تحریر:شہزاد حسین بھٹی
خدا تعالی کی طرف سے عوام ، عوام کی طرف سے منتخب نمائیندوں ، منتخب نمائیندوں کی وساطت سے پارلیمینٹ کو کسی ریاست پر حکمرانی کا اختیار ملنے پر پارلیمینٹ اپنی اجتماعی سوچ کی روشنی میں ریاست کو کامیابی سے چلانے کے لیئے قواعد و ضوابط اور اداروں کی تشکیل کرتی ہے – اداروں کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ پارلیمینٹ نے از خود تو ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت نہیں کر نی ہوتی ، سکول کالج نہیں کھولنے ہوتے ، ملزموں کو گرفتار اور رہا نہیں کرنا ہوتا ، گھروں میں پانی بجلی کے کنکشن نہیں لگانے ہوتے ،صرف اپنی پالیسی اوراصول وضع کرنے ہوتے ہیں ۔ جمہوری حکومتوں میں ارکان اسمبلی عوامی نمائیندے ہوتے ہیں۔ انہیں عوام اپنے ووٹوںکے ذریعے منتخب کرتے ہیں تاکہ وہ اسمبلیوں میں جاکرعوامی مسائل پر نہ صرف آواز اُٹھائیں بلکہ ان کے حل کے لیے مشترکہ لالحہ عمل تیارکریںاور مطلوبہ قانون سازی کریں تاکہ ملک میں اداروں کا تسلسل برقرار رہے اور ہر ادارہ آئیں کے مطابق اپنی حدود میں رہتے ہوئے آزادانہ کام کرسکے۔
قومی و صوبائی اسمبلیوں کا کام قانون سازی ہے اور اسپیکر ان ہائوسز کو چلانے اور نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار۔ یہ ملک کے سب سے بڑے ایوان ہوتے ہیں اور یہاں ہر علاقے کی نمائیندگی کرنے والے نمائیندگان موجود ہوتے ہیں جو کسی بھی قانون سازی کے عمل میں شریک ہوتے ہیں اور اس کے فوائد و نقصانات پر سیر حاصل تقاریر کرتے ہیں اور ووٹنگ کی بنیاد پر عوامی بلوں پر منظوری لی جاتی ہے۔ ان ایوانوں کی کاروائی کے دوران الیکڑانک میڈیا پر ان ہائوسز کی کاروائی بعض اوقات براہ راست دیکھائی جاتی ہے۔ ان ہائوسزآج کل اکثر و بیشترنمائیندگان ایک دوسرے پر وہ کیچڑ اُچھالتے ہیں کہ ایوان ایوان کم اور مچھلی منڈی زیادہ لگنے لگتا ہے۔
ابھی گذشتہ دنوں قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی( پی پی پی) نے نیشنل ایکشن پلان( نیپ) پر عمل درآمد میں ناکامی پر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کو ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ وزیر داخلہ کے کالعدم تنظیموں سے روابط کی رپورٹ آئی ہے۔دہشت گردوں سے خفیہ ملاقاتیں کی جائیں گی تو دہشت گردی بڑھے گی۔ اعجاز جکھرانی کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں ہو رہا اور دہشت گردی نے ملک کو تباہ کر دیا ہے، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہ ہونے پر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار استعفیٰ دیں۔ اجلاس کے دوران حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن(پی ایم ایل این) کے رکن اسمبلی اور ریلوے کے وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کھرے آدمی ہیں۔ انہوں نے کلاشنکوف کے لائسنس نہیں بیچے۔ قومی اسمبلی میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کو ان کی اتحادی جماعت تحریک انصاف نے تنہا چھوڑ دیا،شیخ رشید کی پیپلزپارٹی کے اعجاز خان جاکھرانی اور وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق سے تلخ کلامی ہوئی۔ وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے شیخ رشید کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ یہ شخص ڈرامہ لگانا چاہتا ہے مگر اب ہم ایسا نہیں کرنے دیں گے،اعجا ز جاکھرانی نے کہاکہ شیخ رشید انتہائی بدتمیز شخص ہے۔ شیخ رشید کو نقطہ اعتراض پر بولنے کی اجازت نہ ملنے پر آزاد رکن جمشید دستی احتجاجاً سپیکر ایاز صادق کی ڈائس کے سامنے بیٹھ گئے۔
14 دسمبر 2016 کو قومی اسمبلی میںشاہ محمود قریشی کی تقریر کے دوران وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کی جانب سے دخل اندازی کی گئی جس پر شاہ محمود قریشی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سعد رفیق نے گزشتہ روز ہمارے لوگوں کو غنڈہ کہا جس پر ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کل بھی غنڈہ کہا گیا آج بھی دْہرا یا گیا. سعد رفیق کو بلائیں مجھے اور غنڈوں کو باہر پھینک دیں کیونکہ ایوان میں غنڈوں کا کوئی کام نہیں. سعد رفیق کو اپنے الفاظ واپس لینے ہوں گے اور معزز ممبران سے معافی مانگنی ہوگی اگر نہیں مانگی تو ایوان میں بات نہیں کرسکیں گے۔اسکے بعد سعد رفیق نے بھی تقریرمیں پہلے تحریک انصاف کو آڑے ہاتھوں لیا اورپھر مافی مانگ لی۔
جمعے کے دن سندھ اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وقفہ سوالات کے دوران ایوان میں حکومتی ارکان خواتین پر سیٹیاں اور آوازے کستے رہے جبکہ سپیکر سندھ اسمبلی ہنس کر معاملات کو ٹالتی رہیں جبکہ دیگر سینئر حکومتی ارکان اس بے غیرتی اور بے شرمی پر بجائے اسکے کے اپنے حکومتی ارکان کی مذمت کرتے اسکے برعکس وہ اس کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ صوبائی وزیر امداد پتافی کی جانب سے”چیمبر” میں بلانے پر خاتون رکن نصرت سحر عباسی نے شدید احتجاج کیا۔ اور کہاکہ چیمبر میں بلانے والے اپنی ماوں اور بہنوںکو چیمبر میں کیوں نہیں بلاتے۔اسلام میں عورت کا ایک مقام ہے ۔ہمارے نبی اکرم ﷺ سے ملنے اگر حضرت فاطمہ آتیں تو آپ ﷺ احترام میں کھڑے ہوجاتے اور بیٹھنے کے لیے اپنی چادر تک بچھا دیتے۔ مسلمان اور خصوصاً خاتون ہونے کے ناطے اگر ہمارے ایوان عورت کو عزت و احترام نہیںدے سکتے تو پھر عام آدمی یا معاشرے سے یہ کیسے توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ عورت کو عزت دے گا۔جو ذومعنی الفاظ سندھ اسمبلی میں نصرت سحر عباسی کے لیے استعمال ہوئے وہ کوئی بھی شریف انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ کئی دن گزرنے بعد بھی یو ںلگتا ہے کہ امداد پتافی کو شرمندگی چھو کر بھی نہیں گزری۔سینئر قانون دان عاصمہ جہانگیر نے اس معاملے پرشدید ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ عوامی نمایندے ہیں یا لفنگے! وفاقی محتسب کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری اوبختاور بھٹو زرداری نے بھی اس معاملے کا نوٹس لیا ہے اور امداد پتافی کو خاتون ممبر سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا جس پر امداد پتافی نے پارٹی قائدین کے دَبائو پر معافی مانگ لی لیکن فنگشنل مسلم لیگ کی نصرت سحر عباسی نے معافی قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ انہیں ایوان سے فارغ کروا کر دم لیں گی۔
بدقسمتی سے ہمارے سیاسی رویوںاور سماجی کلچر میں کچھ عشروں سے قابل اعتراض الفاظ اور جملوں کی احتیاط کی کمی نظر آ رہی ہے جو شائستہ سماجوں کا خاصہ کہلاتی ہے۔پاکستان وہ ملک ہے جسکا قیام اسلام کے نام پر عمل میں آیااس لیے یہاں سیاسی، سماجی ، مذہبی اور میڈیا کے لوگوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ الفاظ کے انتخاب اور استعمال مین اسلامی تعلیمات کے اس قانونی اصول کو پیش نظر رکھیں کہ “انسان اپنے الفاظ سے پکڑا جاتا ہے”۔ جمہوریت صرف انتخابات لڑنے اور جیتنے کا نام نہیں ، یہ ان روایات کے تحفظ کا بھی نام ہے جن سے قوموں کے مہذب ہونے کا پتہ چلتا ہے۔