الرئيسيةمضامینفیصل شہزاد چغتائیصوبہ سرائیکستان کا نام لینے سے لوگوں کے پیٹ میں مروڑ کیوں...

صوبہ سرائیکستان کا نام لینے سے لوگوں کے پیٹ میں مروڑ کیوں اٹھتا ہے؟

صوبہ سرائیکستان کا نام لینے سے لوگوں کے پیٹ میں مروڑ کیوں اٹھتا ہے؟
تحریر: فیصل شہزاد چغتائی

ماضی میں جب جب سرائیکی کاز نے گرم جوشی پکڑی اور جمہوری حکومت نے دلچسپی ظاہر کی تو نیشنل پارٹیاں اپنے اپنے مفاد کے نظر جو اپنی اپنی باری پر اپوزیشن کا کردار ادا کرتی رہیں نئے سوشے چھوڑ دیتی ہیں۔ یہ ایسا ہے کہ پہلے سے طے ہو کہ یار میڈیا پر آج پریس کے سامنے تم یہ بولو گے میں اس کے جواب میں یہ کہوں گا ۔ اگر ان تمام نیشنل پارٹیوں کو بیٹھاں بھی دیا جاتا ہے اور سمجھایا جاتا ہے کہ یہ اس خطے کی بات ہے جہاں کے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں اور محرومیوں کا سامنا ہے ان کی آواز انصاف کے در تک پہنچنے سے پہلے دب جاتی ہے اگر نہیں دبتی تو دبا دی جاتی ہے یہ وہ خطے ہے جہاں اگر بچے اعلی تعلیم حاصل کر لیں تو ان کے لیے کوئی روزگار کا سلسلہ نہیں وہ پردیس میں جا کر اپنا مستقبل تلاش کرتے ہیں

یہ ایسے لوگوں کی حق کی آواز ہے جو اپنے حق کے لیے بولنا بھی نہیں جانتے۔ اس خطے کے درد جب ان سب کے سامنے رکھے جاتے ہیں تو کسی حد تک متفق ہونے کے قریب ہوتے ہیں ہیں تو ایک آواز سندھ سے ابھرتی ہے کہ ہمیں بھی کراچی علیحدہ صوبے کی شکل میں چاہئے یہ آواز اٹھانے والے ایم کیو ایم کے کارندے ہیں جو موقعے کی تلاش میں گھات لگائے بیٹھے ہیں کہ کب سرائیکستان کی بات ہو اور کب ہم کودیں کہ جی ہمیں بھی صوبہ بنا کر دیں ، یہ دیکھا دیکھی میں ھزارا سے بھی آواز اٹھتی ہے کہ جی اساں کوں وی صوبہ چائی دیو، یہ سلسلہ ماضی میں چلتا آ رہا ہے اور اب تک قائم و دائم ہے جب پاکستان تحریک انصاف نے پیش رفت کی صوبہ بنانے کے لیے تو اپر پنجاب سے پٹواریوں پر مشتمل ٹولہ مخالفت کے لیے نکل پڑا کہ نا جی اے تے تقسیم اے ، ہم پنجاب تقسیم نہیں ہونے دیں گے مرجائیں گے مگر صوبہ پنجاب تقسیم نہیں ہونے دیں گے

مجھے بہت حیرانگی ہوتی ہے پہلے تو ان لوگوں پر جو پہلے سو رہے ہوتے ہیں جب سرائیکی کاز گرم جوشی میں آتا ہے اور حل ہونے کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو سب کو اپنا اپنا حق نظر آنے شروع ہو جاتا اس سے پہلے تو اگر سندھ کے شہر کراچی کا اگر ماضی کے پنے کچھ پلٹیں تو ہمیں سوائے بوری بند لاشوں کے کچھ نہیں ملتا ، کسی کا بھائی کسی کی بہن ، کسی کی ماں ، کسی کا باپ ، کسی کا دوست ٹارگٹ کلنگ میں مرا ہوا نظر آتا ہے اب اس نہج پر امن ہے اب بھی تو وہی کراچی ہے ؟ اب کیسے امن ممکن ہوا ہے ؟ اب کیوں دھماکے نہیں ہو رہے جو دور دو نیشنل پارٹیوں کے درمیان ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کے درمیان گزرے لوگوں نے واقعی اذیت اور تکلیف میں گزارے، بہت قربانیاں دی ہیں مزید مہربانی فرمائی جائے کہ ٧١ سال سے منتظر سرائیکی خطے کے غیور لوگوں کو ان کا حق دیا جائے، کراچی ایک صنعتی شہر ہے جو گزارا کر سکتا ہے مگر سرائیکی خطے زراعت پر مشتمل ہے جس کی کمائی لاہور پر اور اس کے لیے واہ واہ کرنے والے شہروں پر خرچ کر دی جاتی ہے۔

کراچی میں تمام سہولتیں ہیں سرائیکی خطے میں لوگ آج بھی اپنی گلیاں پکی ہونے پر جھمریاں مارتے ہیں خوش ہوتے ہیں آج بھی بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں بجلی تک نہیں آئے آج بھی ان کی زمینوں پر کوئی نا کوئی قابض ہو رہا ہے اور وہ بیچارے اپنی درخواستیں لیے ہفتوں انصاف کے در پر سوالی بن کر پڑے رہتے ہیں جیسے کراچی کے جناح ہسپتال کے گراونڈ میں مریض کیساتھ آنیوالے مریض رہ رہے ہوتے ہیں انصاف نہیں ملتا ، تاریخ ملتی ہے اور تاریخ پر تاریخ ملتی ہے یہاں تک کہ کیس جمع کروانے والا دنیا سے ہی رخصت ہو جاتا ہے بچے زمینیں چھن جانے کی وجہ سے بے گھر ہو جاتے ہیں اور پھر کسی بڑے شہر میں ہجرت کر کے زندہ رہنے کے لیے مزدوری کرتے ہیں اور گھر چلاتے ہیں۔ خدارا ، سرائیکی خطہ کو صوبائی شکل دینا وقت کی ضرورت ہے اس سے زراعت کو بڑھنے میں مدد ملے گی اور یہ زراعت پاکستان کے ہر شہر ہر محلے اور گلی تک پہنچے گی۔ کیا گندم ، چاول ، چنا ، گنا ، چینی ، پیاز ، آلو ، گھوبی ، کسی پنجابی ، سندھی ، بلوچ ، پختون ، مہاجر سے پوچھے گی کہ تم کس زبان سے منسلک ہو تم نہیں کھا سکتے کیونکہ یہ سرائیکی خطے کی زمین سے آئی ہے ، ادھر ایک مثال یاد آ گئی کہ میٹھا میٹھا ھپو ھپو ، کڑوا کڑوا تھو تھو ۔۔۔ مخالفت صرف نیشنل سیاسی پارٹیاں ہی نہیں کرتے صوبے کی تحریک سنجیدگی میں ہے مگر اس میں رکاوٹ کراچی صوبہ اور ہزارہ صوبہ بھی کسی نہ کسی طور پر آ رہے ہیں۔ اور یہ سلسلہ کب تک رہے گا اس کے بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ اگر صوبہ سرائیکستان ، وجود میں نہیں آتا تو ہم دوسرے ملکوں سے بھیک مانگنے کے قریب ہو جائیں گے کہ ہمیں گندم دے دو ، ہمیں پیاز دے دو ، ہمیں ٹماٹر دے دو ۔۔۔

ہم اپنے غلط اختلافات کی وجہ سے ایک زراعی خطے کو بنجر کر دیں گے اور اس کا ذمہ دار ہر وہ ذھن ہو گا جو اس وقت سرائیکی خطے کو صوبہ بننے کی مخالفت کر رہا ہے اور وہ شخص ہوگا جو پنجاب کو تقسیم کہتا ہے اور ہر وہ شخص ہوگا معذرت کیساتھ جو کسی دوسرے کو حق ملتا دیکھ کر لپک پڑتا ہے کہ پہلے مجھے دے دو، اس سے تو کسی کو بھی حق نہیں ملے گا جب حقدار کی اس طرح تذلیل ہوگی تو کیسے حق ملے گا؟ اب ذرا ق لیگ کی شفقت دیکھیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اعتماد میں آئی اور اب اس کے صلے میں وہ بھی خواہشمند ہے کہ صوبہ جنوبی پنجاب بنا کر اس کی باگ دوڑ چوھدری برادران کے ہاتھ سپرد کر دی جائے مطلب یہ کہ لاہور میں بیٹھے چند ذھن جو صوبہ پنجاب کو ایک سلطنت ، بادشاہت ، جاگیر بنا چکے ہیں اسی طرح چوھدری برادران بھی جنوبی پنجاب کو اپنی سلطنت ، بادشاہت یا جاگیر قائم کریں تاکہ نہ رھاسی ڈھولا تے نا پوسی رولا

سرائیکی زبان کا رد کرتے کرتے اسے پنجابی کا لہجہ ، پھر سرائیکی صوفیائے کرام کو پنجابی صوفیائے کرام لکھنا اور سرائیکی شاعری افسانوں ثقافت ، تہذیب کو پنجابی ثقافت ، پنجابی شاعری افسانے لکھنے کی شروعات کرنا تاریخ کو بدلتے رھنا ، یہی ظاہر کرتا ہے اگر فرنٹ لائن پر کوئی سرائیکیوں کا اگر کوئی دشمن ہے تو وہ ن لیگ ہے کیونکہ اس سے جڑے تمام افراد چاہے رانا ثناء اللہ ہو ، یا دیگر پٹواری تمام کو بہت تکلیف ہوتی ہے جب جب سرائیکستان کی آواز لگے۔ تکلیف کیونکر ؟ کیا ! سرائیکی خطے کے کسی شہر نے کسی پنجابی کی شناخت پر قبضہ کیا ؟ کوئی ایک سرائیکی دیکھا دیں جس نے اپنے نام کے ساتھ چوھدری لگایا ہو؟ ن لیگ کو سمجھنا چاہئے وقت ایک سا نہیں رہتا ، وقت ضرور بدلتا ہے ، کب تک کسی خطے کا مال لاہور اور اس سے ملحقہ نوازے جانے والے شہروں پر خرچ ہوتا رہے گا؟

ہزارہ صوبہ ایک دیرنہ مطالبہ ہے اس وقت اگر ھزارہ صوبہ تاخیر میں بھی جاتا ہے تو اس سے نقصان نہیں ہوگا، اس وقت جو سیاسی پارٹی سمجھداری کا مظاہرہ کریگی وہ اپنا ووٹ بینک مضبوط کر جائے گی، صرف سیکریٹریٹ کے اعلان کرنے پر سرائیکی خطے کے عوام میں خوشی کی لہر دوڑی تھی جب صوبہ سرائیکستان کو عملی جامہ پہنایا جائے گا تو یقین مانے اس سیاسی پارٹی کا نام سنہری حروف سے تاریخ میں دیرپا رہے گا اور یاد رکھا جائے گا جس طرح آج بھی اس خطے کے لوگ اپنے محسنوں کو اچھے لفظوں میں یاد رکھتے ہیں ویسے ہی یاد رکھا جائے گا، اس وقت ذھنوں کو الجھانے کا نہیں ، تاریخی فیصلوں کا ہے تاریخ فیصلے جو کرتے ہیں وہ لیڈر کہلاتے ہیں اور کسی مسیحا سے کم درجہ نہیں رکھتے ہر غریب کی جھونپڑی میں پنپنے والے خاندان دونوں ہاتھوں سے دعائیں کریں گے اور اپنی نسلوں تک کو اس فیصلے کے بارے میں بتا کے جائیں گے اور وفاداری کا درس دے کے جائیں گے جیسے آج بھی ہم نے قومی زبان کو اپنے بزرگوں کے کہنے پر سینے سے لگائے رکھا ہے ۔ اور اپنے بچوں کو بھی کہتے ہیں کہ اردو میں بات کیا کریں یہ ایک وفاداری ہے جو خاندان سے خاندان چلتی آ رہی ہے۔

صوبہ سرائیکستان کا وجود میں آنا تمام کے لیے خوش آئند ہے چاہئے وہ صوبہ بلوچستان ہو ، صوبہ سندھ ہو ، صوبہ پنجاب ہو یا خیبرپختونخواہ ، زراعت ہر ملک میں بہت اہمیت رکھتی ہے اگر ملک میں زراعت دے وابستہ لوگوں کو حق دینے کی مخالفت کرتے رہیں گے تو ہم سب زراعت جیسے ایک وسیع خطے سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے جس کا ازالہ جو ہمیں دگنی چگنی لاگت ادا کر کے دوسرے ملکوں سے یہ اناج امپورٹ کرنا ہوگا اور اس پر جو لاگت آئے گی اس کو ہم اور آپ سب کیسے برداشت کریں گے ، ابھی موجودہ حالات میں جتنے قرض پوری قوم پر چڑھ چکے ہیں وہ ادا نہیں ہو پا رہے پھر دوسرے ملکوں سے ہم آلو ، چنا ، دالیں ، چاول ، گندم ، کپاس امپورٹ کر رہے ہوں گے ۔۔۔ خدارا ! صحیح سمت میں سوچ رکھیں اور یہ دیکھیں کہ واقعی ہی اس خطے کے لوگ صوبہ سرائیکستان کے حقدار ہیں ؟ ن لیگ کا کام تو لڑوانا ہے وہ بہاول پور کے رہائشیوں کو ، بحالی صوبہ جو کہ وہ آئینی حق رکھتے ہیں ایک صوبہ بنانے کی حمایت کرتے ہیں دوسری طرف ملتان پر مشتمل دوسرا صوبہ ، تاکہ سرائیکی قوم کیساتھ پھر سے بنگالہ دیش جیسا حال ہو ، ادھے سرائیکی ادھر اور آدھے اُدھر، یعنی آدھا تیتر اور آدھا بٹیر ، ایسا خدارا نہ کریں سرائیکی خطہ وسیع جغرافیہ پر مشتمل ہے اور ٢٣ اضلاع بشمل ٹانک ، ڈیرہ اسمعیل ملا کر ہی بننے کا حق رکھتا ہے ، ایک صوبہ ہوگا تو زراعت ایسے شعبے مزید ترقی کی راہ پر گامزن ہونگے لوگوں میں خوشحالی آئے گی۔ سرائیکی خطے پر رہنے والے لوگ صوبہ سرائیکستان چاہتےہیں اور یہ بھی صوبہ سندھ ، بلوچستان ، صوبہ پنجاب، صوبہ خیبرپختوانخوا جیسا ہوگا جس میں ہر رنگ و نسل کو رہنے میں آزادی ہوگی اور اپنے بچوں کا رزق حاصل کر سکے گا۔

کہیں نہیں لکھا کہ کوئی سرائیکی سندھ میں زمین نہیں خرید سکتا، پنجاب میں زمین نہیں خرید سکتا ، بلوچستان میں زمین نہیں خرید سکتا ، خیبر پختونخواہ میں زمین نہیں خرید سکتا، جب سرائیکی ہر جگہ زمین خریدنے کا اختیار رکھتا تو قوم سے جڑا ہر فرد چاہے وہ پنجابی ہو ، بلوچ ہو ، سندھی ہو ، ھزارے وال ہو ، پٹھواری ہو ، کوئی بھی ہو ، وہ بھی حق رکھتا ہے اور خرید سکتا ہے ہم سب کا شناختی کارڈ پاکستان کا ہے ہم پاکستانی ہیں۔ محبت کا درس دیں معاملات کو خوش اسلوبی اور حقدار کو حق ملنے پر واویلہ مچانے کی بجائے زمینی حقائق دیکھیں اور ان کے بہتر حل کی بہتر رائے دیں ۔ ہمارے خطے سے جڑا کوئی فرد تعصب نہیں چاہتا اور نہ ہی کسی قسم کا فساد ، بس امن بھائی چارے اور محبت سے اپنے حق کی فریاد کرتا ہے اور اپنا حق ہی مانگ رہا ہے جس کا وہ حقدار ہے ، آپ کا حق آپ کے پاس ہے ۔ ہمیں ہر صوبے کی ترقی عزیز ہے اور تمام صوبوں میں رہنے والے قابل احترام ہیں، تو ہم بھی امید رکھتے ہیں کہ تمام سیاسی پارٹیاں چاہے وہ نیشنل ہوں یا شہری سطح پر ہوں ، پنجابی لوگ ہوں ، بلوچ ہوں ، سندھی ہوں یا پٹھان ، ہم بھی سب سے محبتوں کی امید رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ سب بھی اس کاز میں ساتھ کھڑے ہوں تاکہ کل اگر آپ بھی کسی چیز کا حق رکھتے ہیں تو اس خطے کے لوگ بھی اپنے ساتھ نبھائے گئے عہد کی پاسداری رکھیں اور کام آئیں۔

مقالات ذات صلة

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا

الأكثر شهرة

احدث التعليقات