بظاہرپختون تحفظ موومنٹ( پی ٹی ایم) فاٹا اور وزیرستان کے علاقے میں قائم ہونے والی ایک پشتون تنظیم ہے لیکن درحقیقت یہ افغان نژاد پاکستان مخالف پراکسی وار کا تسلسل اور اسی کا ایک نیا روپ ہے جس کا مقصد پاک فوج کے خلاف پراپیگنڈا، محاذ آرائی، پاکستان کے انتخابی اور معاشی نظام میں اعلانیہ اور ڈھکی چھپی مخالفت اور دراندازی ہے تاکہ کسی بھی طرح پاکستان میں بدنظمی اور ابتری پھیلائی جاسکے۔ پی ٹی ایم اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکورٹی(NDS) کے درمیان پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے حوالے سے گٹھ جوڑ ہمارے ریاستی ادارے پہلے ہی بے نقاب کر چکے ہیں۔ا س حوالے سے پی ٹی ایم کی قیادت کو بارہا متنبہ کیا جا چکا ہے کہ وہ افغانستان میںموجود بھارتی اور افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں کی پاکستان دشمن سرگرمیوں سے دور رہیں اور اپنی توانائیاں پاکستان کے استحکام اور عوام کے وسیع تر مفاد میں خرچ کریں لیکن اس کے باوجود پی ٹی ایم کا ایجنڈا ریاستی اداروں خصوصاً فوج کے خلاف زہر افشانی تک محدود ہے۔
زیادہ دن نہیں گزرے، چارسدہ میں خطاب کرتے ہوئے پی ٹی ایم کے رہنما علی وزیر نے غیر ملکی طاقت سے پاکستانی شہروں پر حملہ کرنے کی اپیل کی ۔جس پر حکومت اور ریاستی اداروں کی طرف سے سخت ردعمل دیا گیا۔وفاقی وزیر فواد چوہدری نے قومی اسمبلی کے سپیکر سے علی وزیر کے خلاف آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت کاروائی کا مطالبہ کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ غیر ملکی طاقت سے پاکستان کے شہروں کو تباہ کر نے کا مطالبہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ پاکستان سے وفادار نہیں ہیں۔ انہوں نے رکن قومی اسمبلی علی وزیر سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے بیان کی معافی مانگیں بصورت دیگر ان کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے۔اس سے پہلے وزیرستان میں پاک فوج کی چیک پوسٹ پر حملے میں رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر ملوث تھے جو مقامی لوگوں کو پاکستان اور پاک فوج کے خلاف بھڑکا رہے تھے اور آج کل پشاور ہائی کورٹ سے ضمانت پر ہیں۔
اتوار کومحسن داوڑ اور علی وزیر افغانستان کے صدر اشرف غنی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے کابل جانا چاہتے تھے مگر اتوار کی روز جب وہ اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچے تو وفاقی تحقیقاتی ادارے، ایف آئی اے نے انھیں باہر جانے سے یہ کہہ کر روک دیا کہ ان کا نام ان کے خلاف مختلف مقدمات کی وجہ سے بلیک لسٹ میں ہے۔تاہم اتوار کی شب وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے احتساب اور داخلہ امور مرزا شہزاد اکبر نے آگاہ کیا کہ دونوں اراکین اسمبلی کوو زیر اعظم کی ہدایت پر ’افغان صدر اشرف غنی کی تقریب حلف برداری میں شمولیت کے لیے کابل تک کا سفر کرنے کی صرف ایک مرتبہ‘ ملک سے باہر جانے کی وزارت داخلہ نے اجازت دی۔افغانستان جانے والوں میںارکان اسمبلی و سیاسی شخصیات افراسیاب خٹک، بشریٰ گوہر،محمود خان اچکزئی،غلام احمد بلور، اصغر خان اچکزئی،فرحت اللہ بابر، فیصل کریم کنڈی، پی ٹی ایم کے علی وزیر اور محسن داوڑ شامل تھے۔ افغانستان پہنچنے پر پی ٹی ایم رہنمائوں کانہ صرف پرتپاک استقبال کیا گیا بلکہ کابل کے ہونے والے میئر اشرف غنی (جنکی حکومت صرف کابل تک محدود ہے یوں وہ میئر ہی ہوئے)کی تقریب حلف برداری میں فول پروف سیکورٹی فراہم کی گئی۔ اشرف غنی کی تقریب حلف برادری کے دوران افغان انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس نے خو د کابل کے صدارتی محل” ارگ” میںجاری تقریب حلف برداری کے دوران صدارتی محل کے قریب جعلی راکٹ حملے کیے تاکہ اشرف غنی کو ہیرو ظاہر کیا جاسکے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ دھماکوں کے دوران اشرف غنی کچھ دیر کے لیے رُکے اور پھر دو دھماکوں کے بعد تقریر دوبارہ جاری رکھی اور حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے بلٹ پروف جیکٹ نہیں پہن رکھی بلکہ قمیض پہن رکھی ہے یہاں کھڑا رہوں گا میرا سینہ افغان عوام کے لیے حاضر ہے۔ یہ بھونڈی حرکت این ڈی ایس کی اشرف غنی کو بہادر اور افغان عوام کا ہمدرد ظاہر کرنے کی ایک چال تھی۔
مجھے ذاتی طور پر ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ پی ٹی ایم کے ارکان قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر اکثر دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان میںوہ محفوظ نہیں ہیں اور بمشکل پروٹوکول لیتے ہیں لیکن یہی ارکان جب کابل کی سرزمین پر اترتے ہیں تو فول پروف پروٹوکول لیے جاتے ہیں اور ہر وقت یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین پختونوں کے لیے محفوظ ہے۔ وہاں این ڈی ایس اور اے این اے ان پی ٹی ایم رہنمائو ں کو فول پروف سیکورٹی فراہم کرتی ہے جو بمشکل اپنے افغانوںکو سیکورٹی دے پائی ہو اور انہیں محفوظ کر پائی ہو۔دوسری اہم بات جو میںاپنے قارئین کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ افغانستان کی تاجک لیڈرشپ کا یہ الزام بھی کسی حد تک درست معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی ایم افغان صدراشرف غنی کی ایجنٹ خاص ہے اور پاکستان کو محسن داوڑ اور علی وزیر کو افغانستان نہیں بھیجنا چاہیے تھا۔اس کا مطلب ہے کہ افغانستان کی تاجک بیلٹ یہ جان چکی ہے کہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں پی ٹی ایم اشرف غنی کی مطلق العنانی اور نسلی اعتبار سے برتری کی اتحادی ہے اور اس کے ساتھ ملکر افغانستان میں مداخت کر رہی ہے اور اس سے پہلے یہ فاٹا بھی میں یہی کھیل کھیل چکی ہے۔
پی ٹی ایم کے ناپاک عزائم کا ادراک اس سے بھی ہوتا ہے کہ وہ پاک فوج پر دہشت گردوں کی طرف سے کی جانے والی کاروائیوں کو سراہتے ہیںاور اپنی سیاسی و اخلاقی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں۔ ابھی دو دن قبل ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے ٹانک میں فورسز کے آپریشن میں پاک فوج کے کرنل مجیب الرحمٰن شہید ہو گئے۔ محسن داوڑ اور علی وزیر بجائے اس کے کہ وہ پاکستان میں آباد مختلف قومیتوں میں باہمی اتحاد اور یگانگت کی بات کرتے ، ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے مشن پر فائز پاک فوج کی تعریف کرتے ، الٹا انہوں نے پاک فوج کے افسر کی شہادت پر خوشیوں کے شادیانے بجائے اور افغان صدر کی جانب کے سجائے گئے ڈرامے کی تعریفیں کرتے رہے ۔ ایک بات ہم سب کو سنجیدگی سے سوچنی ہو گی کہ جو جماعت اپنے ملک، عوام اور ریاستی اداروں کی وفادار نہیں اس کا ایجنڈا کیا ہے؟