صوبہ سرائیکستان باعث تکلیف و ازیت کا سامان… کیوں؟
تحریر, فیصل شہزاد چغتائی
تحریکیں جنم اسوقت لیتی ہیں جب ایک مخصوص خطے کی حق تلفی کی جائے، سرائیکستان لفظ کا سفر بیشک نصف صدی کا ہو یا ستر سال کا اس خطے پر ماضی اور حال ملا کر جو سیاست کے نام پر لوٹ مار کی گئی وہ عیاں ہے، ایک رہذیب قوم و ثقافت کا رد کر دینا، تاریخ میں ردوبدل کر کے اس خطے پر اپنی کمند ڈال دینا اور پھر کہنا کہ ہم مسلمان ہیں تو، تو کیا بطور مسلمان ہم کو زیب دیتا ہے کہ کسی کے حقوق ضبط کر لیے جائیں؟ بظاھر مسلمان مگر حرکتیں مصلیوں والی ہیں… سرائیکی خطے کا وجود صدیوں سے آباد ہے مگر اس پر جبروظلم کا بازار جو سیاسی ٹھیکداروں خصوصا” ن لیگیوں نے کیا اس بدترین دور کو صدیوں یاد رکھا جائے گا، بھارت میں مودی نے شر پسند تنظیموں کو مسلمانوں کے قتل عام کے لیے استعمال کیا اور پاکستان میں مودی کے لنگوٹیا یار نواز شریف نے ن لیگ سرائیکی خطے پر گلوبٹوں سے چڑھائی کی، ٹھیک اسطرح جس طرح فلسطین میں یہودیوں تجارت پر قابض ہوئے، زمینیں خریدیں اور فلسطینیوں کی نسل کشی بیدردی سے کی، آج وہ ایک یہودی ریاست ہونے کا دعوی کر رہا ہے اور دنیا سے کہہ رہا ہے مجھے تسلیم کرو، کیونکہ تجارت میں قابض یہودی ہیں اسی سوچ کو لیگیوں نے سرائیکی خطے پر مسلط کیا، پہلے تجارتی مراکز پر گلی محلوں بازاروں میں قابض ہوئے پھر زمینیں خریدیں، پھر تھانوں پر قابض ہوئے اور اپنا قانون چلایاـ
گویا ریاست کو بلیک میل کرنا شروع کر دیا، ٢٠١٨ میں عوامی طاقت سے منتخب ہوکر آنیوالی جماعت کی بے بسی اکک زندہ مثال ہے، حکومت کی تمام رٹ کو چیلنج کیا جا رھا ہے، گلیوں سے شروعات ہو کر سپر مال انڈسٹری تک جو تجارتی پہیہ چل رہا ہے اس پر پنجابی قابض ہو چکے ہیں،سرائیکی زمیندں پر پنجابی آبادکاری، تجارتی مراکز اور دیگر اداروں پر بادشاھت صرف پنجابیوں کی ہے اور یہ صرف مسلم لیگ ن کی بدولت ممکن ہوا جس نے چھپ کر سرائیکی خطے پر نسل کشی کی شروعات کی، آج جب صوبہ سرائیکستان کی پیشرفت ہوتی ہے تو سب سے زیادہ مروڑ پنجابیوں کو اٹھتے ہیں، یہ ایک ایسا کڑوا سچ ہے جو ھر پنجابی کو تسلیم کرنا ہوگا، آج جس طرح اکثریت سے منتخب ہونے والی جماعت پی ٹی آئی بے بس دیکھائی دیتی ہے تو اس کے پیچھے وہ تاجر ٹولہ ہے جو حکومتی رٹ کو چیلنج کھلے عام چیلنج کر رہا ہے، وجہہ ان کی تھانوں اور کاروبار پر مکمل بادشاھت ہے، تھانوں سے بدمعاشیاں قائم و دائم اور تجارت پر اپنی من مانیاں،. سبزی منڈی ہو، بازار ہوں یا گلی کی دکانیں، ہر جگہ اپنی بادشاھت قائم ہے، چینج، آٹا، سبزیاں، تیل غرض یہ کہ روز مرہ کی تمام اشیاء ملک کے تمام ووٹرز کے لیےمہنگی کر دی گئی جنہوں نے عوامی طاقت سے عمران خان کو منتخب کیا.
آج وفاق کے حکم کو صوبائی حکومتیں پوا میں اڑا رہی ہیں، وجہ کیونکہ جمہوری حکومت آج تک تاجروں کو نکیل ڈال ہی نہیں سکی ھاں البتہ تاجروں نے حکومت کو نکیل ڈال دی دودھ ایک لیٹر ١٢٠ اور ١٣٠ روپے، آٹا ٧٠٠ روپے دس کلو، چینی ٩٥ روپے کلو… یہ وہ تمام ضروریات زندگی کی اشیاء ہیں جن پر لوگ زندہ ہیں. اسلام آباد سے کراچی ک، اید ہی کوئی ایسا شہر بچا ہو جہاں مصنوعی مہنگائی نہ ہوئی ہو، خود ساختہ قیمتیں…. اور جمہوری حکومت بے بس…
اب حکومت اگر موبائل کمپنیوں پر زتیکس لگائے یا بجلی و گیس کی کمپنیوں پر، یہ ٹیکس منافع کمانے والے بزنس مین، کاروباری حضرات عوام سے وصول کرتے ہیں، گیس کے بل کے ذریعے ہر گھر سے بجلی کے بل کے ذریعے ھر گھر سے،. ماچیس کی ڈبی سے لے کر صابن اور جینے سے لے کر مرنے تک تمام ٹیکس معذرت کیساتھ کوئی بزنس مین ادا نہیں کرتا، سب عوام دیتے ہیں. اس بارے کسی حکومت نے کوئی گر حکمت عملی کی بھی تو انفورسمنٹ ایجنسیاں پولیس و یگر ادارے راتوں رات کھربوں کما گئے، ایسا ہی کچھ حال سندھ کا ہے دکانیں سات بجے تک کھلیں گی، جو اس کے بعد مارکیٹ میں دکان کھلی ملے گی اس دکاندار کو پولیس اٹھا کر لے جاتی ہے اور دس ھزار فی بندے سے وصولی کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے،. دن کی روشنی میں دوسری پولیس پارٹی دکاندار کو ٢٠٠٠ ایک دن کا دے کر عزت کا کاروبار کرنے کی یقین ھانی کرواتی ہے، جو بھتہ دے تھا ہے وہ عوام سے نچوڑ کر وصول کر رھا ھے،. فی ریڑھی پانچ سو روپے دیتی ہے ہر مقامی تھانوں کے اھلکار بھتہ وصولی کرتے ہیں اور ریڑھی والے ٣٠ روپے کلو والی بزی میں پولیس بھتہ ملا کر ١٢٠ روپے کلو گلی سڑی سبزیاں عوام کو خریدنے پر مجبور کرتے ہیں، عوام بے بس ہے خریدے گی، یونکہ زندہ رھنا ہے…
یہ تمام معاملات کھلا چیلنج ہیں ور ڄݪحکومتی رٹ کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں وجہہ آپس کی سیاسی ٹسل ازی میں عوام پس گئے اپوزیشن میں بیٹھی ماعتیں اور ان کے چاھنے والوںنے لوگوں کی زندگیاں حرام کر دی ہیں دوسری طرف عوامی اقت سے منتخب ہونے والی حکومت بے بس ہے کیونکہ جو حکم اوپر سے ملتا ہے وہ نیچے پہنچ کر مزید عذاب بن کر لوگوں پر ٹوٹتا ھےـ عوام پر سب در بند ہیں. بس چپ رہیں اور صبر کریں برداشت کریں.
اب جب کہ حکومت عوام طاقت ہونے کے باوجود بے بس ہے تو عوام کا کوئی وارث ہی ہیں بچتا، عوام کا معاشی قتل ہو رھا ہے ادارے اور ذمہ داران بھتہ وصولی سے حصہ لے کر خاموش ماشائی بنے ہیں، صوبہ سرائیکستان کے لیے وزیراعظم، وزیر اعلی،. وزیر خارجہ، صدر مملکت ب راضی مگر تاجر ٹولے کے ہاتھ یرغمال بنے ہیں گر کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو معیشت جاتی ہے تو محترم صاحبان سے تنا کیوں گا کہ عیشت و پہلے ہی یہ مافیا تباہ کر چکا ہے لوگ اب تحریک انصاف نففت کرنے لگے ہیں وجہہ یہی تاجر ٹولہ ہے جس کے ہاتھ حکومت یرغمال بنی ہے، خدارا، ھنگامی بنیادوں پر اداروں کی مانیٹرنگ کی جائے کہ پولیس حکومت کے نام پر بھتہ کیسے وصول ر ہی ہے؟ کمپنیاں بشمول یوٹیلیٹی بلزبھیجنے والے دارے،. وبائل کمپنیاں خود ٹیکس ادا کرنے کی جائے عوام ے کیوں وصول کر رہے ہیں، عوام ایک دن میں اگر ایک ھزار تک سورس آف نکم رکھتی ہے تو اس میں سے ٥٠ فیصد ٹیکس کی مد میں چلا جاتا ہے جسکا وئی حساب کتاب نہیں…. اتنے بڑے پیمانے پر کرپشن ہو رہی ہے..
جس کا حل تنا ہے کہ ن لیگ کو حکومت دے دو، سب ویسا ہو جائے گا جیسا تھا…
جو لوگ ملک پر قابض ہیں وہی صوبہ سرائیکستان کی نفی رتے ہیں اور سے تقسیم پنجاب کا نام دیتے ہیں کیونکہ مزید صوبے جود میں آتے ہیں تو حساب کتاب شفاف ہو جائے گا اور ابھی لم سم والا حساب ہے، ستر سال کے عرصے سے ایک خطے کو نظر ا نداز کرتے چلے آنا کہاں کا انصاف ہے، خطے کی شناخت، ثقافت زبان اور اسپر آباد قوموں کی شناخت پر پنجابیت مسلط کر دینا کونسا انصاف ہے؟ کیوں اس خطے کے لوگ کسی دوسری شناخت خود پر مسلط کریں کیوں پنجابی کہلوا کر زندہ رہیں؟ عوام نے ووٹ دیکر پی ٹی آئی کا کامیاب کروایا، اب جب عوامی حکومت ہے تو اتنے بڑے سکیل پر وٹ مار کرنے والوں پر ھاڑو کیوں ہیں پھیرا جارہا…؟ صرف سرائیکی قوم ور سرائیکی خطہ ہی چھری تلے کیوں….. کیوں ایسا ظام واضح کیا جاتا جس میں پولیس اور دیگر انصافی اداروں کی پکڑ کی جائے،. ھروبوں ربوں ایک ن میں مانے والی سندھ پولیس بھتہ کس کو دیتی ہے؟ میڈیا یوں خاموش تماشائی بنا ہے…..