ایمان، ایٹمی طاقت اور سی پیک، جن کی کی تباھی کے لیے دنیا کھربوں ڈالر لگا سکتی ہے
تحریر: فیصل شہزاد چغتائی
ہمارا خداداد مملکت اسلامی ریاست ہے ایک مکمل فلاحی ملک جہاں ہر بلاتفریق تمام مذاھب ، زبانیں اپنا وجود رکھتی ہیں ۔ بھارت جیسے ملک سے الگ ہو کر اسلامی ریاست کو نقشے پر لے کر آنا بھارت کی حق تلفی نہ تھی اور نہ ہی بھارت سے اس ملک کو لیا، اس خطے پر برٹش حکومتوں کا وجود تھا جہاں انگریز رہے وہاں وہاں لوگوں کو غلامی کا نشئی بنا کر گئے ان کے جانے کے بعد بھی آج بھی ہم کہیں نہ کہیں ان کی زنجیروں میں جکڑے نظر آتے ہیں۔ جو نظام ہمیں ملا اپنا تھا سب برٹش حکومت سے ہجرت کر کے قانون میں آیا اور اب تک انہیں قونین کی پاسداری جاری و ساری ہے۔ ہر دور میں یہود و نصاری کی سازش رہی ہے کہ مسلم امت ، مسلمان یا مسلم ریاستیں کبھی پھل پھول نہ جائیں اور دین کا بول بالا نہ ہو ایک طویل مدت کے بعد یہ تمام لوگ اس طرح کا ماحول بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ مسلمان ریاست کا وجود پاکستان کے نام سے بنا ١٩٤٧ سے لے کر آج تک تاریخ گواہ ہے جس نے ابھرنے کے کوشش کی اس کو کس طرح ایک کونے سے لگا دیا گیا۔ جس نے دین حق کی آواز اٹھائی اس کا وجود کبھی غدار ، کبھی ضمیر فروش جیسے لقب دیکر مٹاتے رہے۔ یہود و نصاری خوب جانتے ہیں کہ مسلمان پختہ ایمان کا مالک ہے۔ کچھ بھی ہو جب تک اس کا ایمان سلامت ہے اس وقت تک ہم کچھ نہیں کر سکتے۔
پہلی جنگ جو الیکٹرانک ڈیوائسز کے نام پر شروع کی، ٹی وی ، ڈش اور پھر ٹیکنالوجی اور اب ٹیکناوجی کے ذریعے ایمان تباہ و برباد کر دیئے گئے۔ عریانیت فحاشیت دنیا میں سب سے زیادہ گندی ویڈیو دیکھنے کے مرکز میں ایک آج ہمارا ملک ہے جس میں سب سے زیادہ یہ مواد دیکھا جا رہا ہے تو یہ سب پھیلایا گیا ، ٹی وی کے ذریعے ، ڈش کے ذریعے ہر گھر میں عریانیت کا درس دیا گیا، سکولوں میں انگریزی تہذیب زبان کو اہمیت دی گئی اور قومی زبان اردو اور مقامی زبانوں کا بڑے پیمانے پر رد کیا جاتا رہا۔ بچوں کو جو تعلیمی نظام ملا یہ نظام صرف اس لیے ترتیب دیاگیا تھا کہ یہاں کے لوگوں کو اور ان کے بچوں کو اپنی طرز کا تعلیمی نظام دیکر انہیں غلام بنایا جا سکے۔
آج معذرت کیساتھ اکثریتی پاکستانی میں پرائیویٹ سکول بچوں کو صرف انگریز کی ثقافت ، رہن سہن ، کلچر اور ان کی زبان پڑھا رہے ہیں اور ہر ادارے میں بچوں کے ذھن کو صرف نوکری (غلامی) تک ہی محدود رکھا گیا ہے اور اب تو بچوں میں سیکس کی تعلیمات بھی نصاب میں آہستہ آہستہ شامل ہوتی جا رہی ہیں ، لڑکے لڑکیوں کو ایک جگہ پر ایک ساتھ تعلیم حاصل کرنا اور اس ماحول کو دفتروں میں نوکریاں ایک ساتھ کرنے کے ساتھ منسوب کرنا گویا ، کام کرنے کی مشینیں بنایا جا رہی ہیں جن کا کام بھی یہود و نصاری کی غلامی کو تسلیم کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہنا، آج بھی کسی پرائیویٹ اسکول کے بچے سے دین کے بارے کچھ پوچھ لیں تو انہیں محدود علم ہوگا کسی قومی ھیرو ، اسلامی ھیرو کے بارے میں سوال کر لیں تو لا علم ہونگے۔ وجہ وہ زہر ہے جو آہستہ آہستہ نوجوان نسلوں کی رگوں میں ڈالا گیا۔ آج ہر بچہ اپنے ہاتھ میں شیطانی ڈیوائس موبائل کو کمزوری بنا چکا ہے جو کہ بچے کو عریانیت فحاشیت اور فضولیات کا درس دے رہی ہے ان تمام کوششوں میں بلآخر یہودو نصاری کامیاب ہو گئے اور نوجوانوں کا آخر ایمان کمزور کر دیا۔ کامل مسلمان وہی رہ گئے جنہیں گھروں میں دین قرآن و سنت کی تعلیمات ماں کی جھولی سے ملیں۔ مدارس سے ملیں ۔ باقی تو آلہ کار بن چکے۔ پہلی جنگ ایمان کی جو ہم ھار چکے۔ شاید اب بھی ہمیں عقل آ جائے یا اللہ رب العزت کوئی ھدایت کا سلسلہ بنا دے دل بدل جائیں اور راہ حق پر آ جائیں اور اپنا ایمان مضبوط کر لیں جس سے کافر ڈرتا ہے اور جانتا ہے کہ اگر مسلمان میں کچھ سب سے زیادہ خطرناک چیز ہے تو وہ ایمان ہے۔
وہ ایمان کی طاقت ہی تھی جس نے ایسے ایسے محسن اس زمین پر پیدا کیے جن کے وجود کی اور خدمات کی بدولت آج ہم الحمداللہ دنیا کی اسلامی ایٹمی طاقت رکھتے ہیں اور پہچانے جاتے ہیں۔ دفاعی معاملات میں شاید ہی ایسی عسکری قوت کسی ملک کے پاس ہو جیسی ہماری عسکری طاقت ہیں جو ہر وقت ملک کے دفاع کے لیے چاک و چوبند رہتی ہیں۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد دنیا کو پاکستان کو وجود چبنے لگا کہ آخیر کیسے یہ ایک مسلم ریاست ایٹمی ملک بن گیا۔ ہمارے ملک کے بارے اگر ایسا کہا جائے کہ ہمیں دشمنوں کی ضرورت نہیں تو ایسا غلط نہ ہوگا کیونکہ ہم اپنے دشمن بغل میں رکھتے ہیں جو ہر وقت تاک لگائے بیٹھےہیں کہ کب حالات بگڑیں اور کب ہم حملہ کریں۔ ایٹمی پاور بننے کا سب سے بڑا نقصان ایسے ممالک کو ہو سکتا ہے جو پہلے سے ایٹمی پاور ہوں اور وجود رکھتے ہوں جس میں امریکا سرفہرست ہے جو نہیں چاہتا کہ اس کے علاوہ بھی دنیا میں کوئی ملک ایٹمی یا جوہری توانائی کا حامل ہو اور اہمیت رکھتا ہو اور وہ مسلمان ملک ہو۔ مسلمانوں کو تو یورپی ممالک ہوں ، امریکا ہو ان ممالک میں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے مگر دوسری طرف اس خطے پر پیدا ہونے والا ہر ٹیلنٹ ، ہنرمند ، نوجوان کو اچھی تنخواہوں کا جھانسہ دے کر اپنے ملکوں میں بلا لیا جاتا ہے اور پھر یہ خریدا جانے والا فرد استعمال ہوتا ہے اس وقت تک جب وہ ختم نہیں ہو جاتا اور جب وہ ختم ہو جاتا ہے تو اس ٹیلینٹ ، یعنی ھنر مند فرد کا نام و نشان ختم ہو جاتا ہے نہ ہی تاریخ میں کہیں اس کا تذکرہ رہتا ہے اور نہ ہی کوئی یاد کرتا ہے۔
١٩٤٧ کے بعد آج ٢٠٢٢ میں جب ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوا تجارت کے لیے نئے دروازے کھولے تو دوست ممالک جو سب سے قریبی تھا چین اس نے لبیک کہا جس پر بلوچستان جو قدرتی طور پر گرم ساحل رکھتا ہے اور گہرا ہے پر ایک تجارتی مرکز بنانے کی ٹھان لی اور آخر سی پیک کے نام سے ایک پراجیکٹ دنیا میں متعارف کروا دیا اور دنیا کی انڈسٹری کو انویسٹمنٹ کے لیے مدعو کرنا شروع کر دیا ۔ بیشک یہ ایسا پراجیکٹ ہے جس کے ساتھ چین کو پوری دنیا کی تجارتی منڈی میں اپنے سامان فروخت کرنے کے لیے کم خرچ میں راھداری ملی اور اپنی انڈسٹریاں پاکستان میں لگانے کا موقع ملا۔ جو دنیا کو ناگوار گزارا خوصا” ایسے ممالک کو جو تجارت پر پنجے گاڑے ہوئے تھے جہاں امریکا سپر پاور بننے کے بعد اپنا ون آرڈر دنیا پر مسلط کرنے کے پلاننگ کر رہا تھا وہاں اس منصوبے نے پانی پھیر کر رکھ دیا۔
یہ وہ رنجشیں ہیں جو سالوں سے چلی آ رہی ہیں اس رنجشوں کی بنیاد پر پابندیاں لگیں کبھی ایٹمی تجربہ کرنے پر ، کبھی دہشت گردی کے نام پر پاکستان کو بدنام کر دیا گیا، جس میں ہمسائیے ملک بھارت کا اہم کردار رہا اس کے ملک میں جب بھی پٹاخہ پھٹا تو اس کا الارم شروع ہو جاتا ہے جو میڈیا کے ذریعے پاکستان کو دہشت گرد کی تربیت گاہ اور دہشت گرد قرار دینے لگ جاتا ہے اور پوری دنیا میں اس نے پاکستان کو کبھی طالبان سے مشروط رکھا اور کبھی بارڈر کی خلاف ورزیاں کرتا رہا اور کبھی پانی بند کرنے کی دھمکیاں دیتا رھا۔ جس سے اسے دنیا میں سنا گیا اور ہر فورم پر اس کو اہمیت دی گئی۔ دنیا میں فرضی امن کا درس دینے والے ممالک امریکا نے امن امن کے نام پر پاکستان کو ماضی میں بھی استعمال کیا اور بھارت نے جو پاکستان کو دنیا میں گندا کیا اس گند کو صاف کرنے کے لیے اس وقت کے نادان سیاست دانوں نے لبیک کہا اور امریکا کو مائی باپ مانتے ہوئے ھاں میں ھاں ملاتے گئے اور پاک سر زمین کو نیٹو کی فوج کے لیے راہداری فراہم کی گئی جس کا نقصان قوم نے دھماکوں ، ڈرون حملوں سے اٹھایا۔ اب جب افواج کی انتھک محنت اور جدوجہد اور آپریشنز کے بعد امن کی راہ کھلی تو یہ امن چب گیا کیونکہ اس وقت Do More کو No More کہہ دیا گیا۔ کہ اب مزید یہ سر زمین کسی کی جنگ کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔ ہماری افواج ملک کے دفاع کے لیے استعمال ہوگی ۔
یہ وہ تین بنیادی چیزیں ہیں جو ہمارے ملک میں موجودہ صورتحال کو پیدا کر چکی ہیں ایمان تو پہلے سے کمزور کر دیئے گئے ۔ طاقت ختم کرنے کے لیے کب سے جدوجہد کی جا رہی ہے اور سی پیک پراجیکٹ جس کا دنیا میں طوطی بولنے لگا ہے تو اسے تباہ کرنے کے در پر ہیں کیونکہ اگر چین عالمی منڈی تک اپنی پراڈکٹ پہنچا دیتا ہے تو انٹرنیشنل مارکیٹ میں فروخت ہونے والے اشیاء کی خرید بہت کم ہو جائے گی جس سے امریکن انڈسٹری جو در حقیقت یہودی تاجروں کی بدولت چل رہی ہے اس کا دوالیہ نکل جائے گا اس لیے اس پراجیکٹ کو ھر حال میں بند کرنا لازمی ہے جس پر امریکا کھروبوں لٹانے کے در پر ہے وجہ امریکا کو پوری دنیا میں ایک آرڈر مسلط کرنے کا خواب ہے جہاں دنیا سے تمام بینک ختم کر کے ایک کرنسی مسلط کرنا ہے تاکہ ٹیکنالوجی کے نام پر دنیا ایک آن لائن سسٹم میں ضم ہو جائے اور تمام ٹرانسیکشن بزنس کاروبار آن لائن ہو جائیں ان ٹرانسیکشن کی سٹوریج کا سروس ڈیٹا سنٹر سپر پاور ، امریکا کے پاس رہے اور وہ جب چاہے کسی بھی ملک کی ڈور کھینچ کر اسے اپنی غلامی کی زنجیر پہنا دے اور اپنا من چاہا کام لے سکے اور دنیا پر حکومت کر سکے۔
تحریک انصاف عوامی ووٹ کے زور پر ابھر کر سامنے آئے اور اس نے ان تمام پوانٹ پر کام شروع کیا ایمان تازہ کرنے کی کوشش کی ، ایٹمی پاور ہونے کا دنیا کو دھرلے سے بتایا اور absolutely notکہا جو مزید تکلیف دہ گزرا ایک دو سی پیک کا درد تھا ہی اوپر سے اس لفظ نے ان زمینی خداوں کی شان میں گستاخی کر دی۔ وہ بیشک خاکے بنانے اور گستاخیاں کرنے میں لگے رہیں اس پر اگر آواز اٹھائیں تو انہیں چبھ جائے ۔ جو ماضی میں غلطیاں سیاست دانوں نے ھاں میں ھاں ملا کر کرتے رہے تو امریکا کو بھی نو سننے کی کبھی توقع نہیں تھی اسے بس یس چاہئے تھا ہر ملک سے ۔ ایک طرف روس کو رول بیک کرنے کے لیے نیٹو کو یوکرین کی دیوار پر بیٹھانے کی کوشش کی دوسری طرف چائنہ کو اپنے ملک تک محدود کرنی کی کوشش کر رہا ہے۔ یوکرین کا حال تو دنیا کے سامنے ہے اب چائنہ جو کہ پاکستان کیساتھ کورونا میں ساتھ کھڑا رہا ہے جب دنیا اس موذی مرض سے لڑ رہی تھی تو واحد چائنہ ایسا مخلص دوست ثابت ہوا جس نے ساتھ دیا اور مزید انویسٹمنٹ پاکستان میں لایا ، اب اگر چائنہ کو رول بیک کر کے گھر تک محدود کیا جاتا ہے تو اس صورت میں راھداری معاھدہ ختم ہونے کا خطرہ ابھر سکتا ہے اور سی پیک جیسا پراجیکٹ بڑے پیمانے پر متاثر ہو سکتا ہے اس کی ناکامی کے لیے جتنے بھی ہتھکنڈے اور خریدوفرخت کی جا رہی ہے سب صرف اور صرف اس پراجیکٹ کو خطے سے ختم کرنے کے لیے ہے جس کا فوائدہ صرف اور صرف امریکا کو ہے تو ظاہر ہے اب وہ ہر ممکن کوشش کرے گا کا چاہے کھروبوں ڈار لگیں ، عربوں لگیں پاکستان کے اس پراجیکٹ کو تباہ کرنا ہے تاکہ تجارتی منڈی میں صرف اس کا وجود رہ سکے جس میں بھارت دم ھلانے میں پہل پہل ہے۔ جو سازشیں بھارت امریکا کیساتھ ملک کر کر رہا ہے اس وہ ماضی میں صاف نظر آتا رہا ہے۔ اب حال میں بھی آبدوز کا بھیجنا ، میزائل پاکستان میں مارنا پھر ھیلے بھانے کرنا کہ جی غلطی سے آ گیا تو یہ سب کچھ امریکا کےا شارے پر ہو رہا ہے۔
اب ایک طرف تو ہمارا ازلی دشمن بھارت جو کسی صورت پاکستان کو ہرا بھرا نہیں دیکھنا چاہتا وہ در پر ہے اور دوسری طرف برائے فروخت سیاسی کالی بھیڑییں اور ایسے ادارے جو حاضر حاضر کی سدا لگائے بیٹھے ہیں کہ کہیں سے تو مال آئے تو ایسی صورت میں جب عدالتوںنے بھی موجودہ جمہوری حکومت کو مفلوچ کر کے رکھ دیا ہے اس کا نقصان بہت بڑے دائرے پر ہو سکتا ہے جو عناصر اس وقت پاکستان کی باگ دوڑ کی تگ دو میں ہیں یہی وہی لوگ ہیں جو ماضی میں بہت بری طرح سے مسترد کیے گئے عوام کی طرف سے اور آج جب عوام نے ان کا رد کیا تو یہ لوگ اسمبلی میں موجودہ جمہوریت کو بلیک میل کر کے اپنی بادشاہت کا تختہ اپنی زمینی خداووں امریکا کو راضی رکھنے کے لیے جمانے کے خواہشمند ہیں۔ جس میں جو بظاہر نظر آتا ہے تمام سیاسی ٹولے اور ادارے بھی ساتھ ہیں ساتھ ہیں ایسے کیسے ممکن ہے کہ ایک ملک کو ترقی کی راہ پر لے آنے والی اتنی کامیاب حکومت جس کی اپنی آزاد فارن پالیسی ہی اس کی کامیابی کا ثبوت ہے۔ اسے ختم کرنا ملک کو ایک بار پھر زوال کے کنویں میں دھکیل دینا کے مترادف ہے۔ جو جدوجہد ماضی میں ملک کے اداروں کی خرید و فروخت کی ہوتی رہی کچھ ادارے فروخت ہو گئے کچھ رہ گئے تو اگر وہ بھی فروخت ہو جاتے ہیں تو پاکستان میں رہ کیا جائے گا؟
آج اگر حق کا ساتھ نہیں دیتے اور اتنے سمجھ نہیں رکھتے کہ کون ملک و قوم کے حق میں ہے اور کس سے ملک کو فوائدہ ہو سکتا ہے کون ملک پاکستان کی شان و شوکت کو قائم رکھے ہوئے ہے دنیا میں آج جس طرح پاکستان کا نام عروج پر ہے اس طرح اس کو تباہ کرنے والوں کی نظروں میں کھٹک رہا ہے اسوقت بے وقوفیوں کی نہیں عقلمندی کے مظاہرے کی ضرورت ہے جو لوگ امریکا کی کٹ پتلیاں بنے ہوئے ہیں عقل کے ناخون لیں۔ جس طرح کے ملک کے اندرونی حالات پیدا کر دیئے گئے ہیں یہ ملک و قوم کے لیے خطرہ پیدا کر سکتے ہیں۔ ہم اپنے آنے والے نسلوں کو کیا درس دیں گے کہ جن پر ماضی میں کرپشن کے کیس چلے مل چھوڑ کر بیماریوں کے بہانے علاج کرنے گئے اور واپسی نہ آئے وہ پھر اعلی عدلیہ کے ذریعے وہ کرپٹ ٹولہ پھر پاکستان پر مسلط کر دیا گیا۔ یاد رکھیں اگر ایسا ہوتا ہے یا ہوگا تو اس صورت میں ہم سب گنہگار ہوں گے آنے والے نسلوں کہ ہم سب کی آنکھوں کے سامنے یہ ہوتا رہا اور ہم خاموش تماشائی بنے رہے۔