جس کے جو ہاتھ لگے !

جس کے جو ہاتھ لگے

تحریر:فیصل شہزاد چغتائی

گزشتہ دو سالوں ملک میں جو کھینچا تانی کی رسم چلی ہے اس نے ایک تہذیب کو مضبوط کر دیا ہے جس طرح امریکہ  دنیا کے بڑے بڑے ڈاکووں نے آباد کیا اس طرح پاکستان میں ایک مضبوط کلچر ترتیب میں آ چکا ہے جسکا نام رشوت ہے، جہاں کوئی کام رُکے وہاں قائد اعظم کا نوٹ چلتا ہے۔۔۔۔ کوئی محکمہ  چاہے گورنمنٹ کا ہو ، پرائیویٹ ہو ، فلاحی ہو یا زرد صحافت ہر جگہ قائد اعظم محمد علی جناح کے نوٹ کو سلام ہے۔ آپ پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک ان تمام مراحل میں اس تہذیب کے رنگ میں ڈھلنا پڑتا ھے اس بارے جب میں نے اپنے دوست سے بات کی تو اس نے کہا کہ جس سمت ہوا چل رہی ہو اس سمت ہی پتنگ اڑتی ہے ۔۔۔ میں حیران ہوا اور دیر تک سوچتا رہا اور کہا کہ جب میرے دوستوں نے بھی کمپرومائز کرنا شروع کر دیا ہے تو بچتا کیا ہے ؟ اس کا مطلب ہے جس چل رہا ہے سب اچھا ہے ۔۔۔ گزشتہ دنوں کراچی کے ایک سکول میں بچیوں کو سیکس کے متعلق مواد پڑھانا، وسیب میں سرکاری سکولوں میں بچوں پر تشدد اور قوم کے محافظوں کا قوم کی بہنوں بیٹیوں کی عزتیں لوٹنا ۔۔۔ یہ رواج بن چکا ہے ۔۔۔ اس وقت اگر کوئی محکمہ کرپشن کیساتھ ساتھ معاشرے کی بنیادیں کھوکھلی کر رہا ہے تو وہ پولیس کا محکمہ ہے ۔ کراچی اور لاہور جیسے شہر میں اگر کوئی عورت مجبوری کے تحت روزگار ڈھونڈنے باہر نکلے  تو اسے ہمارے معاشرے کی گندی نظریں اس طرح نوچ نوچ کے ختم کر دیتی ہیں کہ وہ آدھی تو مر ھی جاتی ہے اگر معاشرے سے بچ جائے تو کسی پولیس والے محافظ کی ہوس کا نشانہ بن جاتی ہے اور ایسے ناسور جو قوم کے محافظ بنے ہوتے ہیں وہی بیٹی ، ماوں اور بہنوں کی عزتوں سے کھیلنا اپنا قومی فریضہ سمجھتے ھیں۔ آئندہ سالوں میں ہمارے ملک کے ٹھیکدار بولیاں لگا رہے ہیں ۔۔۔۔ جس کے پاس جتنا پیسہ وہی اتنی سیٹیں لے گا ۔۔۔۔ جو ووٹ آزاد امیدواروں کوں جائیں گے وہ آزاد امیدار اپنے اپنے ضمیر بیچ کر ان سب ووٹوں کی تذلیل کریں گے جیسا کہ گزشتہ سالوں سے ہوتا آیا ہے۔ کوئی شاید ادارہ ایسا ہو جو اس ملک کو نا کھا رہا ہو اس ملک میں جمہوریت کے نام پر تاجروں کے ٹولے کا قبضہ سب کے سامنے عیایاں ہے کس طرح سے لوڈ ترقی اور لوڈ شیڈنگ کے بحران کے دعویدار اپنے مدت ختم ہونے پر بجلی کا بحران ، پانی کا بحران جیسے مسائل پیدا کر کے جا رہے ھیں جس کا کوئی جواب نہیں۔۔۔۔ نواز حکومت سے لوگوں کو بہت اچھی امیدیں تھیں ۔۔۔ کیونکہ زرداری حکومت میں تو لوگوں کو سنا ھی نہیں جاتا اس میں تو سب اچھا ہے چلتا ہے ۔۔۔۔  روٹی کپڑا اور مکان یہ سب تو زرداری حکومت چھین ھی چکی تھی اب بنیان اور نیکر ن لیگیوں نے اتار لی ۔۔۔  کیا پاکستان کے عوام کا مقدر اب یہی چوروں اور ڈکیتوں کے ہاتھ میں ہی رہ گیا ہے؟ یا کوئی اور ہے جو پاکستان کا پانچ سال کے لیے ٹھیکہ لے کر پاکستان کو حقیقی معنوں میں فلاحی ریاست بنا سکے؟ زیادہ بڑی بات نہیں گزشتہ دس سالوں کی دو حکومتوں کی بات کرتا چلوں ۔۔۔۔ پی پی پی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام  کتنے لوگوں کو ملا ۔۔۔ کیا وہ مستحق تھے ؟  کوئی خبر نہیں ۔۔۔۔ کون لوگ تھے کن کو نوازا گیا کچھ خبر نہیں ۔۔۔ ن لیگ لیپ ٹاپ پروگرام ۔۔۔ پڑھا لکھا پنجاب ۔۔۔ سب ایسے ڈراموں میں قوم کوں مصروف رکھا گیا ۔۔۔ اگر دونوں حکومتیں مل کر ہمارے ملک کے سینئر سیٹزن کے لیے کوئی قانون ھی متعارف کروا دیتے تو کیا اچھا تھا؟ کوئی لیڈر کوئی پارٹی نقصان میں نہیں اور نا ہی اس نے اپنی جیب سے کچھ کرنا ہے ہم سب شہروں سے ملنے والا ٹیکس ہے جن سے ان کو تنخواہیں ملتی ہیں اور تمام امور سر انجام دیئے جاتے ہیں اور جن سے ٹیکس وصول ہوتے ہیں اسی ملک کہ شہریوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور کیا جا رہا ہے۔ زرداری ، نواز ، عمران یا کوئی بھی ہو ۔۔۔ ٹی وی پر صرف اپنی خبر کے علاوہ کوئی خبر دیکھنا پسند نہیں کرتے۔۔۔۔ جو ٹولہ ان کے آس پاس ہوتا ہے وہ اتنے قصیدے پڑھتا ہے اتنی تعریفیں کرتا ہے کہ انہیں افضل بنا دیتا ہے اور یہ ٹولا گمراہیوں میں رکھتا ہے کہ جی سب اچھا ہے ۔۔۔ کراچی اس وقت گندگی کا ڈھیر بن چکا ہے جگہ جگہ گندگی کے انبار کی وجہ مچھر پیدا ہو رہے ھیں اور اتنے گندگی کے انبار کی وجہ ہسپتالوں میں آئے روز بیماروں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں مگر کوئی پرسان حل نہیں ۔۔۔۔ کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔۔ اگر نواز شریف کراچی آئیں تو ایئر پورٹ سے شاہرہ فیصل ڈیفنس تمام روڈ کے ٹریفک وی وی آئی پی موومنٹ کی وجہہ سے روک دی جاتی ہے اسی طرح اگر زرداری آئے تب بھی یہی حال ہوتا ہے۔ جیسا کہ پاکستان میں کرکٹ کی فضا کو بحال کرنے کے لیے کتنی جانوں کا نذرانہ دیا گیا ، کتنے لوگ ایمبولینس میں ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم اس لیے توڑ گئے ہونگے کہ صرف راستے بند تھے ۔۔۔۔ ملک میں داداگیری عروج پر ہے اس میں سر فہرست ٹیلی کام انڈسٹری جو دونوں ہاتوں سے عوام کو لوٹ رھی ہے جب عوام آہ کریں تو مزید ٹیکس لگا دیئے جاتے ہیں ۔۔۔۔ ٹیلی کام انڈسٹری نے بھی پاکستان میں رہ کر پاکستانیوں کے مزاج کے مطابق ہر شہ پر ٹیکس لگا دیا ہے بیلنس چیک کرو چارجز ادا کرو ، ایڈوانس منگواو تو چارجز دو ، کارڈ لوڈ کرو تو ٹیکس ادا کرو اور اگر شکایت کی جائے تو کہا جاتا ہے یہ سب حکومت کی طرف سے ہے ہمیں کچھ نہیں ملتا جتنے ٹیکس ہیں حکومت کو جاتے ھیں ۔۔۔۔ اسی طرح گیس کے بلوں ، بجلی کے بلوں میں اضافی چارجز ٹیکس ، پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ٹیکس کا بھی یہی حساب ہے یہ سب ٹیکسز بھی حکومت کو جاتے ہیں ۔۔۔۔  غرض یہ کہ ایک غریب اگر کسی سپر سٹور پر سستی چیزیں خریدنے کے لیے چلا جائے تو اس پر بھی جنرل سیلز ٹیکس ادا کرتا ہے جو گورنمنٹ کو ہی ملتا ہے سپر سٹور تو چلیں دور گلی کونے کی کسی دکان پر بھی آپ چلے جائیں صابن خریدیں یا بچوں کے لیے بسکٹ اس پر بھی حکومت کی طرف سے ٹیکس عوام ھی ادا کرتی ہے۔ جب آٹا ، چینی ، دالیں ، گھی، پتی ، دودھ ، بسکٹ ، یہاں تک کے پاپوں پر بھی ٹیکس لگا دیئے جائیں اور یہ ٹیکس گورنمنٹ کی طرف سے ہوں تو یہ پیسہ تو ظاہر سی بات ہے گورنمنٹ کے اداروں کو ھی جائے گا نا کہ کسی ایجنسی کوں ۔۔۔ اتنے بڑے پیمانے پر وصول ہونے والے ٹیکس کے متبادل اگر کوئی کسی قسم کی سہولت کی بات کرنے لگے تو انہیں مزید الجھا دیا جاتا ہے مثال کے طور پر حال ہی میں کراچی میں دودھ کی قیمت کو ہی دیکھ لیں 95 روپے کلو دودھ کی قیمت طے کی گئی ہے یہ بحکم عدالت ہوا ہے اب مزے کی بات بھی سنتے چلیں دکاندار 95 روپے لیٹر دور دے رہے ھیں پورا دودھ عوام کو اب بھی نہیں مل رہا اور جو لوگ 94 روپے تک دے رہے ہیں وہ ظاہر سی بات ہے وہ ملاوٹ کر رہے ھیں کچھ پانی اور کچھ پاوڈر۔۔۔۔ اگر کوئی وسیب میں گندم زیادہ کاشت کر لے تو ان کی گندم اونے پونے داموں میں خریدی جاتی ہے اور اگر کوئی گنا کاشت کر لے تو اس کا تو آپ گزشتہ ماہ میں جائزہ کر ھی چکے ہوں گے کہ ان کا گنا مہینوں ٹرالیوں پر رکھے رکھے سوکھ کر آدھی قیمتوں میں ملز کے دروازے کے اندر جاتا ہے ۔۔۔۔ ملک میں قانون کا جس طرح مزاق اڑایا جا رہا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔۔۔ اگر کوئی شریف انسان گلی میں محفل نعت کے لیے مقامی تھانے کو درخواست دیتا ہے تو تھانیدار اس کے ساتھ ایسے رویے سے پیش آتے ھیں جیسے وہ کوئی دہشت گردی کا کام کر رہے ہیں اور اسے اجازت نامہ کے لیے آئی جی سندھ سے لیٹر لے کر آنے کا کہہ دیا جاتا ہے۔  صحافیوں کو بلیک میل کرنا ۔۔۔۔ ان کے کارڈز اٹھا کر پھینک دینا ۔۔۔ انہیں گالیاں دینا ۔۔۔۔ یہ کوئی اور نہیں ۔۔۔۔ ہر دوسرا تیسرا شخص پولیس میں سفارش کیساتھ بھرتی ہوا یا پھر پیسے دے کر یہ سب کرپشن کے بیج کا ثمر ہیں ۔۔۔ یہ سب اپنا اپنا کوٹہ پورا کر رہے ھیں۔ پاکستان کی ترقی سب سے بڑی رکاوٹ ھی یہ کرپشن ہے جب تک دو رنگ کا قانون کے رواج کا اختتام نہیں ہوگا کرپشن سے ھر محکمہ پاک نہیں ہوگا تب تک غریب مسلسل مرتا رہے گا ۔۔۔ پاکستان کی عوام سے اور مزید کتنی قربانیاں درکار ہیں ؟  وہ اپنے خون پسینے کی کمائیوں سے ٹیکس ادا کر رہے ھیں تاکہ ہمارے ملک کا نظام اچھے طریقے سے چلتا رہے مگر افسوس ہم سے ریکور ہونے والا وہ ٹیکس ہمیں ہی جوتے مارنے اور ہمیں ہی ختم کرنے پر استعمال ہو رہا ہے۔ ہمیں ہر سطح سے مفلوج کیا جا رہا ہے اس میں جو ادارے حصہ لے رہے ھیں وہ سب کے سامنے عیاں ھیں ۔۔۔ اعلی احکام جو اس وقت اثر ور رسوخ رکھتے ھیں اور ملک و قوم کیساتھ مخلص ھیں تو انہیں چاہیے کہ وہ بلا تفریق کارروائی کریں اور قرار واقعی سزائیں دیں اور ایک قانون رکھا جائے جو قانون غریب پر ١٠٠٪ اثر انداز ہوتا ہے وہ قانون بہتر ہے وہی قانون سب پر اپلائی کیا جائے کیونکہ غریب اور امیر اور درمیانی طبقہ جو واہ واہ اور چاپلویساں کر کے زندہ ہے ان سب کے پاس پاکستان کا ہی شناختی کارڈ ہے اور کہیں بھی ایسا نہیں لکھا گیا کہ غریب اور امیر کے ووٹ میں فرق ہے ووٹ سب کا برابر ہے تو قانون بھی سب کا برابر ہو ۔۔۔ پہلے تو قانون سے شیطان صفت انسانوں کو باہر کیا جائے جو قانون کے نام پر گندگی ہیں اس میں پاکستان کا ہر شہری اپنا کردار ادا کرے اور حکومت وقت کو چاہیئے کو وہ اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ایک ایسی اپلیکشن متعارف کروائیں جس پر رشوت لینے والوں کی شکایت بمع ثبوت اپ لوڈ کی جائے اور جو لوگ کرپشن میں منسلک پائے جائیں انہیں سخت سزائیں دی جائیں تاکہ آئندہ قوم کے جذبات سے کھیلنے والے لوگ سوچ سمجھ کر کوئی قدم اٹھائیں ۔۔۔ عام شہری کے پاس حکومت تک اپنی آواز پہنچانے کا کوئی ذریعے نہیں لہذا میری درخواست ہے شہریوں کے لیے شکایت سیل کا قیام کیا جائے جس میں ہر شہری اختیار رکھتا ہو کہ وہ کسی بھی محکمے کے خلاف درخواست دے سکے اور ہر شکایت کرنے والے کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے تاکہ اس کے خاندان ختم نا ہوں اور وہ اپنے جان کی امان پائے۔

اللہ ہمارے ملک کا حامی ناصر ہو ۔۔۔ ہم سب کو مل کر ملک کو بچانے کے لیے جدوجہد کرنی ہو گی ایسے ناسور جو ہمارے ملک کی بدنامی کا مسلسل باعث بن رہے ھیں انہیں بے نقاب کرنا ہوگا اور اس سلسلے میں حکومت وقت تعاون کرے تاکہ ہر شہری اپنا فرض ادا کرتے ہوئے ایسے لوگوں کو بے نقاب کر سکیں۔ اور بے نقاب ہونے والے لوگوں کے لیے بھی یکساں قانون لازم کیا جائے اگر وہ قصور وار ہے تو قرار واقعی سزا دی جائے ۔۔۔ ابھی تو جو مظلوم یا بے بس نظر آتا ہے اسے تھانوں میں قید کر لیا جاتا ہے اور پھر بلیک میلنگ کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے ہر علاقے میں تھانوں کی بادشاہت قائم و دائم ہے۔  ایسے تھانوں میں بیٹھے بادشاہوں کو لگام ڈالنے کی ضرورت ہے اور قوم کی خدمت کے لیے ایسے لوگوں کو رکھا گیا ہے اور قوم سے ہی انہیں تنخواہیں ملتی ہیں لحاظہ محافظ بن کر رہیں قوم کا تحفظ کریں نا کہ انہیں بلیک میل کریں۔

مقالات ذات صلة

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا

الأكثر شهرة

احدث التعليقات