صوبے کی تحریک اس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ۔سرائیکی دھرتی پر رہنے والے نوجوانوں کے پاس صرف 2 ہی راستے ہیں ،ایک یہ کہ جدوجہد نہ کرکے اجتماہی موت میں مر جاہیں یا پھر غلامی کے خلاف جدوجہد کرکے اپنی قوم کو تخت لاہور کی غلامی بچائیں اسکے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ ایک با ضمیر انسان کبھی غلامی کو قبول نہیں کرتا اور اسی طرح ایک با شعور قوم کبھی غلامی کو قبول نہیں کرسکتی۔ اگر ہم حالیہ سرائیکی صوبے کی تحریک پر نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ اس تحریک سے سرائیکی قوم نے بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور ان کامیابیوں کے ساتھ ساتھ کچھ کمزوریاں بھی نمایاں ہیں،ان کمزوریوں کو ختم کرنا یا دور کرنا موجودہ حالات کی اہم ضرورت میں شامل ہیں ۔اگر سرائیکی قوم پرست جماعتیں ان کمزوریوں کے خلاف کمر بستہ نہیں ہو گی تویہ کمزوریاں آنے والے وقتوں میں تحریک کو نقصان پہنچاسکتی ہیں ۔ تخت لاہور اور ریاست سرائیکستان صوبے کی تحریک کے خاتمے کیلئے طویل منصوبے پر عمل پیرا ہے ۔ وسیب کے نوجوانوں کو صوبے کی تحریک کو مرحلہ وار کامیابیوں سے گزارنے کیلئے قابض کے تحریک مخالف منصوبوں کو سمجھنا ہوگا ۔ موجودہ حالات میں سرائیکی تحریک اتحادو یکجہتی ، منظم سیاسی پارٹی، قومی سیاسی شعور اور بہترین حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اتحاد کے بغیر کوئی بھی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی دنیا کی جتنی بھی تحریکیں کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہیں، ان کامیابیوں میں اتحاد نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔سرائیکستان صوبے کی تحریک کو بھی اسی جذبہ اتحاد کی ضرورت ہے۔
اگر سرائیکی تحریک میں شامل سیاسی جماعتیں آپس میں متحد ہوکر سرائیکی قوم کو یکجا کرلینے میں کامیاب ہوگئی تو آنے والے وقتوں میں تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کراسکتی ہیں، حالات کا تقاضا یہی ہے کہ قوم کو متحد رکھا جائے کیونکہ آج قوم کو جن مشکلات و تکالیف اور بربریت کا سامنا ہے پہلے کبھی نہیں تھا اور مستقبل میں یہ مشکلات اور بھی بڑھ سکتی ہے۔پنجاب سرائیکی قوم کی طاقت کو زائل کرکے ان کو مختلف گروہوں اور قبائلوں میں تقسیم کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ یہ برطانیہ کی ایک پالیسی تھی جس پر آج تخت لاہور گامزن ہے اور اسی پالیسی نے سرائیکی قوم کوقبائلیت میں تقسیم کردیاہے جس سے قوم کی طاقت بھی منتشر ہو گئی ہے، اور اس پالیسی کو صرف اتحاد کی طاقت سے شکست دی جاسکتی ہے ۔آج ہمارے اندر حقیقی اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے دشمن اس کا فائدہ اٹھا کر ہمیں مزید تقسیم کر رہا ہے اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں کوئی ہماری بات توجہ سے سننے کو تیار نہیں ہیں اسکی سب سے بڑی وجہ ہماری باہمی انتشار اور اتحاد کا نہ ہونا ہے۔ ہماری قوم پرست پارٹیوں کویہ جان لینا چاہئے کہ منتشر اینٹیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، اگر وہ یکجا ہوجائیں تو ایک عمارت بنتی ہے بکھرے ہوئے موتی اکھٹے ہوں تو گلے کا ہار بن جاتا ہے۔
اگر تمام سرائیکی پارٹیاں اپنے اختلاف بھلا کر ایک ہوجائیں تو ہی ہم کامیاب ہوسکتے ہیں۔ سرائیکی صوبے کی تحریک ایک انقلابی تحریک ہے اور انقلابی تحریک کی کامیابی میں سیاسی پارٹیاں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں بغیر انقلابی پارٹیوں کے کوئی بھی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی کیونکہ انقلابی پارٹیاں لیڈر پیدا کرتی ہیں لیڈر انقلاب برپا کرتے ہیں۔ انقلابی پارٹیاں ہی منزل مقصود تک پہنچاتی ہے۔ ماضی میں جتنی تحریکیں کامیابی سے دوچار ہوئی ہیں، ان کی کامیابی کا سہرا پارٹیوں کوہی جاتا ہے ۔صوبے کی تحریک سے وابستہ سرگرم قوم پرست پارٹیوں کیلئے ضروری ہے کہ سرائیکی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرانے کیلئے اپنے اداروں کو مضبوط بنائیں بلکہ شخصیتوں پر توجہ نہ دیں کیونکہ اداروں کی مضبوطی ہی تحریک کو مضبوط کرسکتی ہے اور مضبوط ادارے ہی ہمیں منزل پر پہنچا سکتے ہیں۔ آزادی کی تحریکیں عوام کیلئے ہوتی ہے عوام کی شمولیت کے بغیر دنیا کی کوئی بھی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی ہے اور کامیابی اس وقت کامیابی کہلائے گی جب عوام شعور کی طاقت سے لیس ہو۔ جب تک عوام میں سیاسی شعور و زانت نہیں ہوگی کامیابی کوئی معنی نہیں رکھتی۔
جس قوم میں سیاسی شعور نہیں ہوگا اس قوم کا شمار دنیا کی پسماندہ ترین قوموں میں ہوتا ہے،۔ تمام سرائیکی قوم پرست تنظیموں اور پارٹیوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ وسوں وسیب میں وستی وستی جا کر لوگوں کو سرائیکی عوام کے حقوق اور صوبے کے بارے میں آگائی دلائیں۔آج بھی اگر ہم نے اتحاد نہیں کیا تو پنجاب ہماری طاقت کو کمزور کرکے ہمیں شکست دے سکتا ہے اور یہ شکست ہمارے وجود کے لئے خطرناک ہوگی ،اتحاد، کی اہمیت ، اورسیاسی شعور کے بغیر ہماری کامیابی ایک خیال اور ایک کہانی ہوگی حقیقت نہیں اور اس تصور کو حقیقت کا روپ ہم سب کو مل کر دینا ہوگا