ٹیلی کام انڈسٹری کی بادشاہت
تحریر: ملک مصطفیٰ چنڑ
کہتے ھیں کہ سنگت کسی کی بھی ہو اثر رکھتی ھے اگر آپ کسی نیک بندوں کیساتھ بیٹھیں تو یھقینا آپ پر بھی رنگ چڑھے گا جیسا کہ آپ سعودیہ عرب میں بادشاہت کو ھی دیکھ لیں ہمارے حکمرانوں کی سنگت ان کیساتھ رہی اور اب تک ھی اور ماشاء اللہ رنگ بھی خوب چڑھا ۔۔۔ پاکستان میں نام کی جمہوریت در حقیقت پہلے تجارت اور اب یہ تجارت گردی کے روپ میں سامنے آئی۔۔۔ ہمارے ووٹ سے منتخب ہونے والے ہمارے عزیز حکمرانوں نے روایات کو قائم رکھتے ہوئے پاکستان میں بھی بادشاہت کا خواب دیکھا جو تقریبان پورا ہونے ھی والا تھا کہ سب معاملات سب کے سامنے آ گئے اور کلی کھل گئے مگر جو لوگ مستفیض ہوئے وہ تو ابھی تک ایک ھی جملے پر قائم و دائم ہیں کہ میں نا مانوں۔۔۔ پوری دنیا میں پاکستان کے نام کو جس طرح بدنام کیا گیا اس کی مثال کہیں نہیں ملتی کوئی ایسا ملک نہیں جو ہمارے ملک کے موجودہ جمہوری نظام پر تھو تھو نا کرے۔ گزشتہ دنوں ایک سوشل میڈیا پر پوسٹ میں وزیر اعظم کی ایئر پورٹ پر جامہ تلاشی کپڑے اتروا کر لینا اس سے بڑھ کر شرم کی کیا بات پچتی ھے؟ جس ملک کے وزیر اعظم کو ننگا کر کے اس کی ایئر پورٹ پر تلاش کےبعد اسے ملک میں داخل ہونے دیا جائے تو وہ ملک و قوم کے لیے فخر نہیں ذلت کا باعث بنے گا۔ اس پر کوئی احمق ہی ہو گا جو فخر کرے گا ۔۔۔ بہرحال ۔۔۔ نوازا گیا ۔۔۔ اس دور میں تاجروں کو ۔۔۔ جو تاجر مستفیض ہوئے وہ اج بھی ان کے ساتھ وفاداری نبھا رہے ہیں اور “ووٹ کو احترام دو” کا نعرہ لگا رہے ہیں ۔۔۔ دوسری طرف وفاداری کی حد یہاں تک پھنچ چکی ہے کہ لوگوں نے فیکٹریاں بند کر دی ہیں احتجاجا” ادارے سے بہت سے ملازمین کو فارغ کر دیا گیا ہے۔ یعنی مصنوعی بے روزگاری۔۔۔۔ شاید ہی کوئی ادارہ بچا ہو گا جو ان کی دسترس سے بچا ہو ۔۔۔ وزارت بجلی کا ایک طرف دعوی کہ بجلی کے بحران سے نکل چکے ہیں دوسری طرف اب بھی سرائیکی خطے پر آباد شہروں کیساتھ جو ہوا سو ہوا بڑے شہروں میں کراچی معیشت میں ایک اہم وجود رکھتا ہے یہاں بھی مصنوعی بجلی کے بحران کی مشقیں جاری ہیں۔۔۔۔ واقعی ملک خسارے میں ہے ۔۔۔ چاہے وہ ریلوے ہو ۔۔۔ چاہے واٹر بورڈ ہو ۔۔۔ چاہئے پی آئی اے ہو ۔۔۔ اسٹیل مل ہو یا ہو ریڈیو اسٹیشن یا پی ٹی وی ہو ۔۔۔۔ سب نے عہد کر لیا ہے کہ ووٹ نہیں تو ہم سب نہیں ۔۔۔ ان سب معاملات سے ہر شخص ذی شعور ہے اور صبح سے شام تک ان معاملات کو دیکھتا اور سنتا آ رہا ہے ۔۔۔ جو ہو رہا ھے ہونے دو صبر کا دامن تھامے رکھو ۔۔۔ بیشک اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے جب لگے گی تب سکون ملے گا ۔۔۔ ان سب معاملات سے ھٹ کر ایک ایسی بادشاہت وجود میں آ چکی ہے جس کے شہری تو شہری اس کیساتھ چلنے والوں کو بھی نہیں بخشا جاتا ۔۔۔ وہ بادشاہت ہے ٹیلی کام انڈسٹری کی جدید ٹیکنالوجی کے دور میں اس انڈسٹری کا ساری انگلیاں کڑاھی میں اور سر گھی میں ہے پھر بھی دھائیاں دیتے پھیرتے ھیں ۔۔۔ ٹیلی کام انڈسٹری کی اس بادشاہت میں موبی لینک ، زونگ ، ٹیلی نار ، یو فون اور وارد ھیں ۔۔۔ جس طرح جمہوریت کے نام پر ایک ٹولہ قابض ھے اس طرح ٹیلی کام کی بھی اپنی بادشاہت ہے اور ان کی بھی گروپ بندی ہے ان کے پچھے ایسے کونسے عناصر ہیں اور انہیں کون لگام دے گا اس بارے نا ھی اب تک کوئی ایسی پالیسی موجود ہے اور نہ ہی کوئی ادارے اس بارے سنجیدگی سے سوچنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان اداروں نے لوٹ مار کا سلسلہ شروع کیا ۔۔۔ یعنی جس طرح لوگوں پر ٹیکس لگتے گئے لوگ دیتے رہے اس طرح پہلے لوگوں میں عادت پیدا کی گئی کہ بیلنس چیک کرو مفت ۔۔۔ مفت بیلنس چیک کرو ، جب عادت بن گئے تو بیلنس چیک کرنے پر 0.25 پیسے کاٹنا شروع ہو گئے ۔۔۔ اس کے بعد عوام کی عادت بنائی گئی کہ ۔۔۔ ایڈونس لے لیا کرو ۔۔۔ یعنی جیسے کسی کو اپنا مقروض کرنا ہو تو دنیا میں یہی کہا جاتا ہے یار تو میرا بھائی ہے پیسے ضرورت ہوں تے ادھار لے لیا کر ۔۔۔ اس طرح پہلے تو ایڈوانس کا عادی بنایا گیا جب لوگ ایڈوانس لینے لگے لوگوں کو کچھ سہولت محسوس ہونے لگی تو لگے ہاتھوں اس پر بھی چارجز مسلط کر دیئے گے اب اگر آپ ایڈوانس 15 روپے لیتے ھیں تو واپسی پر آپکو 19.99 پیسے دینے پڑتے ھیں کچھ کمپنیاں تو ایسی ھیں وہ ایڈوانس کی واپسی پر 5 وصول کرتی ہیں ۔۔۔ پہلے موبائل کا کارڈ لوڈ ہوتا تھا جس میں کچھ کمپنیاں جیسا کہ زونگ آیا اس نے ٹیکس کا ذمہ اپنے ذمے لیا اور جتنے کا لوگ کارڈ لیتے اتنے ہی پیسے اکاونٹ میں ٹرانسفر کر دیئے جاتے بہت سے لوگوں نے اپنی سم کا نیٹ ورک تبدیل کیا اور زونگ پر گئے اج وہاں بھی سو روپے کا کارڈ ڈلوائیں ۔۔۔توں کٹ کٹا کے ۔۔ اگر ایڈوانس لیا ہے تو لگ بھگ 69 اور اگر نہیں لیا تو 76 کے قریب ملتے ہیں باقی رقم ۔۔۔؟ پریشان مت ہو۔۔۔ ٹیلی کام سیکٹر کی بادشاہت کچھ اور قسم کے لوگوں پر ہے یہ جو عام عوام پر ظلم ہوتا ہے اس میں ٹیلی کام انڈسٹری کا قصور بالکل نہیں اس میں اسے شمار نا کیا جائے کیونکہ ۔۔۔ جو ٹیکس حکومت یہ سوچ کر ٹیلی کام انڈسٹری پر لگاتی ہے کہ وہ ٹیکس دے کما رہی ہے وہی ٹیکس ٹیلی کام انڈسٹری عوام پر بغیر کسی تبدیلی کے عوام پر مسلط کر دیتی ہے ۔۔۔ شروع میں تو کوئی مسئلا ہو کوئی بات ہو آپ ھیلپ لائن پر مفت کال کریں اور معاملے سمجھ لیں لیکن اب کال سینٹرز کوں بھی آؤٹ سورس کر دیا گئیا ہے ٹیلی کام انڈسٹری کپڑے جھاڑ کے لگزری گاڑیوں گھروں اور دفتروں میں عیش کر رہے ھے اور بادشاہت کی زندگی بھی کیا زندگی ہو گی جو ان کی زندگی ہے جب چاہیں آپ کے موبائل نمبربند کر دیئے جائیں ۔۔۔ جیسے بجلی کا میٹر آپ کا اتار کے کے الیکٹرک یا واپڈا والے لے جاتے ہیں اور میٹر لگوانے جائیں تے میٹر لگانے کے چارجز علیحدہ ، کیبل کے چارجز علیحدہ اور میٹر کے چارجز علیحدہ وصول کیے جاتے ہیں جو در حقیقت ملکیت شہری کی ہوتا ہے مگر یہاں پہلے کسی کو حق ملا ھے جو اب ملے گا ۔۔۔۔ جو حکومت کی طرف سے عوام کو ریلیف ملا ہے وہ صرف یہ ہے کہ وہ کھلے میدانوں میں صحراوں میں بے سرو سامان نکل جائیں اور گھومیں پھیریں ۔۔۔ اور زندگی مکمل کر کے اسی میدان میں دفن ہوتے جائیں ۔۔۔ اب بات چل ہی نکلی ہے ٹیلی کام بادشاہت کی تو جناب فکر نا کریں یہ بادشاہت عام شہریوں کے لیے نہیں یہ بادشاہت ٹیلی کام انڈسٹری کے ساتھ کام کرنے والے بغیر تنخواہ کے ملازمین پر ہے جو لوگ اپنی زندگیوں کا ہر دن اس انڈسٹری بغیر پیسوں کے نوکریاں کر رہے ہیں بدلے میں انہیں کچھ بروشر یا زیادہ خوش ہوں تو فلیکس بورڈ لگو کر دے دیئے جاتے ہیں۔۔۔ سالہاسال سے ان لوگوں پر حکومت کرنی والی انڈسٹری میں بیٹھے ان لوگوں کو تو اپنے عیش پورے کرنے کے لیے بھاری تنخواہوں کی ضرورت ہے ٹارگٹس تو لینے ہیں مگر وہ مزدور جو ان کے لے فی سبیل اللہ کام کر رہے ہیں وہ نا ہی انسان ہیں اور نا ھی ان کی اپنی کوئی زندگی نہیں اس قسم کا رویہ رکھا جا رہا ہے ۔۔۔ ایک تو لوگ بغیر تنخواہ کے ان کے لیے کام کریں ۔۔۔ اوپر دے دکان کے اخراجات بجلی کے بل کرایہ ادا کریں ۔۔۔ اس کے بعد یہ اس انڈسٹری کے تمام لوڈ کریں ۔۔۔ ان کی سم بیچیں ان کے پیکج ایکٹیو کریں ۔۔۔۔ یہ عام لوگوں کو اپنی اپنی دکانوں سے 12 سے 16 گھنٹے کی سپورٹ دیتے ہیں ۔۔۔ یعنی کسٹمر کیئر سینٹر کا متبادل کہا جائے تو مناسب ہوگا۔ پاکستان میں ایسے شہر آباد ہیں جہاں کسی ٹیلی کام کمپنی کی نا تو فرنچائز ہے اور نا ہی اس کمپنی کا کسٹمر کیئر آفس ہے ان کی نمائندگی کون کر رہا ہے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو ہمارے درمیان موجود ھیں ۔۔۔ کچھ لوگ انہیں ایزی لوڈ کی دکان کے نام سے مخاطب کرتے ہیں ۔۔ کچھ انہیں موبائل دی دکان ۔۔۔ اور کچھ انہیں پیسہ بھیجنے کی دکان یا بل ادا کرنے کی دکان کے نام سے مخاطب تے ہیں ۔۔۔ معذرت کیساتھ میں ٹیلی کام سلطنت میں بیٹھے لوگوں سے اتنا کہوں گا کہ یہ تمام لوگ بھی انسان ہیں جو سخت مشقت کر کے آپ کی کمپنیز کے لیے بغیر تنخواہ کے 16 گھنٹے کام کر رہے ہیں انہیں نظر انداز کر دینا یہ سراسر نا انصافی ہے۔ گزشتہ دنوں اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے حکومت کی طرفسے لگنے والا ٹیکس اور نقصان پورا کرنے کے لیے ان کو بھی نہیں بخشا گیا ۔۔۔ صرف موبی ٹونز ، رنگ ٹونز ، کال پر گانے چلنے کے ریونیو سے بننے والے ٹیلی کام انڈسٹری کے کڑوڑ پتی لوگ کتنے غریب اور لاچار ہیں ۔۔۔ کہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کا درد انہیں محسوس نہیں ہوتا انہیں وہ انسان نہیں اپنی ملکیت سمجھ کر بیٹھ گئے ہیں جس طرح کسی کو خرید لیا جاتا پہلے وقتوں میں توں غلام بنا لیا جاتا تھا اب ایسا نشہ چلا ہے کہ بے روزگار لوگوں نے اگر اپنے زندہ رہنے کے لیے ھلال رزق کی تلاش میں اپنی چادر کے مطابق دکانیں کھولیں کام کرنا شروع کیا تو اب ان کے گلوں پر چھری پھیرنے کے در پر آ گئے ھیں ۔۔جب کمپنیاں اپنی ساتھ کام کرنے والی ایسی لیبر کا معاشی قتل شروع کر دے تو یاد رکھے وہ انڈسٹری تباہ ہو جاتی ہے ۔۔۔ نامعلوم ٹیلی کام انڈسٹری میں بڑی سیٹوں پر بیٹھے لوگ کن کے ہاتھوں کٹ پتلی بنے ہوئے ھیں ۔۔۔ یہ انڈسٹری پاکستان کی سب سے بڑی انڈسٹریوں میں شمار ہوتی ہے اس میں کوئی کام زبانی نہیں کیا جاتا، تحریری طور پر پراجیکٹس بنتے ہیں ، کمپین چلتی ہے برانڈنگ ہوتی ہے اور سوچ سمجھ کے بعد کوئی بھی پیکیج ہو چائے وہ کالنگ کا ہو ، رنگ ٹون کا ہو ، بیلنس چیک کرنے کا ہو یا انٹرنیٹ کا رد و بدل کی جاتی ہے۔ اگر صرف 2 پیسے بھی اوپر نیچے ہو جائیں توں سب کی سیٹیں ھل جاتی ھیں ایسا ممکن نہیں کہ ایسے لوگ اتنے جاہلیت کے حامل ہوں کہ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والے ان لوگوں پر ھی چھری پھیر دیں جو سالہاسال سے ان کے نام کا گن گا رہے ہیں اور ان کے لیے مسلسل کام کئے جا رہے ہیں ۔۔۔ ایسا ممکن نہیں کہ کوئی کمپنی مکمل ان لوگوں کو نظر انداز کر دے ٹیلی کام انڈسٹری میں چلیں پوسٹ پیڈ کسٹمرز کو کوالٹی دی جاتے ہیں ان کے ملازمین کا خرچ ہر ٹیلی کام کمپنی برداشت کرتی ہے فرنچائزر کو کمیشن دیا جاتا ہے ٹارگٹس دیئے جاتے ہیں ۔۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ شیلڈ اور بیسٹ پرفارمنس ایوارڈ دیئے جاتے ہیں تقریب منعقد ہوتی ہیں ۔۔۔ مگر جو ٹیلی کام انڈسٹری میں پری پیڈ کسٹمر کے غریب یوزر ہیں ان سے جڑے غریب دکاندار جو انہیں 16 گھنٹے ٹیلی کام انڈسٹری کی طرفسے مفت سروسز دے رہیں ہیں ان کے لیے نا ہی کسی ٹیلی کام کمپنی نے آج تک کوئی پروگرام چلایا ہے نا ھی ان کی فلاح کے لیے کسی قسم کا کوئی کام کرنے کی کوشش کی ہے ۔ چلیں فائدہ نا دیں مگر کم از کم کارپوریٹ سیکٹر میں کوئی بھی ملازم اگر رکھا جاتا ہے جو بغیر تنخواہ کے کام کر رہا ہوتا ہے اسے وہ ادارے اچھا کمیشن دیتا ہے تاکہ وہ اپنا گزر بسر کر سکے ۔۔۔ ادھر تو پورا آنگن ھی ٹیڑھا ھے لگتا ہے حکمرانوں کی سنگت کا اثر ہے کہ کھال تک اتار لو ۔۔ یہ لوگ ہیں ہی اسی قابل ۔۔۔ جو لوگ اپنے ساتھ چلنے والوں کی قدر نہیں کرتے یکے بعد دیگرے ان کے ساتھ چلنے والے انہیں خدا حافظ کہتے جاتے ہیں ۔۔۔ اور اپنا کاروبار کسی دوسرے کام میں منتقل کر لیتے ہیں اس ایسا کرنے میں آپ ایک ایسے فرد سے محروم ہو جاتے ہیں جو بغیر تنخواہ کے لیے آپ کی ٹیلی کم انڈسٹری میں اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔۔۔ قدر کرنا تو دور ان کی محنت کا صلہ تک دینے میں حقارت محسوس کی جائے تو افسوس ناک امر ہے ۔۔۔ گزشتہ دنوں ٹیلی کام انڈسٹری کی طرف سے پاکستان کے ریٹیلرز ڈھاجے جانے والے ظلم کچھ نا قابل بیان ہیں جن کا تذکرہ اگر نا کیا جائے تو مجھے لگتا ہے ذیادتی ہو گی ۔۔۔ ریٹیلرز کو ملنے والا منافع جو 2.8 فیصد رہ گیا تھا اسے انڈسٹری نے یکم اپریل کو 2.6 فیصد کر دیا۔ جبکہ ہر 100 کے لوڈ پر24 ٹیکس کی کٹوتی کی جا رہی ہے۔۔ جبکہ موبی لنک جاز کے ریجنل سیلز آفیسرز 30 سے 35 ہزار روپے لے رہا ہے ہر سال اس کی تنخواہ بڑھا دی جاتی ہے یہ سب ریٹیلرز کی محنت کی کما ؔی کھا رہے ہیں۔ 100 روپے کے کارڈ کی خریداری پر کسٹمر کو 75 روپے ملتے ھیں اور ریٹیلرز کو ملنے والا کمیشن 2.60 فیصد ہے اور کمپنی کو ملنے والی رقم 22 روپے ۔ غرض یہ کہ ٹیلی کام انڈسٹری نے مفت کے ملازمین رکھے ہوئے جو 2.50 کے بدلے 16 گھنٹے کام لے رہے ھیں۔ سارا دن خواری کاٹیں ریٹیلر اور مل بیٹھ کر کھائیں ٹیلی کام انڈسٹری میں بیٹھے اوہ لوگ جو خود اپنی ذات کو تو شاید انسان سمجھتے ہیں مگر ان کے ساتھ چلنے والوں کے لیے نا ہی کسی قسم کے بینفیٹس دیئے جاتے ہیں اور نا ہی ان کے مسائلوں کوں سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ %5 فیصد سو روپے پر ملنے والا کمیشن اب کرتے کرتے 2.50 فیصد اپریل میں کر دیا گیا ہے اتنی بڑی گیم خود سے تو نہیں ہو سکتی ظاہر سی بات ہے ٹیلی کام ایک انڈسٹری ہی اس میں زبانی کلامی قسم کا کوئی جواز نہیں بنتا پری پیڈ کسٹمرز کے ملنے والا ریونیو اتنا ہے کہ اگر ٹیکس ادا کرنے کے بعد 20 فیصد فوائدہ ریٹیلرز کو دے دیا جائے تو اس سے وہ لوگ اپنے حالات کو بہتری کی طرف لے کر جا سکتے ہیں مگر ادھر تو الٹا سہولتیں دور ان کے حق کی کھلے عام تلفی کی جا رہے ہے اور ایسی بزنس پالیسی جو اپنے ساتھ چلنے والے ریٹیلرز پر ھی چھری پھیر دے ایسے کمپنی کا تو پھری اللہ ھی حافظ ہے۔ مزے کی بات ریوارڈ پروگرام ، انسینٹیو ، اور تقاریب اور اشتہارات کے ذریعے لالچ دے کر کام لینا اور کام لینے کے بعد کمیشن نا دینا یہ بھی عجیب بات چل رہی ہے ۔ مجھے بہت دکھ ہوتا ہے کہ اس انڈسٹری میں اتنے بڑے سکیل پر پاکستانیوں سے کمانے والے اپنی بے حسی کی انتہا کی حد کو عبور کر دیتے ہیں اور بدلے میں ان اداروں کو لگام ڈالنے والے ادارے ان پر ٹیکس لگا دیتے ہیں اور یہ ٹیکس گھوم پھیر کر دوبارہ عام عوام پر مسلط کر دیا جاتا ہے یہ سب ثواب دیدی ہے۔ اس وقت تمام اعلی حکام خصوصا پی ٹی اے اور محتسب اعلی کو اس معاملے کہ ملک میں ہونیوالی حق تلفیوں کا ازالہ کرنا ضروری ھے ایسے لوگ جو اپنے حلال رزق کی جدوجہد میں مختلف علاقوں شہروں گوٹھوں میں بیٹھ کر ان ٹیلی کام کمپنیوں کی مفت میں مارکیٹنگ کر رہے ہیں ان کی سم بیچ رہے ہیں ان کے بیلنس فروخت کر رہے ہیں پیجکز کے بارے میں آگاہ کر رہے ھیں ایسے لوگوں کے بارے میں سوچنا سب کا فرض بنتا ہے اور خصوصا جو لوگ کسی ایک شخص پر اعتماد کر کہ سب اچھا ہے کی پالیسی یا جعلی ڈیلی رپورٹس پر یقین کر کے نمبرز پر خوش ہو کر اسے پرموشن اور مختلف سہولیات سے نواز رہے ہیں تو انہیں بھی عقل کے ناخون لینے ہوں گے تمام ٹیلی کام اداروں کو اعلی حکام پابند کریں کے وہ ان کے ساتھ چلنے والے لوگوں کو کم از کم مزدور کی ایک دن کی کمائی کے مطابق توں اجرت دیں اگر اتنی بھی نہیں دے سکتے تو کم از کم اتنی سہولت دیں جو کسی ایک تنخواہ کے برابر ہو ۔ پلیز انسانوں کا استعمال بند کیا جائے اور اس قسم کی غلط پالیسیوں سے ٹیلی کام انڈسٹری میں بنے بادشاہوں کو لگام ڈالی جائے ، کیونکہ پاکستان میں چوھدراہٹ اور بادشاہت اب ممکن نہیں لوگ باشعور ہیں اپنے حق کی آواز اٹھانے کی ہمت رکھتے ہیں بہتر ہیں ان معاملات کو سنجیدگی سے از غور دیکھا جائے وگرنہ ایسی تحریک ٹیلی کام انڈسٹری کے خلاف جنم لے سکتی ہے جس کے کارکن وی ریٹیلرز ہوں گے جن پر آج ٹیلی کام انڈسٹری والے چھریاں تیز کر کے معاشی قتل کرنے پر لگے ہوئے۔ ریٹیلرز کے جب یہ حالات ہیں تو عام پاکستان کے لیے تو ان کمپنیوں نے سانس لینا بھی دو بھر کر دیا ہے اگر وہ بیلس ڈلوائے تب ٹیکس کال کرے تب ٹیکس میسج کرے تب ٹیکس انٹرنیٹ استعمال کرے تب ٹیکس اگر موبائل بند کر کے بھی رکھے تب بھی ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح گلیوں محلوں میں بیٹھے تاجر اپنی من مانیاں اپنے طریقے اور اپنے انداز میں مصنوعی مہنگاہی کا مکمل ماحول بنا دیتے ہیں جیسے پیٹرول یا ڈیزل کے بڑھنے پر ٹرانسپورٹرز کرائیوں میں بے تہاشہ اضافہ رک دیتے ہیں اور پرائز کم ہونے پر ایسی چپ سادھ لیتے ہیں جیسے ان کا کم ہونے سے کوئی تعلق نا ہو۔ خدارا پاکستان کے شہریوں کو اس قسم کی مصنوعی بحرانوں سے نکالا جائے ۔۔۔ اور جو لوگ اس قسم کا ماحول پیدا کر رہے ہیں انکی تلاش کر کے ان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائے جائے اور غربت کی چکی میں پسنے والے غریب ریٹیلرز جو صبح سے رات ١٢ بجے تک اپنے بچوں کے لیے رزق کمانے کی غرض سے دکانوں پر بیٹھے رہتے ہیں انہیں ٹیلی کام انڈسٹری کا اس طرح سے نظر انداز کر دینا نہایت ہک ہے۔