دُنیا میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کی تباہ کاریاں جاری ہیں وہیں دُوسری جانب عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتیں 30 فیصد کم ہو گئیںجس کے باعث دُنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹس کریش کر گئیںہیں۔ سعودی عرب کی جانب سے پیداوار پر رُوس کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے تیل کی قیمت میں کمی کا اعلان کیا گیا ہے۔ دُنیا بھر میں تیل کی قیمتوں میں ایک ہی روز میں 20 فیصد سے زائد کی کمی جبکہ دو روز میں30 فیصد کے لگ بھگ دیکھنے میں آئی جو کہ ایک ریکارڈ قرار دیا جا رہا ہے۔تیل کی قیمتوںمیں کمی کی وجہ سے دُنیا بھر کے بازار حصص بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔2008 کے مالی بحران کے بعدشیئرز کی قیمتوں میں اتنی بڑی کمی واقع ہو ئی ہے۔گذشتہ سوموار کو نیویارک اسٹاکس ایکسچینج میں کاروبار شروع ہوتے ہی کچھ منٹوںمیں شیئرز کی قیمت سات فیصد سے گر گئی اور صرف پندرہ منٹ بعد ٹریڈنگ کو روک دیا گیا۔ کئی ماہرین نے بازار حصص میں ایک گراوٹ کو بلیک منڈے (سیاہ پیر) قرار دیا۔
دُنیا بھر کی اسٹاکس مارکیٹوں کی طرح پاکستان میں بھی پیر کے روز شدید مندی دیکھنے میں آئی۔ایشیاء کی تمام مارکیٹس بھی گر گئیں۔تجزیہ کارمائیکل ہیوسن کے مطابق سعودی فیصلہ روس کو بات چیت پر مجبور کرسکتا ہے۔جس نے کرونا وائرس کی وجہ سے گرتی طلب کے پیش نظراوپیک کی خام تیل کی پیداوار میں کمی کی تجویز مسترد کر دی تھی۔تجزیہ کار نیل ولسن نے کہا ہے کہ اس دن کو بلیک منڈے کے طور پر یاد رکھاجائے گا۔تجزیہ کار جیفرے ہیلے کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ارادے روس کو سزاء دینے کے لگتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تیل کی قیمتیں آئندہ چند ما ہ تک ایسے ہی رہنے کی توقع ہے کیونکہ کرونا وائرس نے معاشی نمو کی شرح روک دی ہے اور سعودی عرب نے اپنے پمپ کھول دیئے ہیں اور خام تیل پر بڑا ڈسکاونٹ دے رہا ہے۔تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے خام تیل کی قیمتوں میں کمی سے عالمی انرجی مارکیٹ متاثر ہوئی ہے ، روس سمیت دیگر حریفوں کو ایک طرف کرنے کے ایسی خطر ناک چال ہے جو ولی عہد شہزادہ محمد بن سلطان کے لیے ایک امتحان ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ سعودی بادشاہت کے وجود کے لیے خطرہ بن سکتی ہے کیونکہ یہ ایسا وقت ہے جب شاہ سلیمان کا بھائی اور بھتیجا بغاوت کے الزام میں گرفتا رہیں۔
عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں اگر30 سے 36 ڈالر فی بیرل کے درمیان رہتیں ہیں تو اس کے پاکستان کی معیشت پر بہت اچھے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ملک کو درآمدات کے بل میں پانچ ارب ڈالر کی کمی سے ساڑے سات سو ارب روپے کا فائد ہ ہو گا جس سے پٹرول ، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں حیرت انگیز کمی لائی جا سکتی ہے۔یوں کہہ لیں کے موجودہ حکومت کے لیے یہ رحمت خداوندی ہے کہ جوپاکستان آئے روز بڑھتی مہنگائی اور آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے قرضوں کے بوجھ تلے جکڑا ہوا تھا اسے تازہ ہوا کا جھونکا ملا ہے۔یہ صورت الحال ایسی ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ بھی ممکن ہے کہ اگلے مہینے سے ہی تجارتی خسارہ سرپلس ہو جائے اور ہمارا کرنٹ اکائونٹ سرپلس میں چلا جائے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آجائے گی جس سے روپے کی قدر کو استحکام ملے گا۔حکومت اگرخام تیل کی قیمتوں میںکمی کا مکمل فائدہ عوام کو منتقل کر دے تو پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوںمیں بیس سے پچیس روپے فی لیڑ کمی لائی جا سکتی ہے اور اگر حکومت آدھا بھی کردے اور آدھا اپنے پاس رکھے توعوام کی اور قومی خزانے دونوں کی قسمت بدل سکتی ہے۔ایل این جی کے نرخ بھی پٹرولیم کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں اس لیے ایل این جی کی قیمتوںمیںبھی کمی لائی جاسکتی ہے۔ کوئلے کی قیمت عالمی مارکیٹ میں سولہ فیصد کم ہو گئی ہے جس سے سیمنٹ کی پیدواری لاگت میںکمی آئے گی۔حکومت کو گیس اور بجلی کی سبسڈی پر چھٹکارہ مل سکتا ہے اوربجلی اور گیس کی قیمتیں باآسانی دس سے پندرہ فیصد کم ہو سکتی ہیں۔
حکومتی وزراء اشارے دے رہے ہیں کہ وہ عوامی دبائو پر اگلے ماہ سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیں حیر ت انگیز کمی کرنے جا رہے ہیں جس سے مہنگائی کا طوفان نہ صرف تھم جائے گا بلکہ اسے ریسورس گئیر بھی لگے گا۔ اگلے ما ہ کے آخر میں رمضان المبارک بھی شروع ہو رہا ہے جس کی آمد سے قبل ہی ہمارے ذخیرہ اندوزتاجر مافیاز قیمتوںمیںبلاجواز اضافہ کر دیتے ہیں۔ملکی معیشت کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیں حکومت کی نمایاں کمی سے مہنگائی کا جن بوتل میں بند کرنے میںمدد ملے گی اور شرح سود میںکمی واقع ہو سکے گی۔حکومت کو چاہیے کی اب وقت ہے کہ وہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی سے فائدہ اُٹھانے کے لیے ایک جامع حکمت عملی تشکیل دے کہ وہ کیسے اس عالمی تیل بحران سے زیادہ سے زیادہ فائد ہ اُٹھا سکتی ہے جس سے اس کی آمدن میںزیادہ سے زیادہ اضافہ ہو اور گردشی قرضوں میں نمایاں کمی لائی جاسکے کیونکہ گردشی قرضوں میںکمی سے مثبت تجارت کو فروغ ملتا ہے۔یہی نہیںبلکہ آمدہ گرمیوںمیں تیل سے چلنے والے بجلی گھروں کو فل کیپسٹی پر چلا کر گرمیوںمیں لوڈ شیڈنگ پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کو نئے نوٹ چھاپنے کی ضرورت نہیں ہوگی جس سے افراطِ زرمیں کمی واقع ہو گی۔غرضیکہ حکومت کا عوام کو ریلیف سے باہمی اعتماد بحال ہو گا اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا۔