تحریر: خورشیدربانی۔اسلام آباد
سرائیکی شعر وادب میں نعت کا ظہور بھی اتنا ہی پرانا ہے جتنا خود سرائیکی ادب۔سرائیکی زبان کی پہلی دستیاب کتاب’’نورنامہ‘‘ ہے ۔اس طویل نعتیہ نظم کے مصنف کے تفصیلی حالات زندگی کے بارے میں اگرچہ تاریخ تاحال خاموش ہے تاہم محققین اس کاسنِ تصنیف 500ھ بتاتے ہیں جبکہ معروف محقق حافظ محمود شیرانی کا کہنا ہے کہ یہ ’’نورنامہ ‘‘ 752ھ میں سامنے آیا ۔اس کے مصنف ملاں تخلص کرتے تھے جس کی تصدیق درج ذیل شعرسے ہوتی ہے۔
پنج سو سال جو گذرئیے آ ہے ہجرت باجھ رسولاں
ملاں کہے غریب وچارا کم علماواں کولوں
ترجمہ:’’ اے ملاں! میں غریب کم علم لوگوں سے اس کے سوا کیا کہہ سکتا ہوں کہ حضورؐ کی ہجرت کو پانچ سو سا ل گذر گئے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر نصراللہ خان ناصرنے اسی شعر کو اس نور نامے کے سنِ تصنیف500 ھ کے جواز کے طور پر درج کیا ہے۔اس نورنا مہ کی زبان صاف اور اسلوب متاثر کن ہے،واقعہ ء معراج کے حوالے سے چند اشعار دیکھیے:
ہویا سوار براق دے اُتے ونج چڑھیا اَسمانے
حضرت تائیں ظاہر کیتس کل اسرار خزانے
نو اسمان کیتے رب پیدا ہر اَسمانے چڑھیا
گنبد عرش ٹکانیں ہویا قدم نبی ؐجاں دھریا
ساز وضوں ڈوں نفل رکعتاں ترت گذار سدھایا
کُنڈی پانڑی ہلدے آہے جاں پھر سجدے آیا
ترجمہ:’’حضورؐبراق پر سوار ہو کر آسمان تک پہنچے تو اللہ تعالی نے انؐ پر تما م اسراراور خزانے ظاہر کر دیے،سرکار دوعالمؐ نے مسجد اقصی میں دو رکعت نماز نفل پڑھائی،پھرآپ ؐ عرش پر تشریف لے گئے اور تمام آسمانوں کی سیر کی ۔اس سفر میں اتنا ہی وقت لگا کہ جب حضورؐ واپس تشریف لائے تو ابھی تک وضوکا پانی بہہ رہا تھا اور دروازے کی کنڈی ہل رہی تھی‘‘۔
حضرت ملاں کے قدیم نورنامے کے علاوہ حافظ مراد نابینا،امام الدین بھکوی کے نورنامے بھی آسمانِ تاریخ پردرخشاں ستاروں کی صورت موجود ہیں ۔ چانڈیو قوم کے ایک بزرگ حضرت میاں قبولؒ اور دودے شاہ کے معراج نامے، جو چھٹی صدی ہجری میں تخلیق ہوئے، بھی قدیم سرائیکی نعت کے لازوال نمونے ہیں۔ ڈاکٹر مہر عبدالحق کے مطابق سرائیکی ادب کی جو دوقدیم تحریریں دریافت ہوئی ہیں ان میں ایک قصیدہ بردہ شریف کا ترجمہ ہے جبکہ دوسری تحریر غلام حسین کی تخلیق ’’حلیہ مبارک‘‘ہے جو ۵۵ اشعار پر مشتمل ہے۔ حضرت ملا ں کے ’’نورنامے ‘‘،اعظم چانڈیو کے ’’حلیہ مبارک ‘‘ اور پیارا شہید کے ’’معراج نامہ ‘‘ جیسی نعتیہ روایت کے ساتھ ساتھ قدیم مذہبی کتب اور رسائل میں بھی نعتیہ کلام موجود ہے۔ اعظم چانڈیو کا نمونہ کلام دیکھیے:
دیکھ جمال نبی سرورؐ دا سِجھ تے چن شرماوِن
حور ملائک صدقے جاوِن پریاں گھول گھماوِن
بدن مبارک حضرت سرورؐ آہا عیبوں خالی
خالق خلقی سبھو سوہنڑی صورت سوہنڑے والی
ترجمہ:’’حضورؐ کا جما لِ پر انوار دیکھ کر سورج، چاند شرما تے ہیں ،ملا ئک اور حوریں اپنی جان قربان کر تے ہیں،حضورؐ کا بدن مبارک عیبوں سے پاک ہے ،اللہ تعالی نے انہیںؐ ہر لحاظ سے خوب صورت بنایا ہے ‘‘۔
سرائیکی شاعری کے اولین دور سے متعلق پروفیسر عامر فہیم رقم طراز ہیں:
’’سرائیکی شاعری کا ارتقا تو ہوتاہی حمد باری تعالیٰ اور نعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے ہے،جتنی پرانی کہانیاں ہیں،مثنویاں ہیں،لوک قصے ہیں ، سب کے آغازمیں دعا ہے کہ بارگاہِ رسالتؐ میں اسے قبولیت کا درجہ ملے‘‘۔
سرائیکی شاعری اس حوالے سے تو خوش بخت رہی ہے کہ اسے معروف صوفی شعراء حضرت بابا فرید شکر گنج ؒ ،شاہ حسینؒ ، شاہ شمس سبزواری ،ؐسچل سرمستؒ ؒ ،سلطان باہو ؒ ، بابا بلھے شاہؒ ؒ اورخواجہ غلام فریدؒ جیسے نابغہ ء روزگار شخصیات کی توجہ حاصل ہوئی،جنہوں نے سرائیکی شعر کواس بامِ کمال تک پہنچایا جس کی بلندی کو حدودِنظر میں تلاش کرنا مشکل ہے۔
وسدی ہر دم من میرے وچ،صورت یار پیارے دی
باغ ترا ، باغیچہ تیرا ، میں بلبل باغ تہارے دی
اپنڑے شاہ نوں میں آپ رجھاواں،حاجت نیں پسارے دی
کہے حسین فقیر نماناں،تھیواں خاک دوارے دی
(شاہ حسینؒ )
ترجمہ:’’ میرے دل میں ہر وقت محبوبؐ کا چہرہ مبارک آباد رہتا ہے،اے محبوب کریمؐ! باغ بھی تیرا ہے اور باغیچہ بھی ،میں تیرے باغ کی بلبل ہوں،اپنے محبوب ؐ کومیں آپ راضی کرسکتا ہوں ،حسین فقیر کی یہ خواہش کہ وہ آپؐ کے در کی خاک ہو جائے‘‘۔
چوڈس چن ہے مونہہ محبوبی ، واہ وسیع پیشانی
ویکھن نال حیراں رہیوسے ، رنگ سارا رحمانی
جھلک ایہیں دی کون جھلے،جو ہوئی نور نشانی
سچل حسن حسیناں اُتوں،جان کیتی قربانی
(سچل سرمستؒ )
ترجمہ:’’میرے محبوبؐ کا چہرہ چودویں کے چاند کی طرح روشن ہے،میرے محبوبؐ کے حسن کی کوئی مثال نہیں، میں بھی یہ جمال بے مثال اور رحمانی رنگ دیکھ کرحیرت میں مبتلا ہوں،اس نورانی پیکر کا مقابلہ کون کر سکتا ہے،سچل نے اس چہرہ ء پر انوار پر جان قربان کر دی‘‘۔
ب بسم اللہ اسم اللہ دا ایہہ گہنا وی بھارا ہو
نال شفاعت سرورِ عالم چھٹسی عالم سارا ہو
حدوں ودھ درود نبیؐ تے جئیں دا ایڈا پسارا ہو
میں قربان انہاں توں باہو جنہاں ملیا نبیؐ دلارا ہو
(سلطان باہو)ؒ
ترجمہ:’’بسم اللہ خدا وند تعالی کا نام ہے اور یہ گہنا انمول ہے،سرکاردوعالمؐ کی شفاعت سے ساری دنیا نجات حاصل کرے گی،ایسے باکمال نبیؐ پر بے شمار درود وسلام،باہو! میں ان لوگوں پر قربان جاؤں جنہیں ایسا دلارا نبیؐ ملا ہے‘‘۔
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکی ذاتِ بابرکات کی سیرت اور شان کابیان بڑی سعادت ہے ،حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے محبت و عقیدت اور آپؐ کے جمالِ بے نظیرکاوالہانہ اظہار اسلامی دنیا کے شعر وادب کا طرہ ء امتیاز رہا ہے۔پاکستان میں بولی جانے والی قریبا ہر زبان کے ادب میں نعت کی روایت موجود ہے مگر سرائیکی نعت میں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے جتنی محبت،عقیدت اور شفتگی کا اظہار کیا جاتا ہے،عشق کی جو وارفتگی بیان کی جاتی ہے وہ کسی اور زبان کی نعت میں کم کم ہی نظر آتی ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ولادتِ با سعادت،مکمل شجرہ ء نسب، سرکار دو عالمؐ کے والد گرامی کی شادی،حضرت عبدالمطلب کو خواب میں دی جانے والی خوشخبری،حضرت بی بی حلیمہؓ کا آپؐ کو گود لینا،سفرِ شام ،حضرت خدیجہؓ سے شادی مبارک،غارِ حراکی عبادات،واقعہ ء معراج،وحی کا نزول،حلیہ مبارک کا تفصیلی تذکرہ،حضورؐ کی عادات،معمولات،اقوال،فضائل،خصائل الغرض نبی کریمؐ کے بچپن،لڑکپن سمیت پوری زندگی کے ہر لمحے کا احوال سرائیکی نعت کا موضوع بنایا گیا ہے۔زمانہ ء قدیم سے سرائیکی شاعری میں نعت نگاری کی مختلف اصناف مروج چلی آتی ہیں جن میں زیادہ تر دل بہ دل سفر کرتی رہی ہیں یا قلمی نسخوں کی صورت محفوظ ہیں تاہم ایک معقول ذخیرہ کتابی صورت میں بھی دستیاب ہے۔ سرائیکی شعر و ادب میں نعت کے لیے مولود شریف کی ترکیب رائج ہے،اگرچہ یہ پرانے زمانے سے ایک الگ صنف کے طور پر بھی اپنا وجود منواتی رہی لیکن مجموعی طور پر ہر نعت کو مولود کہا جاتا ہے اور یہ روایت آج تک قائم ہے۔دوسری نعتیہ اصناف میں (جو غالبا سرائیکی شاعری ہی کا اختصاص ہیں) نورنامے،معراج نامے،حلیہ مبارک یا حلیہ نامہ،تولد نامہ،بارات نامہ ، وصال نامہ ،مولود شریف،تاج نامہ،درود نامہ،معجزہ معراج اور دیگر اصناف شامل ہیں ،علاوہ ازیں کافی ،رباعی،دوہڑہ،قصیدہ ‘مثنوی اور غزل کی ہیئت میں بھی نعت لکھی جاتی رہی ہے۔ قدیم زمانے میں گھڑ ولی لعل، تورہ،جوگی نامہ، طوطا نامہ، ڈھولے نامہ، سی حرفی اور محمدی بارہ ما جیسی نعتیہ اصناف بھی موجود رہی ہیں تاہم اب یہ روایت قریباً ختم ہوچکی ہے۔
گھڑولی لعل پرانے زمانے میں سہرے کے لیے مخصوص تھی لیکن بعض شعرا ء نے نعتیہ گھڑ ولیاں بھی لکھیں۔اس صنف میں بھی سہ حرفی کی طرح الف سے ی تک ایک ایک بند لکھا گیا۔ ایک قدیم گھڑ ولی کا ایک بند ملاحظہ ہو:
ن۔ نت وسے مینہ کرم دا جی
پانڑی کوثر باغِ ارم دا جی
ہادی صاحب کل شرم دا جی
ساری امت دا رکھوال۔گھڑولی لعل
(شاعر نامعلوم)
ترجمہ:’’ کرم کا بادل ہمیشہ برستا رہے،پانی حوضِ کوثر کا اور باغ ارم ہمارا مقدر بنے،حضورؐ سب گناہ گاروں کی لاج رکھیں گے اور ساری امت کی شفاعت فرمائیں گے ‘‘۔
تورہ بھی ایک قدیم صنفِ شعر ہے،یہ صنف لوک گیتوں کے لیے خاص رہی ہے مگر شعراء نے اس میں بھی نعتیہ رنگ بھرنے کی کامیاب کوشش کی ہے اوراکثر اوقات اس میں واقعہء معراج کو ہی قلم بند کیا ۔محمد شاہ نو بہار سیری حقانی جو سرائیکی شعر وادب کا ایک بڑا نام ہے، ان کا ایک نعتیہ تورہ دیکھیے:
وصی آنڑ کھڑوتا درتے،کھڑا پڑھے درود سرورؐ تے،سر ہیٹھاں دھر تے۔یانبیؐ جی
جُلو عرش اُتے یا حبیبیؐ،تھیا فضل تے خوش ہے نصیبی،قرب قریبی۔یا نبیؐ جی
طٰہ تاج لولاک دو شالہ،بنڑیا روح الدین سبالہ،سہریانوالہ۔یانبی ؐجی
ترجمہ:’’جبرائیل امیںآپؐ کے در پر آئے اور سر جھکا کربہ صد ادب درود و سلام پیش کرکے عرض کی یاحبیب ؐاللہ!یہ خوش بختی کی بات ہے کہ آپؐ کو مالک دوجہاں نے اپنے پاس بلایا ہے، آپ ؐ نے طٰہٰ کا تاج سر پر سجا یا،لولاک کا دوشالہ لیااورروح الا میں کے ساتھ عرش پر چلے گئے‘‘۔
ایک اور قدیم صنف جوگی نامہ ہے جس میں حضورؐکی خدمت میں شاعر اپنے دکھ درد بیان کرتے رہے ہیں ۔مولوی نبی بخش کے جوگی نامہ کا رنگ دیکھئے:
جوگی میڈا پاکوں پاک اے
خاطر جیندی کل لولاک اے
ادبوں حاضر تھی کھڑا براق اے
عاشق خود غفار اے
حوراں خدمت آیاں
ترجمہ:’’میرا کریم نبی ؐ پاکباز ہے ،انہی ؐ کی خاطر دو جہاں بنے ہیں،معراج کی رات براق ادب کے ساتھ حاضر ہوا،سرکاردوعالمؐ اللہ کے محبوب ہیں اور حوریں انؐ کی خدمت میں حاضر رہتی ہیں‘‘۔
اس کے علاوہ باغ شاہ اور مبارک شاہ کے جوگی نامے بھی مشہور ہیں۔طوطا نامہ بھی ایک نعتیہ صنفِ سخن رہی ہے جس کے ذریعے شاعر اپنے دل کا حال بارگاہِ رسالتؐ میں بالکل اسی طرح پیش کرتے رہے جس طرح اردو اور دیگر زبانوں کے شعراء نے بادِ صبا کے ہاتھ پیغام رسانی کو شعر کا موضوع بنایا ہے۔
بولیں طوطا نال ادب دے
اگوں میڈے شاہ عرب دے
آکھیں طوطا یار میڈے کوں
دل دے بھیداں ڈیواں کیکوں
توں ہے واقف رازِ نہانی
نور الدین مسکین
ترجمہ:’’میرے پیام بر طوطے!شاہِ عرب ؐکی بارگاہ میں ادب کے ساتھ حاضری دینا،میرے محبوب آقاؐ سے کہنا کہ آپؐتو رازِ نہاں سے واقف ہیں‘ میں اپنے دکھی دل کا حال کس کو سناؤں‘‘۔
طوطا نامہ سے ملتی جلتی ایک اور صنف ہدہد نامہ کا ذکر بھی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے،احمد یار خان کے ایک قلمی ہدہد نامہ سے اقتباس ملاحظہ کریں جو بقول ڈاکٹر طاہر تونسوی حبیب فائق کے پاس موجود ہے۔
جیویں ہدہد مدینے دی طرف جا
تمامی حال مہجوری دے سنڑوا
کریں پہلے طواف اس یار دے توں
میرے اس یار تے غم خار دے توں
کریں بعد از ثنائش صد تحیات
کروڑاں بار تسلیمات و صلوٰت
باہاں بدھ کے ادب دے نال اوں جا
دو زانو بہہ کے سبھ احوال سنڑوا
آکھیں رو رو کے سارا ہجر دا حال
کدی حضرت اے سانول مہر توں بھال
ترجمہ:’’اے ہد ہد!اللہ تجھے سلامت رکھے تو مدینے جا ،نبی پاک ؐ کی بارگاہ میں ادب کے ساتھ دو زانو ہو کے بیٹھنا اور میرے حبیبؐ اور میرے غم گسارآقاؐ کی زیارت کا شرف حاصل کرنا،سرکار دوعالمؐ کی بارگاہ میں بعد ازکروڑوں درود و سلام،میرے ہجر کا حال رو رو کربیان کرنااوریہ عرض بھی گزار ناکہ یہ دیوانہ آپ ؐ کی نظر التفات کا منتظر ہے‘‘۔
نعتیہ ڈھولے ایک ایسی صنفِ سخن ہے جس نے سرائیکی شاعری پر راج کیا ہے۔درجنوں شعرا نے نعتیہ ڈھولے لکھے مگر خادم حسین مکھن بیلوی ،ناطق،مولانا شائق،جان محمد گداز اور مولوی نبی بخش کے ڈھولے بہت مشہور ہوئے۔
م مدنی ڈھول آ ڈے دیدار ضروری
اصلوں مار مکایا ایں فرقت مہجوری
نہ کر بے پروایاں دل نہ سہندی دوری
خادم خاک نکاری ، توں خلقت ہیں نوری
خادم حسین مکھن
ترجمہ:’’اے مدینے والے محبوب!ؐ ہمیں اپنی زیارت سے مشرف کر،ہم دردِ فرقت ہاتھوں بے حال ہو چکے ہیں،ہم سے بے پروائی نہ کرنا کہ یہ دل اب ہجر کا دکھ برداشت نہیں کرسکتا،آپؐ سراپا نور ہیں اور یہ خادم خاک کا پتلا‘‘۔
ل لاج امت دی احمد پاک پلیسی
کھوٹی کھری امت کوں اپنڑے دامن لیسی
ہر ہر اکھ وچالے سَے سَے ڈوھ تاں ڈیسی
ناطق عاجز امت کوں ایہو پار پچیسی
(ناطق)
ترجمہ:’’حضور نبی کریمؐ اس امت کی لاج رکھیں گے،کوئی گناہ گار ہو یا پاکباز،سب کو اپنے دامن میں چھپا لیں گے۔اے ناطق!نبی پاکؐ پردہ پوشی سے کام لیں گے اور اس عاجز امت کو منزل تک لے جائیں گے‘‘۔
ل لُک چھپ ڈھولا برقعہ میم دا پایو
آپوں ملک عرب وچ احمد نام دھرایو
کیتو حسن دا جلوہ ملکاں دھوم مچایو
شائق یار دے دل وچ ڈھولا جھوک بنڑایو
(مولانا شائق)
ترجمہ:’’حضور نورمجسمؐ میم کے پردے میں تشریف لائے،آپ ؐ عرب کے ملک میں احمدؐ نام سے متعارف ہوئے،اپنے حسن سے دنیا میں دھوم مچائی اور اس شائق کے دل میں ڈیرہ ڈال لیا‘‘۔
سہ حرفی کو بھی ایک مقبول صنفِ شعر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔سید امیر حیدر میرن،علی حیدر ملتانی،حافظ جمال ،حمل خا ن لغاری،سچل سرمست،فائق،شائق،سید مبارک شاہ،محمد بخش بخشا، سید شیر محمد گیلانی اور میاں رحیم بخش سہ حرفی لکھنے والوں میں نمایاں رہے ہیں۔
م محمدؐ دے ناں توں گھول گھتاں جگ سارا
عاجز جئی کان کمینی چھوڑویس تخت ہزارا
میں ماندی درماندی کوں ڈکھلایس روپ نظارا
میرن شاہ میڈے من بھایا ماہی ماہ متار ا
(امیر حیدرمیرن)
ترجمہ:’’میں محمدؐ پردوجہان قربان کردوں،مجھ درماندہ کو انہوں ؐنے اپنا دیدار کرایا ہے،اس عاجز نے اپنے دیس کو خیرباد کہہ دیا کیونکہ میرن شاہ کے دل کو وہ ماہِ کامل ؐ ہی پسند آگیا ہے‘‘۔
م محمد صلی علیٰ دا ہر دم ساکوں آسرا اے
اوسے دی امید ساہاں عملاں نہ بھرواسڑا اے
اوسے دے دربار دے سائل ہتھ اساڈڑے کاسڑا اے
اوسے دے دلاسے تے حیدر ہنجوں والا ہاسڑا اے
(علی حیدر ملتانی)
ترجمہ:’’آقامحمدؐ ہر لمحے ہمارا سہارا ہیں،ہمیں اپنے اعمال نہیں انؐ کی رحمت کا بھروسہ ہے،ہم کاسہ لے کر انؐ کے درپر سائل بنے کھڑے ہیں،اے حیدر !ہمارے آنسوؤں کو انہیؐ کے کرم کی امید ہے‘‘۔
سرائیکی شاعری میں نعتیہ سہرے کی روایت بھی قدیم ہے جن میں واقعہ ء معراج کوبیان کیا جاتاہے،اس حوالے سے محمد شاہ حقانی نو بہاری سیری کے سہرے بے مثال ہیں۔مولانا شوق جو عالمانہ نظم ونثر کے لیے مشہور تھے انہوں نے بھی109 صفحات پر مشتمل سہرا یادگار چھوڑا ہے۔
معراج مانڑے بناں معراج وے
سرتاج مانڑے بناں جگ راج مانڑے وے
آکھے محمد شاہ کیا سائیں تیڈی صفت تاں مکدی نئیں
تھیا خشک ختم مس پناں معراج مانڑے وے
(محمد شاہ حقانی سیری)
ترجمہ:’آپؐ کو معراج مبار ک ہو،ہمیشہ معراج کے حامل رہیں،سرتاجی اور جگ راجی ہمیشہ آپؐ کے پاس رہے،اے صاحبِ معراجؐ!میرے قرطاس و قلم میں طاقت نہیں رہی ،یہ محمد شاہ آپؐ کی کیا تعریف کرے کہ آپؐ کی صفات کی کوئی حد نہیں‘‘۔
سہرے کے علاوہ واقعہ ء معراج کے بیان کے لیے ایک اورصنفِ سخن ’’معراج نامہ‘‘بھی معروف ہے ، قدیم معراج ناموں میں میاں قادر یار اور حافظ محمد یار کے معراج نامے بہت مقبول ہوئے ہیں۔
توں نبی کونین سرورؐ ، پاک سید مرسلیںؐ
دینِ روشن ، شان افضل ، توں پیمبر آخریںؐ
توں نبیؐ سرتاج بہتر، یامحمدؐ خاتمیں
حوضِ کوثردا توں ساقی، ہر نبی دا پیشوا
توں اگے فریاد میڈی ، یامحمدؐ مصطفےؐ
(حافظ محمد یار)
ترجمہ:’’اے نبی پاکؐ آپ ؐ سرور کونینؐ ،سید المرسلینؐ ہیں،آپؐ کا دین روشن،آپؐ کی شان افضل ہے،آپؐ انبیا کے سر تاج اور خاتم النبین ہیں،آپ ؐحوض کوثر کے ساقی اور ہر نبی کے پیشوا ہیں،اے محمدؐ !میں بھی آپ کے پاس فریاد لے کے آیا ہوں‘‘۔
سرائیکی شاعری میں’’ مولود شریف‘‘کی روایت بھی پرانے زمانے سے چلی آتی ہے ، خواجہ فریدؒ ، محمد یار بلبل ، شاطر نماناں ، مجروح شاہ ،جلال کلیم ، خرم بہاول پوری ،گلشن ، کمتر ,کہتر، فدوی، مولوی اعظم،احمد یار،نور محمد گدائی، صابر مبارک پوری،ولایت شاہ،مولوی عبیداللہ،مولوی کریم بخش پردیسی،خادم اور مولوی محمد صدیق امر پوری سمیت کئی شعراء نے اس صنف میں اپنے کمال کے جوہر دکھائے ہیں۔
چیتر چیت ہمیشہ کردی ، وچ مدینے جاواں میں
روضے پاک نبیؐ دے اوتوں ، اپنڑی جان گواواں میں
جیکر ہوواں حضور ول پوری سارے مطلب پاواں میں
رب رحیم کریم قادر توں ہر دم ایہو چاہواں میں
(نور محمد گدائی)
ترجمہ:’’چیت کے مہینے میں ہر سال میرا دل چاہتا ہے کہ میں مدینے جاؤں،روضہ ء رسولؐپر جان قربان کروں،اگر میں مدینہ پہنچ جاؤں تومیری یہ خواہش پوری ہو جائے،میں ربِ رحیم و کریم اور قادرِ مطلق سے ہر دم مدینہ کی حاضری طلب کرتا ہوں ‘‘۔
قاصد شوق کبوتر ہوے
شہر مدینے جایں میڈے یارا
خدمت پاک نبی سرورؐ دی
رو کر حال سنڑایں میڈے یارا
بہہ کر نال نیاز ادب دے
حاضر خدمت شاہ عرب دے
عرض کریں سبھ نال طلب دے
سمجھ کے سخن اَلایں میڈے یارا
(خادم)
ترجمہ۔’’ اے میرے شوقِ دیدار کے کبوتر، قاصد بن کر شہرِمدینہ جا اور سرورِ کونینؐ کی خدمت میں ادب کے ساتھ حاضری دے۔بارگاہ رسالتؐ میں میرا حال رو رو کر بیان کر۔ یہ دھیان رکھنا کہ حضورؐ کے سامنے ادب اور نیاز مندی کے ساتھ،سوچ سمجھ کے بات کرنا‘‘۔
حلیہ نامہ بھی ایک قدیم نعتیہ صنف ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا حلیہ مبارک سیرتِ رسولؐ کی روشنی میں لکھا جاتا رہا ہے،اس کا بھی ایک وقیع ذخیرہ موجود ہے۔ سرائیکی شاعری میں محمد اعظم کے ’’حلیہ مبارک‘‘ کوممتاز مقام حاصل ہے،یہ منظوم کلام چھٹی صدی ہجری کے آواخر میں لکھا گیا،نمونہ کلام ملاحظہ ہو
نوری عالم سارا آکھے ماہ کنعانی سوہنڑاں
پَر چَن عرب دا بہت سلونڑاں،سوہنڑاں تے من موہنڑاں
لعل یاقوت لباں دی لالی ڈیکھن دی سدھرائی
رم جھم ڈنداں دی رتی توں موتی گھول گھمائی
ہر دم حمد الہی آکھاں رب کوں خالق جاناں
جیں رب اپنڑاں دوست بنڑایا سوہنڑان ڈو جہاناں
ترجمہ:’’نور سے معمور دنیا کہتی ہے کہ ماہِ کنعان خوبصورت ہے لیکن عرب کا چاند بہت پیارا،من موہنا اور بے مثال ہے،آپؐ کے لب مبارک کی لالی کے سامنے یاقوت بے معنی ہو کررہ جاتے ہیں،دانت مبارک کی چمک دمک پر موتی جان چھڑکتے ہیں،میں ہر وقت اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں اور اسے خالق مانتا ہوں جس نے آپؐ جیسا (دوجہان میں بے مثال حسن کا مالک) دوست بنایا ہے‘‘۔
محمد اعظم کی طرح کئی اور شعرا ء نے بھی حلیہ نامے لکھے ہیں، ان میں مولوی عزیز الرحمن عزیز کے حلیہ نامہ نے بھی کافی شہرت پائی ،نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
ہنس مکھ رہے ہمیشہ سرور ؐغصہ کڈھا نہ آوے
جوش دے وقت متھے وچ ہک رگ ابھرے جنبش کھاوے
رہے نگاہ ہمیشہ جھکی اوتے ڈیکھے گاہے
پہلے کرے سلام ہمیشہ خُلق دے نال اِلاوے
(مولوی عزیز الرحمن عزیز)
ترجمہ۔’’ حضورؐ ہمیشہ ہنس مکھ رہے ،انؐ کے چہرے پر کبھی غصہ نظرنہیں آیا،جوش کے وقت اکثر ماتھے پرایک رگ ابھر آتی تھی،حضورؐ ہمیشہ نگاہ نیچی رکھتے،گاہے گاہے ہی نظر اٹھاتے،سلام کرنے میں بھی ہمیشہ پہل کرتے اور ادب و اخلاق کے ساتھ گفتگو فرماتے‘‘۔
قصہ ہرنی بھی سرائیکی شاعری کی ایک منفرد صنف ہے اور اس میں بھی متعدد شعراء نے طبع آزمائی کی ہے۔ڈتن ملتانی کے قصہ سے اقتباس ملاحظہ ہو:
اول حمد ہکو سب مومن آنڑو شکر بجا
مطلب رازق خالق ہر دا سچا پاک خدا
حضرت نبی محمدؐ صاحب نبیاں دا سردار
پڑ ھو درود صلوٰۃ ہمیشہ مومن بے شمار
ترجمہ:’’اے مومن مسلمانو!پہلے خد اکی حمد بیان کرو،اللہ تعالی کی نعمتوں پر شکر ادا کرو کہ وہ خالق و رازق سب کا خدا ہے ،پھر نبیوں کے سردار حضرت محمدؐ پر بے شمار درود وسلام پیش کرو‘‘۔
معروف لوک داستانیں ہیر رانجھا،سیف الملوک،سسی پنوں اور اسلامی داستان یوسف زلیخا کو بھی سرائیکی شعرا ء نے اپنا موضوع بنایا ہے اور ان داستانوں کا آغاز حمدو نعت کے ساتھ ساتھ مناقب سے کیا گیا ہے،مولوی احمد یار تونسوی قصہ یوسف زلیخا میں نعتِ سررکارؐ رقم کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
مجلس خاص خدا دی نال جبرائیل وزیرے
دو کونین بہشت جو سارے سرورؐ دی جاگیرے
ترجمہ:’’حضورؐ کوبارگاہ خدا وندی میں حاضری کا شرف حاصل ہے،جبرئیل انؐ کے نائب ہیں اور دونوں جہان آپؐ کی جاگیر ہیں‘‘۔
مولوی لطف علی کی سیف الملوک’’سیفل نامہ‘‘ اور چراغ اعوان کا قصہ ہیر رانجھا میں بھی اس حوالے سے اہمیت کی حامل تخلیقات ہیں۔ سرائیکی شاعری میں مولوی غلام قادر قریشی کا تولد نامہ بھی ایک قابل قدر تخلیق ہے،1072اشعار کا حامل یہ نعتیہ کلام قریبا ایک صدی قبل منظر عام پر آیا۔اس کے مطالعہ سے مصنف کے تبحرِعلمی کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور فنِ شعر پر کا مل دسترس کا پتہ بھی چلتا ہے۔
ڈاکٹر طاہر تونسوی نے قاضی محمدعارف کے ایک سفرنامہ کے قلمی نسخہ کی موجودگی کا انکشاف بھی کیا جو بقول ان کے حبیب فائق کے کتب خانہ میں محفوظ ہے۔ڈاکٹر مہر عبدالحق نے اس سفر نامہ کو سرائیکی کا پہلا منظوم سفر نامہ قرار دیا ہے۔اس سفر نامہ میں بھی نعتیہ رنگ موجود ہے۔قاضی عارف سفر مدینہ پر روانہ ہوتے ہوئے یوں سخن سرا ہیں۔
طرف مدینے تھیئم روانہ ہویا لطف خدایا
نئیں کجھ خوف سفر دا ہر گز نام خدا سر چایا
تھیسی فضل الہیٰ شامل ہوسی پندھ سجایا
طالب ہاں دیدار نبیؐ دا ہر دم شوق سوایا
ترجمہ۔’’مجھ پر اللہ کا فضل ہوا کہ میں مدینے کی سمت عازمِ سفر ہورہا ہوں،میں بنامِ خدا سفر پر روانہ ہو رہا ہوں اس لیے مجھے کوئی خوف لا حق نہیں ہے ،اللہ کا فضل شاملِ حال رہے گا اور میں منزل پر ضرور پہنچوں گا۔میں حضورؐ کے دیدار کا مشتاق ہوں اور یہ شوق بڑھتا ہی چلا جاتا ہے‘‘۔
ان اصناف کے علاوہ بارہ ماہ،ماہیے،محمدی بارہ ماسے اورچرخے نامے بھی لکھے گئے ہیں ، کافی،غزل اوردوھڑے کی اصناف میں بھی نعتیہ رنگ کی تابانی اپنی مثال نہیں رکھتی۔نعت کی روایت کا یہ سلسلہ نورنامہ کے حضرت ملاں ،میاں قبول شاہ ، اعظم چانڈیو ، حضرت شاہ حسین ؒ ،سلطان باہوؒ ، بلھے شاہؒ ،سچل سرمست ،حافظ جمال ملتانیؒ اورغلام فقیرسے آگے بڑھتا ہوا جب خواجہ غلام فریدؒ تک پہنچا تو اس میں جدت اور ندرت کے کئی دل کش رنگ نمایاں ہوچکے تھے۔خواجہ فریدؒ 19 ویں صدی کے وہ واحد اہم ترین شاعرہیں جنہیں عالمی شہرت نصیب ہوئی۔ان کے کلام کا سوز وگداز،مٹھاس،اور نغمگی اپنی مثال آپ ہے،ڈاکٹر طاہر تونسوی لکھتے ہیں: ’’خواجہ فریدؒ نے لحنِ داؤدی میں سچے حسن اور سچے عشق کی تلاش کا جو نغمہ تخلیق کیا اور عقیدت و محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا جو مست کردینے والا سُر چھیڑا ہے اس کے باعث وہ سب کے دل کی دھڑکن بن گئے۔علامتوں اور اسرارکے حوالے سے انہوں نے تصوف کے جو مسائل بیان کئے اور جس طرح علاقہ کی علامت کو اظہارکا ذریعہ بنایا اس میں ان کا ثانی کوئی نہیں‘‘۔
خواجہ فریدؒ ایک صوفی شاعر تھے اس لیے ان کی شاعری میں وحدت الوجود کے نظریے کے اثرات بھی نظر آتے ہیں اور ایک عاشقِ کامل کی صدائے درد مند بھی سنائی دیتی ہے۔صوفیانہ شاعری کے ساتھ ساتھ ان کے کلام میں حمد اور نعت کے مضامین بھی اپنے منفرد انداز میں موجود ہیں۔
اِتھاں میں مٹھڑی نت جان بلب
او تاں خُش وسدا وچ ملک عرب
ہر ویلے یار دی تانگ لگی
سُنجے سینے سک دی سانگ لگی
ڈُکھی دِلڑی دے ہتھ تانگ لگی
تَھے مِل مِل سُول سمولے سب
تتی تھی جوگن چودھار پھراں
ہند سندھ پنجاب تے ماڑ پھراں
سُنج بَر تے شہر بزار پھراں
متاں یار مِلم کَیں سانگ سبب
توڑے دِھکڑے دُھوڑے کھاندڑی ہاں
تیڈے ناں توں مفت وکاندڑی ہاں
تیڈی باندیاں دی میں باندڑی ہاں
ہے دَر دِیاں کُتیاں نال ادب
واہ سوہنڑاں ڈھولنڑ یار سجن
واہ سانول ہوت حجاز وطن
آ ڈیکھ فرید دا بیتِ حزن
ہِم روز ازل دی تانگ طلب
ترجمہ:’’میں قسمت کی ماری یہاں دردہجر سے جاں بہ لب ہوں، اورمیرا محبوبؐملک عرب میں خوش آباد ہے، میرے دلِ برباد میں چاہت کا تیرپیوست ہے، ہر وقت محبوبؐ کا انتظار رہتاہے، اورمیرے بیتاب اور دکھی دل کو محض انتظار عطا ہوا ہے۔ دکھوں نے میرے دل کو گھیر لیا ہے،میں سوختہ جان جوگن بن کر محبوبؐ کی تلاش میں جگہ جگہ دیوانہ وار پھر رہی ہوں، ہند،سندھ،پنجاب، ماڑ تک ، کبھی صحراؤں میں اور کبھی شہروں میں۔مَیں اس لیے پھرتی رہتی ہوں شاید کہیں کسی سبب سے دوست مل جائے،اگرچہ تیری محبت میں دربدر دھکے کھاتی ہوں، پھر بھی تیرے نام پر مفت بک ہونے کو تیار ہوں ،تیری کنیزوں کی بھی کنیز ہوں اور تیرے در کے کتوں کا بھی ادب کرتی ہوں، اے میرے محبوب تمام دنیا سے حسین اور پیارے، ملک حجاز کے سانولے سلونے ’’ہوت‘‘ دوست سبحان اللہ ،آکرفرید کا غم کدہ دیکھ، جو روزِ اول سے تیرے انتظار میں ہے ‘‘۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقہ ڈھکی کے رہائشی ایک صوفی شاعر غلام فقیرکو اگرچہ ملکی سطح پر ان کے کام اور کلام کی نسبت بہت کم تعارف حاصل ہے تاہم وہ بھی نعت گوئی اور صوفیانہ شاعری کے حوالے سے ایک اہم نام ہیں۔غلام فقیر خواجہ غلام فرید ؒ اور علامہ اقبال ؒ کے ہم عصر تھے اور ان سے ملاقات کا شرف بھی رکھتے تھے ۔وہ ۱۵ستمبر۱۸۱۹ کو چوٹی بالا ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے بعد ازاں ان کے آباو اجداد ہجرت کرکے ڈیرہ اسماعیل خان آگئے۔ غلام فقیر نے ۱۰مئی ۱۹۳۸کوجہان فانی سے کوچ کے لیے رختِ سفر باندھ لیا۔غلام فقیرنے حمدونعت کے علاوہ کافیاں،سہ حرفیاں اور ڈوھڑے بھی لکھے۔ان کی نظم عاشق اور گھڑے کا مکالمہ اپنا جواب نہیں رکھتی۔غلام فقیر کا نام تو زیادہ سفر نہ کرسکا لیکن ان کا دل کش اور پر اثر کلام دل سے دل تک سفر کرتا ہوا ایک عالم کو اپنا گرویدہ بناتا رہا۔امیر خسروؒ کے تتبع میں ان کی ایک نعت دیکھیے:
وہ خمریاں سب شوق میں،ڈالے ہوئے گل طوق میں
کہتی تھیں سب اس ذوق میں،کشف الدجےٰ بجمالہ
بلبلیں بھی سو بہ سو اور لے لے ہر اک گُل کی بُو
کرتی تھیں باہم گفتگو،حسنت جمیعُ خصالہ
چڑیوں کی سن کر چوں چئیں ، بندے بھی کیوں کر چپ رہیں
لازم ہے ان کو یوں کہیں،صلوا علیہ وآلہ
ملک کے سرکاری ٹی وی پر ان کا یہ خوبصورت کلام تونشر ہوتا رہتا ہے مگر ان کا نام سامنے نہیں لایا جاتا۔اس کا سبب شاید تخلص کی عدم موجودگی ہو کہ اس نعتیہ نظم کے مداح نے اسے ایک بڑے نشریاتی ادارے تک تو پہنچایا لیکن شاعر کا نام تلاش کرنے کی کوشش نہ کی حالانکہ آخری شعرمیں ان کا نام موجود ہے،ان کے قلمی نسخہ میں درج بالا تیسرا شعر یوں ہے:
چڑیوں کی سن کر چوں چہیں،کیوں غلام فقیر بھی چپ رہیں
لازم ہے ان کو یوں کہیں،صلوا علیہ وآلہ
غلام فقیر کا نعتیہ کلام ملک بھر میں پڑھا اور سنا جاتا ہے لیکن ان کی شخصیت پر ابھی تک کوئی جامع کام نہیں ہوا۔ان کے کلامِ دل نشیں کا ایک وقیع ذخیرہ قلمی نسخوں کی صورت ان کے پوتے حاجی رشید احمد کے پاس موجود ہے اور وہ اس کی اشاعت کے لیے کوشاں ہیں،سرائیکی نعتیہ کلام ملاحظہ کیجیے:
واہ شان نبی سرورؐ دا اے
جیہڑا شافی روز حشر دا اے
یٰسین خدا فرمایا ہے
تیڈا نام مبارک آیا ہے
ایہو درجہ کئیں نہ پایا ہے
او صاحب شان قدر دا اے
ہک عرض کریندا اسیرا اے
درماندہ غلام فقیرا اے
تیڈے باجھوں دست نگیرا اے
میکوں آسرا تیڈے در دا اے
ترجمہ :’’سبحان اللہ ! اس نبی مکرمؐ کی کیاشان ہے جو بہ روزِ حشر سب کی شفاعت کریں گے،اللہ تعالی نے انہیںؐ یاسین کہا ،یہ درجہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوسکا ،رسول پاک ؐ بڑی قدر اور شان رکھتے ہیں،اس اسیرِ محبت کی استدعا سن لیں کہ اس درماندہ غلام فقیرکا آپؐ کے بغیر کوئی دستگیر ہے اور نہ ہی آپؐ کے سوا کوئی آسرا‘‘۔
نعت کے مضامین اور موضوعات میں جہاں عہد بہ عہد جدت پیدا ہوئی وہیں اس میں تازگی اور قلبی واردات کے خوبصورت نمونے سامنے آئے،نیا اسلوب،نئے تشبیہ واستعارات، ندرتِ فکر وخیال،قلبی عقیدت کا والہانہ اظہار،جذبہ و احساس کی رفعت،جمالِ سرکارؐ کا ذکرِ نکہت افروز، حسنِ سیرتِ رسولؐکی ضو باریاں،فریاد واستغاثہ کی پر سوز لے ،تہذیب اسلامی کی رعنائی اور حرف ومعنی کی تابندگی نے ایک نئے طرزِاحساس کو جنم دیا ۔بیسویں صدی کا نصف آخراور اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں تخلیقی تسلسل اور فنی ارتقا ء کے ساتھ جس طرح دیگر شعری اصناف میں نئے مضامین ،موضوعات اور جدید تر لب ولہجہ کی چمک دمک نے فروغ پایا اسی طرح نعت میں بھی نئی دنیا ئیں دریافت کرنے کا عمل بتدریج آگے بڑھا اور تخلیقی تسلسل کی جاندار روایت بھی پروان چڑھتی چلی گئی۔ اس عرصہ کے دوران نعت میں فکروخیال اور اظہار کے جوزاویے سامنے آئے اور جس طرح نعت کے کینوس میں وسعت پیدا ہوئی اسے اپنے الگ اور منفرد ذائقے کے ساتھ پہچاننا مشکل نہیں۔بیسویں صدی میں لکھی گئی دوسری زبانوں کی نعت کی طرح سرائیکی نعت بھی اس بات کی غماز ہے کہ وہ بھی محبتِ رسول ؐ اور عشقِ مصطفےؐکے روشن چراغوں کی حامل ہے۔نئی نعت میں جمالِ مصطفے ؐ کی ثناء بھی ہے اورسیرتِ مصطفےؐ کی ضیا بھی، سرکارِ دوعالم ؐ سے عقیدت کا اعتراف بھی ہے اور قلبی تعلق کا انکشاف بھی،قومی وملی مسائل کا بیان بھی ہے اور ذاتی الجھنوں کا اظہار بھی،عصری معاملات بھی ہیں اور کائناتی بھی،دامانِ رحمت پناہؐ کی وسعتوں کا تذکرہ بھی ہے اور عفو و در گزرطلبی بھی،الغرض جدید نعت ہر زاویے سے ارتقا کی نئی منزلیں بھی سر کررہی ہے اور بشارتیں تحریر کرنے کا کیف آورکام بھی انجام دے رہی ہے۔ مولانا نور احمد فرید آبادی،محمدیار بلبل فریدی،فقیر بخت ،محمد رمضان طالب،محمد بخش شاطر،فیض محمد دلچسپ ،مولوی مسکین،میرن شاہ،مولوی صدیق ،جانباز جتوئی ، غلام سیت پوری ،ایم بی اشرف،امید ملتانی،شائق بزدار،شباب ڈیروی ،حافظ رسول بخش حافظ،منظور احمد ناظم صابری، نور محمد سائل،حاجی بشیر احمد،دل نور پوری،آغا اقبال حسین،خان محمد کمتر،احمد حسن پر سوز،فیض عباسی،تاج محمد تاج،ماسٹر خادم حسین،خلیل احمد خلیل فریدی،دلکش اماموی،عبدالقدیر رئیس احمد پوری،فدا حسن،شہباز،عبدالرحمان آسی، شیخ امیر مجروح ،شاہ نواز فخری،گل خان خطائی،عبداللہ یزدانی ،نصیر سرمد،سرور خان سرور،عبدالرزاق بھٹی ، محمد نوازعظیم قادری ، عطا الرسول اویسی ، غلام نبی اویسی ، غلام حسین قمر،عزیزالرحمان گوہر،محمد رمضان بھٹی،محمد صدیق قدوسی،خادم حسین مخفی،غوث بخش منصف ،محمد منشا نادر لاشاری ،ممتاز احمد زاہد،نور الحسن لاشاری،محمد اقبال عاقل ،منظور شاہ،دیوانہ بلوچ،شوق اُچوی، خدا بخش اظہر، ثاقب دامانی ،صفدر کربلائی سمیت کئی شعراء اس جاندار اور شاندارروایت کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں جنہوں نے سرائیکی نعت کو جدت اور ندرت کی نئی منازل سے آشنا کیاہے۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:
حقیقت محمدؐ دی پا کوئی نیں سگدا
اتھاں چپ دی جھااے اَلاکوئی نیں سگدا
(مولانا نورمحمد فرید آبادی)
ترجمہ:’’کوئی بھی شخص حضور نبی کریمؐ کی حقیقت تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا،یہ مقام خامشی کا ہے،یہاں کسی کو بات کرنے کی اجازت نہیں ہے‘‘۔
نبیؐ سئیں تیڈے مکھ ڈکھاونڑ توں صدقے
خدا سئیں محمدؐ بناونڑ توں صدقے
تیڈے میم دے برقعے پاونڑ توں صدقے
احد ہو کے احمد سڈاونڑ توں صدقے
(خواجہ محمد یار بلبل فریدی)
ترجمہ:’’اے نبی کریمؐ ! میں اس بات پر آپ ؐ پر قربان جاؤں کہ آپؐ نے ہمیں زیارت کا شرف بخشاہے ، میں اللہ تعالی پر اپنی جان فدا کروں کہ اس نے محمدؐ کو پیدا فرمایا،میں محمدؐ کے پردہ ء میم پر اپنی جان وار دوں اوراس کے احد ہوتے ہوئے خود کو احمد کہلانے پر نثار ہو جاؤں‘‘۔
محبوبِ رب کونین دی شاہی پیا ٹھمکینداے ایویں
جیویں خدا ایکوں رنگیا ھے جگ کو رنگینداے ایویں
(صابر مبارک پوری)
ترجمہ:’’خدا کے محبوبؐ دو جہان کی رونق بڑھا رہے ہیں اور کونین کو اس طرح نواز رہے ہیں جس طرح خدا نے انؐ کو نواز ا ہے‘‘۔
تیڈے دین دے نور نے کیتا روشن ہک ہک گھر کوں
ڈاھاندیاں گئیاں آپو آپے رستے دیاں دیواراں
ایہو شوق رشید ہے میڈے جیون دا سرمایا
سوہنڑے روضے دیاں چھاواں وچ ساری عمر گذاراں
(رشید عثمانی)
ترجمہ:’’اے رسول کریمؐ آپؐ کے دین نے ایک اک گھر روشن کردیا اوررستے میں آنے والی دیواریں خود بہ خود گر گئیں،اس رشید کی ایک ہی تمنا ہے کہ یہ اپنی زندگی گنبدخضرا کے سائے میں گذار دے‘‘۔
عالم دی تخلیق دا باعث ہر مخلوق توں اعلیٰ
بعد خدا دی ذات دے سب توں اچیاں شاناں والا
جیندے ناں دیاں بانگاں سنڑ کے شام دے ڈیوے بلدن
جیندے ناں توں فزریں ویلے ڈیہنہ کوں سوجھلے ملدن
(حسن رضا گردیزی)
ترجمہ :اس عالم کی تخلیق کا سبب حضور نبی کریم ؐ ہیں،جوہرمخلوق سے اعلی ہیں،اللہ تعالی کے بعد سب سے بلند مقام و مرتبہ انہی ؐکاہے،انؐ کے نام کی اذان سن کر شام کے چراغ روشن ہوتے ہیں ، انہی ؐ کے نام سے صبح ہوتی ہے اوردن کو اجالا نصیب ہوتا ہے‘‘۔
جڈاں دور عدم وچ ذات احد کیتا حمد اپنڑا منظور اے
نال الفت احد دے حمد ملا کیتا احمدؐ نام ظہور اے
تہوں ہر توں پہلے پیدا کیتس پاک احمدؐ دا نور اے
وت مدت اوں ناں کوں رکھیس اپنڑے محض حضور اے
(غلام حسن شاہ تائب)
ترجمہ:’’جب عالمِ عدم میں خدا وند تعالی نے چاہا کہ میری حمد کی جائے تو محبت کے ساتھ احد اور حمد کو ملا احمدؐ کو تخلیق کیا،پھر سب سے پہلے احمدؐ کانور عالمِ ظہور میں لائے اورایک مدت اس نورکو اپنے حضور میں رکھا‘‘۔
یزداں بھجے فرمان کیتا روح الامیں تے
جبریل نہ لا دیر توں ونج جلد زمیں تے
پیغام پچا جلد میڈے ماہِ جبیںؐ تے
محبوبؐ میڈا آوے جو اج عرش بریں تے
محبوب دی اج عرش تے مہمانی کریساں
اج وحی نیں گال میں زبانی کریساں
(تسکین ملتانی)
ترجمہ۔’’اللہ تعالی نے جبرئیل علیہ سلام کو حکم دیا بلا تاخیر زمین پر جاؤ اور میرے محبوبِ ؐ ماہ جبیں کویہ پیغام پہنچاؤکہ مالک دوجہاں نے آپؐ کو عرش پر بلایا ہے۔میں آج اپنے محبوب کو عرش پر مہمان بنانا چاہتا ہوں اور وحی کے ذریعے نہیں بلکہ محبوب سے براہِ راست بات کرنا چاہتاہوں‘‘۔
نعت لکھاں میں پاک محمدؐ ھے محبوبؐ سبحانی
قسماں چایاں خود رب اکبر ایجھاں حسن لاثانی
رب اکبر ھے رحمت بھیجی جوڑ شکل انسانی
مجروح لولاک لما سر جھلدا واہ شوکت سلطانی
(شیخ محمد امیر مجروح)
ترجمہ:’’میں نبی پاک محمدؐ کی نعت لکھنا چاہتا ہوں جو خدا کا محبوب ہے،اللہ تعالی نے جس کے بے مثال حسن کی قسمیں کھائی ہیں، اللہ نے انسانی پیکر میں اپنی رحمت بھیجی ہے ،آپؐ کو لولاک لما کا تاج پہنایا ہے،اے مجروح !سبحان اللہ ،کیا شوکتِ سلطانی ہے‘‘۔
کریندے ودے ہیں ثنا مصطفےؐ دی
پسند آگئی ھے ادا مصطفے دیؐ
دعا ھے حشر وچ خدا آکھ ڈیوے
کوئی نعت سبقت سنڑا مصطفے دیؐ
(سبقت)
ترجمہ:’’ہم محمد مصطفے ؐ کی ثنا کرتے رہتے ہیں کیونکہ ہمیں انؐ کی ادا پسند آ گئی ہے،میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی حشر کے دن بھی مجھے کہے کہ سبقت محمدمصطفےؐ کی نعت سنادے‘‘۔
جنہاں نال عرشیاں دی ونج سک لہا یو
میڈے گھروی او خوش قدم بختاں والا
تیڈے حسن احسن دی تمہید لکھدیں
ھے حیران لوح و قلم بختاں والا
(نور محمد سائل)
ترجمہ:’’آپؐ نے جن مبارک قدموں کے ساتھ عرش والوں کی خواہش دیدار پوری کی ہے ،کسی دن میرے گھر کو بھی ان خوش قدموں سے فیض یاب کر دیں، اے بخت ور !تیرے حسنِ احسن کی توصیف لکھ کریہ لوح و قلم اپنی خوش بختی پر حیران اور نازاں ہیں‘‘۔
سوہنڑے نبیؐ دی شان خدا داکمال ھے
کیءں کوں ھے دعویٰ نال دا کیندی مجال ھے
عظمت تیڈی ھے ڈوہاں جہاناں دے واسطے
اِتھاں کوئی مثال نہ اُتھاں مثال ھے
(سلیم احسن)
ترجمہ:’’سرکار دو عالم ؐکی یہ اعلی شان کمالِ خدا وندی ہے،کوئی ایسے کمالات کا دعوی کر سکتا ہے نہ ہی کسی کواتنی مجال ،حضورنبی کریمؐ کی عظمت کی اِس جہان میں کو ئی مثال ہے اور نہ اُس جہان میں‘‘۔
زمین تے سوجھلا احسان اے حضورؐ دا ھے
تمام دہر تے سایہ اُنہاں دے نور دا ھے
(منیر فاطمی)
ترجمہ:’’اس زمین پریہ روشنی حضورؐ کا احسان ہے اورسارے زمانے پر انؐ کے نور کا سایہ ہے‘‘۔
بنڑے چوڈاں طبق سب والی ء کونین دے صدقے
تھئی تخلیقِ آدمؑ نانااے حسنینؓ دے صدقے
خدا وند پاک میکوں وی سلیقہ نعت گوئی دا
عطا کیتا رسولِ پاکؐ دی نعلین دے صدقے
(نذیر ڈھلا خیلوی)
ترجمہ:’’اللہ تعالی نے چودہ طبق والی کونین ؐ کے صدقے بنائے ہیں، حسنینؓ کے صدقے تخلیقِ آدم ہوئی ہے اورخداوند تعالی نے مجھے نعت گوئی کا سلیقہ رسول پاکؐ کی نعلین کے صدقے عطا کیا ہے‘‘۔
خطائی تیڈے نعتاں لکھے جھوم جھوم کے
اللہ ایندا کھولا ھے ادراک مدنیؐ
تیڈی جتی پاک دی ھے شان وکھری
ٹپ گئی ھے اے ست افلاک مدنیؐ
(گل خان خطائی)
ترجمہ:’’اے مدنی محبو ب ؐ!گل خان خطائی کو یہ شعور وادراک اللہ تعالی نے عطا کیا ہے کہ وہ جھوم جھوم کر آپؐ کی نعتیں لکھتا ہے،آپؐ کی نعلین پاک کواللہ تعالی نے کتنی اونچی شان دی کہ وہ سات افلاک سے بھی آگے پہنچ گئی ہے‘‘۔
رب سئیں ھے چیندا زلفیں دیاں قسماں
محبت دیاں ہوندن ایہو جیاں رسماں
تئیں وانگ رب کوں منا کوئی نیں سکدا
جتھاں پہنچا عربیؐ جا کوئی نیں سکدا
(جام ایم ڈی گانگا)
ترجمہ:’’ اللہ تعالی انؐ کی زلفوں کی قسمیں کھاتا ہے، یہ محبتوں کے رسم و رواج ہیں، آپؐ کی طرح اللہ تعالی کو کوئی راضی نہیں کر سکتا،جس مقام پر آپؐ فائز ہیں وہاں کوئی اور نہیں پہنچ سکتا‘‘۔
پار ڈسیندا اے شہر مدینہ ، میں روواں اروار
نہ ہے ونجس نہ بیڑی کوئی ، دریا ڈسدن تار
میں مسکین نماناں عاجز ، رکھی ہم امید
ساوے روضے اُتے پہنچاں ، دم نکلم اوں وار
(امید ملتانی)
ترجمہ:’’مدینہ شہر دور دریا پار ہے اور میں اِس پار بیٹھا ہوں،نہ اس طرف جانے کے لیے کوئی کشتی دستیاب ہے اور نہ ہی کو ئی اور ذریعہ میسر ہے،میں مسکین اور عاجز اس امید پر زندہ ہوں کہ گنبدِ سبز دیکھوں اور وہیں مجھے موت آجائے‘‘۔
رب دے حبیب ؐ کیتیاں رب دو تیاریاں
فردوس وچوں آئیاں سئیں دو سواریاں
افلاک تے قدم شہء لولاکؐ جاں رکھا
سجھ،چن وجود گھول تے نذراں گذاریاں
(نور محمد کہتر)
ترجمہ:’’محبوبِ کریمؐ نے اپنے رب کی طرف جانے کی تیاری کی اور جنت سے آپؐ کے لیے سواری بھجوائی گئی،حضورؐ نے جب افلاک پر قدم رکھا تو چاند اور سورج نے اپنی روشنی نذرانے کے طور پر پیش کی‘‘۔
ذکر تیڈے یار دا مولا کریند رہ ونجاں
توں وی راضی میں وی اپنڑا ہاں ٹھریندا رہ ونجاں
لوک پڑھدن حج نمازاں میڈے ذمے لا ایہو
میں تیڈے محبوبؐ دے سہرے لکھیندا رہ ونجاں
(شاکر شجاع آبادی)
ترجمہ:’’اے اللہ مجھے توفیق دے کہ میں تیرے محبوب کی تعریف کرتا رہوں،یوں میرا دل بھی اطمینان حاصل کرے او رتوُ بھی مجھ سے راضی ہو ،لوگ حج کرتے اور نماز پڑھتے ہیں مگر مجھے صرف یہ ذمہ داری دے میں تیرے محبوبؐ کی سہرے ہی گاتا پھروں‘‘۔
سئیں میم کریمؐ دے ڈیکھنڑ کیتے ہر ویلے ماہی سکداں
اوندی یاد ہمیشہ دل وچ راہندی بیٹھا نغمے فراق دے لکھداں
اوندے جوڑ کے سہرے جگ وچ گانداں ونج جہیڑی جھوک تے ٹکداں
قسم خدا دی کر فیض آکھے میں تاں محض غلام سئیں لکھداں
(فیض سندھڑ)
ترجمہ:’’میں ہر وقت حضورؐ کی زیارت کے شوق میں رہتا ہوں،انؐ کی یاد میں فراق کے گیت لکھتا ہوں،میں جہاں بھی جاتا ہوں سرکاردوعالمؐ کے سہرے گاتا ہوں اور خدا گواہ ہے میں خود کو نبی کریمؐ کا غلام سمجھتا ہوں‘‘۔
تیڈی زلف دے پچھاویں والیل پینگھ جھوٹے
ول فجر دی تجلی ادبوں انکھیں چا نوٹے
جبریل در دا بانا تیڈے لاڈلے کھڈالے
سئیں سوہنڑے کملی والے
(عزیز شاہد)
ترجمہ۔’’آپؐ کی زلفوں کے سائے میں والیل جھولا جھولتی ہے اور صبح کی تجلی ادب سے آپؐ کے سامنے سر جھکا لیتی ہے،جبرئیل آپؐ کا دربان ہے، اے سرکار دوعالم ؐ!آپؐ کے کام انوکھے ہیں‘‘۔
چھوڑ میں اپنڑے گھر نوں جاواں
یار دے در تے ڈیرے لاواں
جاواں پھر نہ آواں،جاواں شہر مدینے
(خلیل احمد خلیل)
ترجمہ:’’میں اپنا گھر بار چھوڑ کر مدینے جاؤں اور محبوبؐ کے در پر ڈیرے ڈال لوں، میں جب مدینے جاؤں تو پھر واپس نہ آؤں‘‘۔
حبیبا ؐاچی شاناں والیا جے توں آیوں تے بہاراں آیاں
اللہ کوں توں پیا را لگدا ایں تہوں رب نے وی خوشیاں منایاں
ناصر پڑھ پڑھ تیڈیاں نعتاں بھل گیا سارے جگ دیاں باتاں
پیار تیڈا ھے پلے سوہنڑیا ،کی کرنیاں ہور کمایاں
(ناصر شاہ)
ترجمہ:’’اے اونچی شان والے محبوبؐ جب آپؐ آئے تو بہار بھی آ گئی،آپؐ اللہ کو بہت محبوبؐ ہیں اس لیے رب تعالی نے آپؐ کی آمد پر خوشیاں منائی ہیں،یہ ناصردنیا جہان کی باتیں بھلا کر صرف آپؐ کی نعتیں پڑھتا ہے،آپؐ کی محبت اس کے پاس ہے یہی اس کی کمائی ہے ،اسے اور کچھ نہیں چاہیے‘‘۔
بیسویں صدی میں نعتیہ مجموعوں کے ساتھ ساتھ دیگر شعری تصانیف میں بھی نعت کا رنگ شامل رہا ہے اور عہد بہ عہد مختلف نئی اصناف بھی سرائیکی شاعری کا حصہ بنتی رہی ہیں۔اس صدی کے پہلے نصف دور میں صرف فقیر بخت کے’’ختم الرسلؐ دی شان‘‘کے نام سے چودہ مولود شائع ہوئے ، مدنی سئیں سلطان(امید ملتانی)،گلشنِ سرکارؐ(اسلم میتلا)، پھنوار،سوچاں سکھ دیاں(رمضان طالب ) رحمت دی ڈات(فقیر بخت)،خوشبو(شائق بزدار)،کونین دا والی،نعت میڈی کائنات(شباب ڈیروی)سہرے حضورؐدے،محبوب رسالت،عرب دا چن،فیضِ مصطفے،محسنِ کائنات،محمدی چمن،مدینے دے موتی،نوری گلشن(فیض سندھڑ)،ثنائے مصطفے ،سرکار دی رحمت،گلشن احسان،گلشن عقیدت،گلشن صابری،گلشن نعت(منظور احمد ناظم)،سرائیکی نعتاں،عظمت رسولؐ،محبت رسولؐ،نوری بارش،نوری سہرے(انتخاب حاجی بشیراحمد۔مغفورسعیدی)،مدینے ہواں ہا ، نوری نعتاں(مرتب۔ دل نور پوری ) ، نعت مصطفےؐ(آغا اقبال حسین)،دیوان کمتر(خان محمد کمتر ) ،خالق دا مانڑ محمد( احمد حسن پرسوز بخاری ) ، محمدی ڈوھڑے( فیض عباسی،گلشن رسولؐ(تاج محمد تاج)،مدنی دے سہرے( ماسٹر خادم حسین ) ، سوہنڑے دے سہرے(خلیل احمد خلیل فریدی)،محمدی گلشن(محمد منشا نادر لاشاری)،ڈھولا پاک محمد (غوث بخش منصف)،عقیدت دے پھل( ممتاز احمد زاہد)عقیدت دیاں ہنجوں( نور الحسن لشاری) اور حافظ رسول بخش حافظ کے انیس کتابچوں سمیت متعدد نعتیہ کتب بیسویں صدی میں منظر عام پر آئیں۔اس صدی کے آخری نصف میں ایم بی اشرف کی ایک طویل نعتیہ نظم ’’کونین دا سنڑپ‘‘منظر عام پر آئی جو اہمیت کی حامل کتاب ہے،اس مجموعہ میں عقیدت و محبت اور شاعرانہ کمالات قابل داد ہیں:
آیاں استقبال دے کیتے حوراں لکھ ہزاراں
کل انبیاؑ تے ملک فلک توں لتھے بنھ قطاراں
خوش تھی مدنیؐ دے جمنڑے تے حوراں گاونڑ واراں
ڈیونڑ کانڑ مبارک بادی آیاں مار اُڈاراں
جھومیا عرش معلی سنڑ تے خوشیاں دیاں چمکاراں
کل کینات کوں ازلاں توں ہن جیندیاں واٹ نہاراں
او آیا تاں اجڑی دھرتی تھی گئی گل گلزاراں
ترجمہ۔:’آپؐ جب دنیا میں تشریف لائے تو لاکھوں حوروں نے استقبال کیا،تمام انبیا علیم السلام بھی آئے اور فرشتے قطار باندھے حاضر ہوئے، حوروں نے خوشی سے اڑانیں بھریں اور نغمے گائے، عرش معلی خوشی سے جھوم اٹھا،ساری کائنات ازل سے جنؐ کی منتظر تھی جب وہ تشریف لائے تو ویرانے گلزار بن کر مہک اٹھے ‘‘۔ اسی طرح عبداللہ یزدانی کی ایک نعت بھی بہت مقبول ہوئی اور اپنی تخلیق کے بعد سے اب تک غالبا بیس سالوں سے ہر محفل نعت میں پڑھی جاتی رہی ہے۔
جڈاں یاد تیڈی دا چن چڑھداے پلکاں تے ستارے بل ویندن
تیڈے ناں دا ورد کرینداں تاں میڈے سارے ڈکھڑے ٹل ویندن
کتھ عرشِ بریں کتھ فرشِ زمیں کتھ قابَ قوسین او ادنیٰ
میڈا پاک نبیؐ اُتھ پہنچا ھے جتھاں پر جبریل دے جل ویندن
سب جھولیاں بھر بھر ٹُر ویندن اتھاں پتھر وی بنڑ دُر ویندن
جہیڑے آندن ایں دروازے تے کون آدھے خالی ول ویندن
ہنڑ بھیج مدینے توں مولاؐ کوئی بدلی آپنڑے ساونڑ دی
میکوں بہہ بہہ تتیاں دھپاں تے ایویں روز پچھاویں ڈھل ویندن
میڈے لکھ سلام درود ہون اوں پاک نبیؐ تے یزدانی
جیندو گِھن سوغات دروداں دی جِن،اِنس،مَلک،مرسل ویندن
ترجمہ:’’جب آپؐ کی یاد کا چاند چمکتا ہے تو میری پلکوں پر ستارے روشن ہو جاتے ہیں،میں آپؐ کے نام کا ورد کرتا ہوں تو میرے دکھ درد ختم ہو جاتے ہیں۔ عرش بریں، فرش زمیں کہاں اور کہاں ’’قاب قوسین او ادنی ‘‘کا مقام،میرا پاک نبیؐ وہاں پہنچ گیا ہے جہاں جبرئیل بھی نہیں جا سکتا۔ میرے کریم نبیؐ کے در پر آنے والے کبھی خالی نہیں لوٹتے ،یہاں آکر سب لوگ جھولیاں بھر بھر لوٹتے ہیں اور یہاں پہنچ کرپتھر بھی موتی بن جاتے ہیں۔ میں روزانہ یوں ہی صبح سے شام تک تپتے ہوئے دن گذارتا ہوں،مولاؐ! اب تومدینے کی طرف سے میرے لیے کوئی لطف و عطا کا بادل بھیج ۔یزدانی !میں بھی اس پاک نبیؐ کی بارگاہ میں سلام گزار ہوں جن کے پاس انبیا علیہم ا لسلام ،فرشتے،جنات اورانسان درودوں کی سوغات لے کے جاتے ہیں‘‘۔
اکیسویں صدی میں بھی جدید تر نعت کا سفر تسلسل کے ساتھ جاری ہے اورسرائیکی نعت کے حوالے سے بہت زرخیز ثابت ہورہی ہے ،اس کی پہلی دہائی میں ہی درجنوں نعتیہ کتب منظرِ عام پر آچکی ہیں اور یہ سلسلہ دوسری دہائی میں بھی جاری ہے ۔اس عرصہ میں شائع ہونے والی کتب میں ڈیرہ اسماعیل خان کے ڈاکٹر سلطان احمد مستجیرکی کتاب’’مسافر غارِ ثور دا‘‘ کو اس حوالے سے اہمیت حاصل ہے کہ اس میں سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کونظمیہ صورت میں قلم بند کیا گیا ہے ،میری معلومات کے مطابق یہ پہلی سرائیکی منظوم سیرتِ رسولؐ ہے ،قریبا800 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو 2006 کا قومی سیرت ایوارڈ بھی دیا گیا۔
چند اشعار ملاحظہ ہوں:
جھا ہر دی اتھاں ہکا ہئی
نہ اُچا کوئی نہ جِھکا ہئی
جئیں حق دا کلمہ سِکھا ہئی
او بنڑ ساراں دا یار آیا
بھانویں عربی یا کوئی عجمی ہئی
ہئی حبشی یا ہئی رومی بھئی
کالے گورے نال ہس دلڑی لئی
سوہنڑا ساراں دا دلدار آیا
ترجمہ:’’حضورؐ کی محفل میں سب برابر تھے، حق کا کلمہ پڑھنے والوں میں امیر ، غریب کا فرق نہیں تھا ،کوئی عربی ہو یا عجمی ،حبشی ہو یا رومی ،کوئی کالا ہو یا گورا، آپ ؐ نے سب سے محبت کی،آپؐ سب کے دوست اور دل دار بن کر آئے‘‘۔
گزشتہ بار ہ سالوں میں سامنے آنے والے نعتیہ کلام سے مزیدکچھ اشعار بھی ملاحظہ کیجیے تاکہ نئی نعت کے مجموعی مزاج سے آگاہی ہو سکے۔
محمدؐ دے در دے بھکاری اساں
ایندے ناں تو جند جان واری اساں
ایندے در توں پندوں ایندے در توں گھندوں
ایویں عمراں ساری گزاری اساں
فیاض حسین قاصر فریدی
ترجمہ:’’ہم محمد عربیؐ کے در کے منگتے ہیں،انؐ کے نام پر جان قربان کرتے ہیں، ہم نے ساری زندگی انؐ کے سوا کسی اور در کی خیرات قبول نہیں کی‘‘۔
جے سجھ ولاوے تاں اوندی مرضی جے چن لہاوے تاں اوندی مرضی
پڑھا کے کلمہ جے سنگریزاں کوں او سنڑاوے تاں اوندی مرضی
(خاور نقوی)
ترجمہ:’’ سورج اور چاند کو واپس بلا نا حضورؐ کی رضا پر منحصر ہے،اگر پتھروں کو کلمہ پڑھا دیں تو یہ بھی حضورؐ کی اپنی پسنداور اپنی رضا ہے‘‘۔
لجپال کریم محمدؐ سئیں ایہو کرم چا کر پچھے موت آوے
میڈیاں انکھیاں رج رج ڈیکھ گھنن تیڈا اعلیٰ در پچھے موت آوے
تیڈے فیض توں دل سیراب تھیوے رہے کئی نہ ڈر پچھے موت آے
دل نور نزاع دے وقت ڈیکھے تیڈا رخ انور پچھے موت آوے
(دل نور پوری)
ترجمہ:’’اے لجپال محمد کریمؐ! دل نور پر اتنا کرم کر دیں کہ جب تک یہ جی بھر کرمدینہ نہ دیکھ لے ،تیری رحمت سے اپنے دل کو سیراب نہ کر لے،خود کو ہر خوف سے آزادی نہ دلا لے اور نزع کے عالم میں آپؐ کا چہرہ ء انورنہ دیکھ لے تب تک اسے موت نہ آئے‘‘۔
عالم اوں ؐ توں ودھ نہ کوئی
عامل اوں توں ودھ نہ کوئی
جیکوں العلیم دی طرفوں
ہر ہک علم سکھایا گیا
ہر نکتہ سمجھایا گیا
کون پڑھیندا کون سکھیندا
اے جئیں علم تے ای جئیں نکتے
تہوں تاں دنیا دا کوئی مکتب
م مٹھلؐ دے قابل کونیں
(حمید الفت ملغانی)
ترجمہ:’’حضورؐ سے بڑھ کر کوئی عالم ہے اور نہ عامل،حضورؐ کو العلیم نے ہر ایک علم اور فن سکھا دیا ہے ،ہر نکتہ سمجھا دیا ہے،ایسے علم اور ایسے نکات کون پڑھا سکتا ہے، اس لیے دنیا کا کو ئی مکتب حضورؐ کے لائق نہیں‘‘۔
میں پلکاں نال چماں خاکِ اقدس تیڈی گلیاں دی
میڈا ناں وی جیکر شامل کرو آقاؐ سعادت وچ
(حفیظ گیلانی)
ترجمہ:’’ اے آقاؐ!مجھے اگر مدینہ حاضری کا شرف مل جائے تو میں آپؐ کے شہر کی گلیوں میں پلکوں سے جاروب کشی کروں‘‘۔
کتھاں عرش دا واسی کتھاں میڈا گھر
اگلی دنیا چوں تھی آواں ، متاں
(اقبال حسین)
ترجمہ:’’کہاں عرش کا باسی اور کہاں میرا گھر،میں اگلے جہان سے ہو آؤں شاید وہاں رسول کریم ؐ کی زیارت کی سعادت پا سکوں‘‘۔
اے بدرالدجاؐ ، شاہِ اممؐ ، والیء ثقلینؐ
اے کوثر وتسنیم تیڈے نیر دا مُل نیں
مدنی! تیڈے صفدر کوں بس اتنا پتہ اے
کائنات تیڈے چولے دی ہک لیردا مُل نیں
(صفدر کربلائی)
ترجمہ:’’اے بدرالدجاؐ،اے شاہِ اممؐ،اے ثقلین کے والی،یہ کو ثرو تسنیم آپ ؐ کے ایک آنسو کی قیمت نہیں ہو سکتے،اے مدینے والے محبوبؐ! آپؐ کے اس غلام صفدر کوبس اتنا معلوم ہے کہ یہ کائنات آپؐ کی قبا کے ایک ٹکڑے کی بھی قیمت نہیں ہو سکتی‘‘۔
رب دا ڈھول جو آیا ھے کائنات وس پئی اے
نوری قدم ٹکایا ھے کائنات وس پئی اے
جڈاں تئیں نور ہا پردے وچ کائنات اجڑی ہئی
چہرہ والشمس ڈکھایا ھے کائنات وس پئی اے
توقیر مہروی
ترجمہ:’’رب کے محبوبؐ جب سے کائنات میں آئے ہیں یہ ویرانہ آباد ہو گیا ہے،جب تک آپؐ کا نور پردے میں تھا،یہ دنیا اجڑی پڑی تھی مگر جب آپؐ نے چہرہ والشمس دکھا یا ہے اور نوری قدم زمین پر رکھے ہیں،یہ کائنات روشن ہو گئی ہے‘‘۔
جہان سارا تھیا منور جو اج سراجِ منیرؐ آگئے
فلک تے حور و مَلک پئے گاون حبیبِ ربِ قدیرؐ آگئے
زمین منور زماں منور مکاں مکاں لامکاں منور
فلک توں انوارِ حق پئے وسدن حضورؐ روشن ضمیر آگئے
(امان اللہ کاظم)
ترجمہ۔:’سراجِ منیرؐ کے آنے سے سارا جہان منور ہوگیا،آسمان پر حوریں اور فرشتے گیت گا رہے ہیں کہ ربِ قدیر کا حبیبؐ آگیا ہے، حضورؐ روشن ضمیر کی آمد سے زمین بھی روشن ہے ، زمان بھی،مکان میں بھی چراغاں ہے اور لامکاں پر بھی اورفلک سے انوارِحق کی بارش ہو رہی ہے ‘‘۔
میکوں آنپڑے در تے سڈا میڈا مولاؐ
ایہا آس دل دی پجا میڈا مولاؐ
(ابرار عقیل)
ترجمہ:’’ مولاؐ! میرے دل کی یہ ایک تمنا پوری کر دیں اور مجھے اپنے در پر بلا لیں‘‘۔
ڈکھڑے ساڈے ٹال محمدؐ
وسدی راہوے تیڈی آل محمدؐ
(کاظم شاہ نازک)
ترجمہ:’’اے محمد!ؐ اللہ تعالی آپؐ کی آل کو آباد رکھے ہمیں دکھوں سے نجات دلا دیں‘‘۔
میں ہاں سوالی تہاڈے در دا تساں نبیاں دے بادشاہ ہو
خیال رکھدے ہو ہر بشردا تساں نبیاں دے بادشاہ ہو
ہے ذات سا ئیاں دی لگدی پیاری،درود پڑھداں میں رات ساری
تے اکھ تے ہنج دا ہے تارا تردا تساں نبیاں دے بادشاہ ہو
(مخمور قلندری)
ترجمہ:’’اے انبیا کے بادشاہ ؐ!میں آپؐ کے در کا سوالی ہوں،اے انبیا کے بادشاہ ؐ!آپؐ ہر ایک بشر کا خیال رکھتے ہیں،اے انبیا کے بادشاہ ؐ!،آپؐ کی ذات گرامی ہمیں پیاری لگتی ہے ، اے انبیا کے بادشاہ ؐ!میں ساری رات آپؐ پر درود پڑھتا ہوں تومیری آنکھوں میں ستارے روشن ہو جاتے ہیں‘‘۔
اے ڈکھ جڈاں وی میکوں ستیند ن تاں وجد دے وچ درود پڑھداں
تے نعت سئیں دی کوں گنگنانداں جڈاں زمانہ ملال ڈینداے
ایہا تڑپ ہے جو میں سنڑاواں ہا حال درداں دا درتے ونج کے
او خالی در آئے کوں نیءں مڑیندا تے درد عمراں دے ٹال ڈینداے
(ثاقب دامانی)
ترجمہ:’’یہ دکھ جب مجھے ستاتے ہیں میں درود وسلام پڑھنا شروع کر دیتا ہوں،جب دنیا والے مجھے غم دیتے ہیں میں نعتیں گنگنانے لگتا ہوں،میرے دل کی ایک ہی تمنا ہے کہ میں آپؐ کے در پر جا کر اپنے دکھ بیان کروں کیونکہ آپؐ اپنے در پر آنے والے کسی سوالی کو خالی نہیں لوٹاتے‘‘۔
ہاں خادم کملیؐ والے دا کئیں خان نواب دا نوکر ناں
میں سیرت دا پروانہ ہاں کئیں عام شباب دا نوکر ناں
کوئی غلط تعبیر منیندا ناں کئیں کوڑے خاب دا نوکر ناں
میں نوکر مفطر سچیاں دا کئیں نیت خراب دا نوکر ناں
(عابد علی مفطر)
ترجمہ:’’میں کملی والے آقاؐ کا غلام ہوں کسی خان اور نواب کا نہیں،میں سیرتِ مصطفےؐ کا دیوانہ ہوں کسی عام شباب کا نہیں،میں کسی جھوٹے خواب کو تسلیم کرتا ہوں اور نہ ہی ایسی کسی تعبیر کو،اے مفطر!میں اعلی اخلاق کے حامل لوگوں کا غلام ہوں کسی بری سوچ والے کا نہیں‘‘۔
کملی والےؐ دا ھے اے کرم نعتاں لکھ لکھ سنڑیندا وداں
ناں محمدؐ دی تسبیح پکا چُم انکھیاں تے لیندا وداں
(یوسف مضروب)
ترجمہ:’’ مجھ پر کملی والے آقاؐ کا کرم ہے کہ میں نعتیں لکھتا اور سناتا ہوں اور نام پاک محمدؐ کی تسبیح کرتا اور اسے چوم چوم آنکھوں سے لگاتا ہوں‘‘۔
چند دیگر اہم کتابوں میں سک عربی دی(جام ایم ڈی گانگا)،نورگر(سفیر لاشاری)،نور دا سوجھلا(محمد صدیق نازک)،سوہنڑا ساوا روضہ(بشیر احمددیوانہ)،سک مدینے دی(ناظم بخاری ) ، سوجھل سہرے(محمد رمضان طالب)،کلامِ کہتر(نورمحمد کہتر)،م مقدس،جلوے حضورؐ دے،تانگاں ڈھول دیاں،میلادِ مصطفےؐ( فیض محمد سندھڑ)،تھیواں نبی دے صدقے،سئیں دے سہرے(حافظ نذیر احمد)،کمالِ قدرت( شاکر شجاع آبادی،دل نور پوری)،نور دے نظارے،نوری نعتاں،ڈوجگ دا سلطان(دل نور پوری)،کونین دا گوٹھ(محمد نواز نیازی)،ثنا تھی ونجے( مصطفے عزیز)،سہرے پاک نبی دے( حافظ بشیر مغفور)،سلسلے سلونی دے(عزیزشاہد)،مدنی دے سہرے( گل شاد قادری)،تن روشنی من روشنی( سرور قریشی)،حضورؐ دا شان،رب خش تھینداے( ظفر مسکین)،م دے اُولے(حمید الفت ملغانی)،مٹھے مدنیؐ دیاں نعتاں،پاک نبیؐ دیاں نعتاں(حافظ رسول بخش)، کلام کہتر(نورمحمد کہتر)،ماکھی توں مٹھا مدینہ،صفتاں لجپال دیاں( عارف شاہ عارف)،رحمت دی چھاں(جمشید کلا نچوی) میڈے آقاؐ کملی والے(پروین اختر پروین)اورنت جان بلب،نت تانگ طلب(فیاض حسین قاصر فریدی) شامل ہیں۔
سرائیکی شعراء جس طرح سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے اپنی محبت کے والہانہ اظہار اورحضورؐکے ذکرِ جمیل سے سرائیکی نعت کوثروت مند کرتے چلے جاتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ عقیدتوں اور سعادتوں کا یہ مبارک سفر ابدالآباد تک اسی آب و تاب کے ساتھ جاری رہے گا۔آخر میں یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ اس مضمون میں کئی اہم نام شامل نہیں ہو سکے ہوں گے ،جس کا سبب وسائل کی کمی کے باعث میری معذوری ہے نہ کہ کو ئی پسند نہ پسند، میں نے صرف دستیاب مواد سے ہی استفادہ کیا ہے جس کی وجہ سے سرائیکی نعتیہ ادب کا مکمل احاطہ نہیں ہو سکا ہے ۔
کتابیات[ترمیم]
۱۔سرائیکی ادب۔ریت تے روایت۔ڈاکٹر طاہر تونسوی
۲۔سرائیکی ادب دا ارتقا۔ڈاکٹر نصراللہ خان ناصر
۳۔سرائیکی زبان و ادب کی مختصر تاریخ۔سجاد حیدر پرویز
۴۔نور نامہ حضرت ملاں۔مرتب۔دلشاد کلانچوی
۵۔ابیات باہوؒ ۔مرتب سلطان الطاف علی
۶۔منتخب کلام سچل سرمستؒ ۔مرتب اسلم رسول پوری
۷۔معراج نامہ حافظ محمد یار۔مرتب۔دلشاد کلانچوی
۸۔مولود نبی مختارؐ۔نوبہار سیری
۹۔دیوان خواجہ غلام فریدؒ ۔مترجم وشارح۔مولانا نور احمد فریدی
۱۰۔مجموعہ کلام مولوی نورالدین مسکین
۱۱۔پنجاب میں اردو۔حافظ محمود شیرانی
۱۲۔سرائیکی زبان کی مزید لسانی تحقیقاں
۱۳۔فن نعت کی نئی جہات۔محمد حیات چغتائی
۱۴۔آتشِ عشق ۔کلام امیر حیدر میرن،مرتب حاجی شمس الدین
۱۵۔خادم دے ڈھولے۔ناشر مولوی فیض بخش
۱۶۔دیوان غلام فقیر۔قلمی نسخہ ملکیت حاجی رشید احمد
۱۷۔وحدت افکار۔علاقائی شاعری کا انتخاب۔ وفاقی وزارت اطلاعات