سرائیکی صوبے کا وجود ہر قوم کے لیے ناگزیر ہے

سرائیکی صوبے کا وجود ہر قوم کے لیے ناگزیر ہے

تحریر: فیصل شہزاد چغتائی

پنجابی خاندان چاہیں تو لکھوا سکتے ہیں جو صوبہ سرائیکستان میں جو حیثیت آج رکھتے ہیں کل بھی ان کی یہی عزت ہوگی اور وہ بھی صوبہ سرائیکستان کا حصہ ہونگے ان کی نسلوں کا مستقبل بھی بہتر ہوگا، یہ آواز کسی ذات پات ، زبان تک محدود نہیں یہ سرائیکی خطے کی ہے اگر یہ خطہ ترقی کی طرف نہیں آئے گا تو اس سے ہر قوم کو نقصان پہنچے گا، ہر صوبہ اکثریتی قوم ، زبان اور ثقافت کو مد نظر رکھتے ہوئے بنایا گیا، چاہئے سندھ ہو ، بلوچستان ہو ، پنجاب ہو یا خیبر پختونخواہ ، اس لیے اگر سرائیکی خطہ جس کا وجود بہت اہمیت کا حامل ہے اسے صوبائی حیثیت مل جاتی ہے تو اس خطے میں اکثریت قوم سرائیکی ،اپنی تہذیب و ثقافت کے ساتھ صدیوں سے آباد ہے، دوسری قوموں کے مد مقابل سرائیکی خاندان بڑی تعداد میں یہاں آباد ہیں اور صدیوں سے ایک سا جئٰ رہے ہیں ، تو ہمیشہ جہاں اکثریت ہو اسی قوم اور زبان کو فوقیت دی جاتی ہے۔ اپر پنجاب کے شہروں میں اکثریتی شہر پنجابی ہیں کیا کہیں پنجابی شہر میں سرائیکستان کا نعرہ لگا ؟ نہیں ہرگز نہیں نعرہ صرف وہاں لگتا ہے جہاں وجود ہو، وہاں سرائیکیوں کو وجود پنجابیوں کے مد مقابل بہت کم ہے ٹھیک اسی طرح سرائیکی خطے پر پنجابی قوم جو آباد ہیں ان کا وجود بھی بہت کم ہے مگر سب یہاں ایک دوسرے کیساتھ محبت رکھتے ہیں، پنجابی جو ان کے ذھن خراب کر رہے ہیں ان سے کہوں گا کہ ایسی حرکتیں کر کے ہمسائیہ ممالک کو خوش نہ کریں پاکستان حق رکھتا ہے کہ اس میں مزید صوبے بنیں تاکہ ہمارا ملک مزید ترقی کی راہوں پر چلے۔ اس سے ہر قوم و نسل کو فائدہ ہوگا، لفظ سرائیکستان یا صوبہ سرائیکستان یا سرائیکی صوبہ یا وسیب کا مطلب ہرگز ہی نہیں کہ کسی قوم کی تذلیل ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ خطہ جغرافیائی اعتبار سے بہت اہمیت رکھتا ہے اور یہاں ہر دوسرا فرد سرائیکی زبان پر عبور رکھتا ہے اور بولتا ہے کیونکہ سرائیکی قدیم علاقائی زبان ہے اس خطے پر تہذیب اپنا ایک وجود رکھتی ہے لوگ یہاں صدیوں سے ایک سا رسم و رواج رکھتے ہیں اس خطے میں بہت برادریاں آباد ہیں کجھ ہجرت کر کے آئے اور اب مقامی کہلاتے ہیں اور کچھ آباو اجداد سے اس خطے کے ہیں جو اس کے وارث کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہم سب پاکستانی ہیں اور ہماری قومی زبان اردو ہے مگر اس کے باوجود سندھ میں سرکاری اداروں میں سندھی زبان بولی جا رہی ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں زبانیں جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں صرف بات چیت کے لیے ہوتی ہیں کسی کو بہتر انداز میں اپنی بات سمجھانے کے لیے اس کی زبان میں آپ کو وہ بات سمجھانی ہوگی یہ بالکل ایسا ہے جیسے آپ امریکا ، یورپ چلے جائیں تو ان کو آپ کی اردو ، سرائیکی پنجابی سمجھ نہیں آئے گی تو آپ کو انگریزی میں انہیں بتانا ہوگا کہ آپ کیا چاہتے ہیں یہی حساب سرائیکی خطے کا ہے یہاں کے مقامی لوگوں کی مادری زبان سرائیکی ہے ان کو بہتر انداز میں سمجھانے کے لیے آپ سے اگر اردو پنجابی میں بولیں گے تو ان کے اوپر سے گزرجائے گی جب تک آپ انہیں بات ان کی لوکل زبان میں نہیں سمجھائیں گے تب تک وہ صرف ھاں میں ھاں ملاتے رہیں گے پلے کچھ نہیں پڑنا ۔
دوسری بڑی وجہ اس سرائیکی خطے کی محرومیاں ہیں جو ٧١ سال سے زائد سے چلتی آ رہی ہیں یہاں اتنے سالوں میں جو ڈویلپمنٹ ہونی چاہئے اس حساب سے اس خطے میں کوئی ڈویلیپمنٹ نہیں ہوئی جب ریاست کو صوبہ بنانے کے بجائے ون یونٹ میں بدلہ گیا اور اس کے بعد صوبہ بہاول پور بحالی کی تحریکیں چلتی رہیں مگر اس کو نظر انداز کر کے ریاست اور سرائیکی خطے پر مشتمل تمام شہروں کو بغیر کسی مقامی رضامندی کے پنجاب میں ضم کر دیا گیا، جس کا ازالہ آج تک وہاں کے لوگ بھگت رہے ہیں نہ ہی سڑکیں ہیں نہ ہی ہسپتال ہیں نہ ہی معیاری سکول ہیں ، نہ ہی ہسپتال ہیں اور نا مقامی سطح پر ان کے لیے انصاف کے در کھلے ہیں جہاں وہ اپنی داد رسی لے کر جائیں خیر یہ معاملات اپر پنجاب تک نہیں پہنچے ، وھاں کی رنگینیاں دیکھیں اور سرائیکی خطے کے شہروں کو دیکھیں تو صاف پتہ لگتا ہے کہ شہر اجڑ چکے ہیں یا جنگ سا منظر پیش کرتے ہیں یہاں کے لوگوں کے چہروں پر سوال ہے ۔ وہ ستر سال سے یہی سوال پوچھ رہے ہیں کہا ہمیں پاکستان میں کوئی حیثیت ملے گی ؟ جو انہوں نے قربانیاں پاکستان کے لیے دیں آج اس کے بدلے وہ کچھ زیادہ نہیں صرف اتنا چاہتے ہیں کہ انہیں بھی تسلیم کیا جائے، ان کے بچے ایم اے سرائیکی تو کر رہے ہیں ، گریجویشن تو کر رہے ہیں میٹرک تو کر رہے ہیں مگر ان کے لیے ان کی اپنی زمین پر کچھ نہیں وہ ہجرت کرتے ہیں لاہور اسلام آباد کراچی اور باہرلے ملکوں میں اپنی قسمت آزماتے ہیں کچھ تو بن جاتے ہیں کچھ کو یہ زمین کھا جاتی ہے اور اپنی خواہشات لیے منوں زمین تلے جا کر سو جاتے ہیں۔ اس خطے کے مقامی جن کے آباو اجداد یہاں صدیوں سے وجود رکھتے ہیں وہ حق رکھتے ہیں کہ انہیں ان کی شناخت کی صورت میں ایک صوبہ سرائیکستان دیا جائے جو کہ تعیصٻ ہے نا کہ تقسیم ہے کسی سلطنت کی اور نا ہی بادشاہت بنانے جا رہے ہیں۔ یہ بالکل تمام صوبوں کی طرح کا ایک صوبہ ہوگا ، اتنے ہی اختیارات حاصل ہونگے جتنے تمام صوبوں کو اختیارات ملتے ہیں ھاں البتہ یہاں کے نوجوان اپنے اس خطے کے لیے کچھ کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
بشمول ریاست بہاول پور اور ملتان سے ملحقہ شہروں سمیت جہاں سرائیکی اکثریت اور وجود رکھتے ہیں اگر ان کو صوبائی شکل مل جاتی ہے تو اس خطے پر ترقی ہوگی اور یہاں زراعت کو مزید تقویت ملے گی اور ہم مزید مضبوط ہوتے جائیں گے بصورت دیگر اس کا ازالہ ناقابل برداشت ہوگا۔ ہم زراعت سے اگر محروم ہو گئے تو جو آٹا چینی دالیں چاول ہم تک چند روپیوں میں پہنچ رہے ہیں وہ امپورٹ ہو کر ہزاروں میں چلے جائیں گے اور ہمارا ملک زراعی اعتبار سے بھارت ، افغانستان ایران اور چائنہ جیسے ممالک سے اناج لینے پر مجبور ہو جائے گا اور وہ جس قیمت پر فروخت کریں یہ پھر ان ممالک کی اپنی مرضی ہوگی۔ اور بدلے میں ہمیں ان کے ہر اچھے برے کاموں میں ھاں میں ھاں ملانی ہوگی ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ ہمیں فاقوں کے قریب کر سکتے ہیں اور وہ یہ نہیں دیکھے گے کہ پاکستان میں پنجابی ہے ، سرائیکی ہے سندھی ہے ، اردو ہے یا بلوچ، وہ صرف یہ دیکھیں گے کہ پاکستان کی عوام بھوک سے مرے گی۔ اور اس وقت ذمے دار وہ تمام لوگ ہوں گے جو آج اس سرائیکی خطے کی صوبائی حیثیت کیخلاف بول رہے ہیں وہ نہیں جانتے کہ مستقبل ان کی ان چند باتوں کی وجہہ سے تاریخ ہو سکتا ہے۔ دوسرا چند شر پسند افراد پنجابیوں کا لبادہ اوڑھ کر انہیں کہہ رہے ہیں کہ اگر سرائیکی صوبہ بن گیا تو سرائیکی ہمیں نکال دیں گے ، استغفراللہ ، ایسا کچھ نہیں، جو جیسے اب رہ رہا تھا ویسا کل بھی رہے گا اور اسی حیثیت سے جو اس کی آج ہے وہ کل ہوگی ایسا کہیں کچھ بھی نہیں ہونے جا رہا یا ہوگا کہ کسی کو اس خطے سے نکال دیا جائے اگر ایسا کچھ ہوتا تو جتنے لسانے صوبے ہیں اس میں ہر قوم آباد ہے اور وجود رکھتی ہے ان صوبوں میں سے تو آج تک کسی کو نہیں نکالا گیا، میری تمام قوموں سے گزارش ہے کہ کسی کی باتوں پر کان نہ دھریں اور بہتر سوچ اور سمجھ کے ساتھ ایک دوسرے کو تسلیم، اگر کہیں انہیں ڈر ہے کہ انہیں یہاں سے در بدر کر دیا جائے گا تو ایسا ہرگز نہیں جو لوگ ہجرت کر کے اس خطے پر آ کر آباد ہوئے اور جائیدادیں خریدیں کاروبار کیئے وہ کل بھی اسی حیثیت کے ساتھ اس صوبے میں رہیں گے۔ خدشات کے پیش نظر وہ چاہئیں تو تحریری معاھدہ کر سکتے ہیں کسی بھی صوبے میں کسی کو اختیار نہیں کہ وہ کسی قوم کو در بدر کر دے صوبائی حکومت اختیار نہیں رکھتی ہر پاکستانی جو شناختی کارڈ رکھتا ہے وہ کسی بھی صوبے میں سکونت اختیار کر سکتا ہے اور اپنے بچوں کے لیے روزگار کر سکتا ہے ۔
در حقیقت نقصان کن کو ہوگا جو لوگ اب پنجاب تقسیم کا شور مچا رہے ہیں نقصان در حقیقت ان کو ہونا ہے پہلا نقصان ان کا ووٹ بینک ٹوٹ جائے گا مطلب ان کے پاس مزید سیٹیں نہ ہونے کی وجہہ سے ان کی سیاسی حیثیت کم ہو جائے گی اور سیاسی نقصان کا زیادہ اثر صرف نیشنل پارٹیوں پر پڑے گا ، پہلا اثر مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق پر پڑے گا ، دوسرا اثر پی پی پی پر ، ن لیگ اور پی پی ہمیشہ اس خطے کے ووٹ بینک سے جیت جاتے رہے ہیں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ عمران خان نے اپر پنجاب اور سرائیکی خطے کے ساتھ ساتھ سندھ اور کراچی ، لاہور اسلام آباد کے شہروں سے اکثریت میں کامیابی حاصل کی، پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی کے پیچھے ان دو پارٹیوں کی باریاں ہیں جو انہوں نے بار بار لیں اور کبھی لیپ ٹاپ ، کبھی یلیو کیب کبھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرامز کبھی گھی ، آٹا دے کر ان لوگوں کو صرف خیرات تک محدود رکھا انہیں ڈویلپ نہیں کیا اور کرتے بھی تو کیوں اگر یہ پارٹیاں ایسا کرنے لگ جائیں تو لوگوں میں شعور بیدار ہوگا اور اگر شعور بیدار ہو گا تو لوگ ووٹ دینے سے پہلے سوچیں گے اور پھر ووٹ دیں گے جس طرح پی پی سندھ میں سوچنے کی اسطاعت ختم کر چکی ہے بس ٹھپے پے ٹھپہ لگتا ہے اسی طرح مسلم لیگ ن بھی اسی پالیسیوں پر چلی ، ماضٰ میں ایم کیو ایم نے بھی ان پالیسیوں کو سمجھا اور اس انداز کی منفرد سیاست کو اپنایا اور ٹھپے پر ٹھپے لگا کر اکثریتی نشستیں کراچی سے جیتیں اور بعد میں اپنی حرکتوں کی وجہہ سے اپنا سیاسی وجود کھو دیا۔ ایم کیو ایم اور ن لیگ تقریبا” صاف ہو چکی ہیں ، اب سیاسی گراونڈ میں دو نیشنل پارٹیاں بچی ہیں ایک تحریک انصاف اور ایک پی پی ، اب ان کے پاس کوئی دوسرا رستہ نہیں سوائے سرائیکی خطے کے لوگوں کو راضی کر کے ساتھ لے کر چلنے کہ۔ اگر یہ دو پارٹیاں پی پی سندھ کے ووٹ لیتی ہے تو صوبہ سندھ میں اعلی نشستوں پر برجمان ہو جاتی ہے اور پاکستان تحریک انصاف اگر اپر پنجاب اور دیگر شہروں سے نشستیں لیتی ہے تو وہ صرف اپر پنجاب کی صوبائی اسمبلیوں تک پہنچی گے ان دونوں جماعتوں کو سرائیکی خطے سے جیتنے والے لوگوں کو ملا کر ھی وفاق میں بیٹھنا نصیب ہوگا اس کے علاوہ کوئی دوسری رائے نہیں ۔
اب بات ہے صوبہ سرائیکستان کی ، تو جیسا کہ میں پہلے متعدد کالمز میں لکھ چکا ہوں کہ یوسف رضا گیلانی اور آصف علی زرداری صوبہ کی قرار داد پہلے سے جمع کروا چکے ہیں بس قرار داد تھوڑی تاخیر سے جمع ہوئی جس کی وجہہ سے آج تک دستخط نہ ہوئے۔ پی پی تو صرف الیکشن کے انتظار میں ہے اور اس کے بعد سرائیکی صوبے کا پتہ ہے اس نے چلنا ہے۔ سندھ کے لوگوں کا آنکھیں بند کر کے بھٹو کے نام پر ووٹ دینا اور سرائیکی خطے پر بے نظیر بھٹو کے خاندان سے محبت رکھنے والے سرائیکیوں کا وجود یہ ثبوت دیتا ہے کہ اگر آنیوالے الیکشن میں پی پی نے یہ پتہ چل دیا تو اگلے ١٠ سے بیس سال حکومت کرنیوالی واحد جماعت پی پی ہوگی۔ جس کا پی پی ارادہ بھی رکتھی ہے اور کافی پریس کانفرنس میں خود بلاول بھٹو بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ سرائیکی خطے کو اس کا حق سرائیکی صوبہ دیں گے۔ مگر وہ کراچی کو اس کی حیثیت دینے کے معاملے میں چپ سادھ لیتے ہیں ۔ اس بارے آج تک نہیں پتہ لگ سکا ، دوسری طرف تحریک انصاف ہے جس کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور ہے اور وہ اختیار بھی رکھتی ہے اگر وہ چاہئے تو صوبے کے لیے پی پی کی طرف سے جمع ہونیوالے صوبہ سرائیکی کی قرار داد پر دستخط کرے اور ریاست پر مشتمل ایک صوبہ تشکیل دے اور ملتان پر مستمل دوسرا صوبہ ، اور دونوں جغرافیائی اعتبار سے اہمیت بھی رکھتے ہیں ۔ اس میں تبدیلی کے چکر میں مزید تاخیر اس خطے کا مستقبل تاریخ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا سیاسی وجود بھی اس خطے سے ختم کر سکتی ہے ، جیسا میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ عمران خان صاحب وہ پہلے شخص ہوں گے جن کا نام تاریخ میں سنہری الفاظ میں لکھا جا سکتا ہے تاریخی فیصلوں کا وہ اختیار رکھتے ہیں اگر سرائیکی صوبہ ، سرائیکی خطے کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق بنا جاتے ہیں تو یقین مانیں سرائیکی خطے کا ووٹ بینک عمران خان کیساتھ ہوگا مزید لاہور کراچی اسلام آباد اور کرکٹ کی وجہ سے ان کی جو حیثیت ہر کرکٹر لور کے دل میں ہے وہ ووٹ تو ان کے ہیں ہی ، کراچی اسلام آباد لاہور جیسے شہروں سے بھی اکثریت حاصل کر کے آئندہ ١٠ سے ٢٠ سالوں تک وفاق کی باگ ڈور سنبھال سکتے ہیں اب یہ منحصر ہے ان دونوں پارٹیوں پر کہ سرائیکی صوبہ کا پتا کون چلتا ہے ۔ رہی بات ق لیگ اور ن لیگ کے ووٹ بینک کی اگر یہ دونوں جماعتیں مل کر بھی ایک جماعت کی شکل میں آتی ہیں تب بھی یہ سرائیکی خطے سے ملنے والے ووٹوں اور بڑے شہروں سے ملنے والے ووٹوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ تو برتری عمران خان حاصل کر جائیں گے ۔ مگر جس طرح ماضٰ میں نواز شریف نے غلطی کی اگر یہ بھی ایسی غلطی کر گئے تو ان کی سیاست اور کہیں سے رول بیک ہو یا نہ ہو لیکن سرائیکی خطے کے لوگ انہیں بہت بڑے پیمانے پر مسترد کریں گے اور جیت پی پی کی ہو گی اور اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی پارٹی نہیں بچتی اور پی پی کے پاس پلس پوائنٹ صوبہ سرائیکستان ہوگا۔ جس کی وہ حامی ہے۔
ایسے حالات میں بزرگ کہتے ہیں کہ بندے کو اپنی عزت بچانی چاہئے میں چوہدری برادران کو مشورہ ہی دے سکتا ہوں کہ اپنی اپنی عزت بچائیں اور ن لیگ کا دوباری سیاسی وجود میں آباد اس وقت تک ممکن ہیں جب تک پی ٹی آئی کوئی غلطی نہ کرے مطلب پاکستان تحریک انصاف اگر لوگوں کو خوش کرنے کے چکر میں کچھ غلط فیصلے کر جاتی ہے تو اس کے ریسپانس میں وہ اپنا سیاسی وجود بیلنس میں ہیں رکھ سکیں گے اور وجہ ہوگی وہ اعداد و شمار جو انہیں ان کا غلط فیصلہ اور صحیح فیصلے پر ملیں گے، اس وقت اگر ق لیگ سرائیکی خطے کے لیے درد رکھتی ہے اور حقیقی معنوں میں صوبہ کی حامی ہے تو محترم چوہدری پرویز الہی سے کہوں گا کہ وہ کھل کر حمایت کریں اور اس سرائیکی خطے کے لوگ جو مطالبہ کرتے چلے آرہے ہیں اس میں ان کا ساتھ دیں اور خود بھی حمایت کریں اور صوبہ سرائیکستان بنانے کے لیے آواز اٹھائیں۔ اس سے سیاست میں ایک تیسری نیشنل پارٹی وجود میں آ سکتی ہے اگر ق لیگ نے صوبہ سرائیکستان کے لوگوں کا اعتماد جیت لیا تو ایک تیسری جماعت جو ق لیگ کے نام سے ابھر سکتی ہے جو پی پی پی اور تحریک انصاف کی ٹکر کی جماعت ہوگی۔ اس بارے ق لیگ کی قیادت کو ضرور سوچنا ہوگا ، زبردستی اس خطے پر یہاں کے لوگ کسی کو بھی نہیں کرنے دیں گے ، یہ تمام نیشنل پارٹیاں جانتے ہیں اور اس خطے سے ذلیل ہو کر بھی گئی ہیں اور اس خطے کی اہمیت کو سمجھتے بھی ہیں ۔
قومیں آپس میں دیرپا اختلاف نہیں رکھ سکتی ہاں البتہ اگر سرائیکی اور پنجابیوں میں کچھ اختلاف چلا آ رہا ہے تو صرف اتنا کہ پنجابی سرائیکیوں کو بھی پنجابی ظاہر کر کے ان کی آبادی کو اپنے ساتھ ملا کر پوری دنیا میں پنجابیوں کو اکثریت میں دیکھا رہے ہیں اور پنجابی زبان کو اکثریت کا درجہ دے رہے ہیں جو کہ در حقیقت غلط ہے زمینی حقائق یہ ہیں کہ سرائیکی خطے میں سرائیکیوں کا وجود اہمیت کا حامل ہے اور آبادی اور جغرافیائی اور زبان کے حساب سے سرائیکی اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ کہ اکثریت میں ۃیں ۔ اور جہاں اکثریت ہو بات بھی ان کی ہی سنی جاتی ہے آپس میں محبت بھائی چارے سے ملکر اس خطے کی ترقی کے لے کام کیا جائے تو بہت بہتر ہوگا ۔ بصورت دیگر سرائیکی پنجابی لڑتے رہیں گے اور کھیت کوئی اور اجاڑ کر چلا جائے گا اور بعد میں پھر رونا لکھا ہوگا اور اس وقت ہم اپنی نسلوں کے مستقبل جلا چکے ہوں گے جو کہ ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ فیصلہ آپ کو کرنا ہے ۔ سرائیکیوں نے تو فیصلہ جب ریاست کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہوا تب سے کر لیا تھا جب ھندوستان سے پنجابی ہجرت کر کے آئے سرائیکیوں نے تب بھی خندہ پیشانی سے تسلیم کیا اور آج بھی پنجابی سرائیکی خطے میں بلا تفریق رنگ و نسل رہ رہے ہیں

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *