ، فیکٹری اور سپلائرز کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے ۔

جمہوریت میں بیٹھے اعلی حکام سے گزارش کرونگا کہ خدارا غریبوں کو اس طرح سے ختم نہ کیا جائے اور جو عناصر گلی محلے کی سطح پر تجارت کے نام پر ناجائز منافع کما رہے ہیں ان پرزنجیر سخت کی جائے مگر اس سے پہلے بیل کو مضبوطی سے باندھا جائے مطلب جو نیکے تھانیدار ہیں ان کی بھی لائیو مانیٹرنگ کی جائے کیمرے نصب کیئے جائیں ان کی وردیوں پر اور لائیو ٹریکنگ کی جائے نیکے تھانیداروں کی تو یقینا پچاس فیصد کرائم تو ویسے ہی ختم ہو جائیں گے۔ رہ گئے باقی نیکے تھانیدار کیمرے اور وائس ریکارڈنگ کے ڈر سے خود دکانداروں ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں سے نمٹ لیں گے۔

اس وقت جہاں ہنگامی بنیادوں پر دوسرے معاملات دیکھے جا رہے ہیں ٹھیک اسی طرح ہنگامی بنیادوں پر مہنگائی کے جن کو لگام ڈالی جائے وگرنہ یہ جو ٹولہ شاہنواز بنا ہوا ہے یہ مختلف اپوزیشن میں بیٹھی سیاسی پارٹیوں کے اشاروں پر ناچتا رہے گا اور غریب ہر روز مرتا رہے گا اور موت کا رکس کبھی ختم نہ ہوگا، جب بھوک و افلاس سے لوگ مریں گے تو لوگوں کے دل سے دعائیں نہیں بددعائیں نکلیں گئیں اور کسی غریب کی آہ و بکار عرش کو چیر کر سیدھی رب کی بارگاہ میں جاتی ہے تو انجام ماضی کی حکومتوں کا بھی سامنے اور حال کی حکومت میں بیٹھے لوگ اگر اداروں کا قبلہ درس نہیں کریں گے تو حالات کچھ مختلف نہ ہونگے کیونکہ رب کی بارگاہ میں انصاف ہے اس سے سے کوئی نہیں بچ سکتا۔

از قلم
فیصل شہزاد چغتائی

مقالات ذات صلة

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا

الأكثر شهرة

احدث التعليقات