تحریر: عمران ظفر بھٹی ۔۔
کسی بھی خطہ ، علاقہ، صوبہ یا ملک کی پہچان اس کی ثقافت ہوتی ہے ثقافت کسی بھی خطہ کی ہو وہ بہت خوبصورت، ہوتی ہے اس دنیا میں بہت ہی کم علاقوں میں ثقافت یا کلچر بہتر نہ ہوگا یا باہر کے لوگ اسے پسند نہ کرتے ہونگے مگر دنیا کی زیادہ تر ثقافتیں بہت ہی پیاری ہیں۔ پاکستان میں بھی مختلف ثقافتیں ہیں جن میں سب سے اہم بلوچستان، سندھ، پنجاب، پختون اور سرائیکستان کی ثقافتیں شامل ہیں ۔ سندھی ثقافت دیکھیں تو اس کے برابر کی ثقافت بہت ہی خوبصورت ہے جس کی مثال شاید نہ ملے۔ بلوچستان کی ثقافت نہایت دلکش اور حسین ہے اسی طرح پنجاب اور پختونوں کی ثقافت بھی کسی سے کم نہیں ۔ مگر پاکستان میں ایک اور ایسی ثقافت بھی موجود ہے جو انتہائی دلکش، حسین، خوبصورت اور بہترین و اعلی روایات پر مشتمل ہے جس کی ثقافت، تہذیب و تمدن انتہائی محبت، خلوص و پیار سے بھری ہوئی ہے۔ اس ثقافت کو پاکستان بننے سے اب تک ہمیشہ نظر انداز کیا گیا اور یہ ثقافت آہستہ آہستہ گم ہونے لگی ۔
پاکستان بننے کے فوراً بعد یہی ثقافت تھی جس نے پاکستان کو کھڑا ہو کر چلنا سکھایا تھا۔ اسی ثقافت کے متعلق قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ پاکستان بننے سے قبل پاکستان یہاں موجود تھا اور وہ ثقافت کوئی اور نہ تھی اس ملکی کی سرائیکی ثقافت تھی جسے وقت کے حکمرانوں نے ہمیشہ تنگ نظری کی عینک سے دیکھا ۔ثقافت ہے کیا ۔؟ ثقافت سے مراد کسی بھی علاقے کا رہن سہن، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، لوگوں سے میل جول اور انداز گفتگو ، شعرا ء کرام، موسم، کھیل کود ،شادی بیاہ و دیگر رسومات کے علاوہ اوربھی بہت ساری چیزیں شامل ہیں جو ثقافت میں شمار ہوتی ہیں ثقافت کیلئے انگریزی میں استعمال ہونے والا لفظ “کلچر” ہے ۔سرائیکی کلچر میں عام طور پر مرد حضرات شلوار ، قمیض پہنتے ہیں اسکے علاوہ بہت سارے لوگ پٹکا اور لنگی بھی پہنتے ہیں پرانے وقتوں میں ننگے سر گھومنا معیوب سمجھا جاتا تھا اور معزز اور بزرگ افراد سر پر پٹکا ضرور باندھتے تھے۔ خواتین شلوار قمیض پہنتی ہیں جبکہ سر پر دوپٹہ (بوچھنڑ) اوڑھتی ہیں
۔یہاں کے لوگ انتہائی ملنسار، کھلے دل کے اور مہمان نواز ہیں اگر کوئی مہمان گھر آجائے تو کچھ نہ کچھ تواضع ضرور کرتے ہیں۔اس خطہ کی ثقافت میں جتنا بھی پیار محبت ہے وہ صوفیاء کرام اور بزرگان دین کی تعلیمات کی وجہ سے ہے صوفیاء کرام کے کلام میں ہر جگہ محبت جھلکتی ہے اس دھرتی کا ایک ایسا علاقہ (اُچ شریف) بھی ہے جہاں تقریباً سوا لاکھ صوفیاء کرام پردہ نشین ہیں۔ جبکہ اسکے علاوہ، ملتان، ڈی جی خان، مظفر گڑھ، راجن پور و دیگر علاقوں میں بھی بہت سارے نامور صوفیاء کرام موجود رہے جہاں آج بھی ان کے احکامات اور تعلیمات پر عمل کیا جاتا ہے ۔ ان صوفیاء میں حضرت خواجہ غلام فریدؒ آف کوٹ مٹھن شریف، سرور سخی ڈیرہ غازیخان، سرخ پوش سرکار(اُچ شریف)، جہانیاں پیر (مظفر گڑھ)، شاہ رکن عالمؒ (ملتان) ، شاہ شمس تبریزؒ ، بہاؤالدین زکریاؒ (ملتان) ، سید امام علی شاہؒ (لودھراں) ، خواجہ ابو بکر وراقؒ (میلسی) شامل ہیں اسی طرح ادب میں، شاکر شجاع آبادی، شاکر مہروی، امان اللہ ارشد،احمد خان طارق قابل ذکر ہیں جبکہ موسیقاروں میں عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی، منصور ملنگی، پٹھانے خان، عابدہ پروین،طالب حسین درد،اللہ ڈتہ لونے والا شامل ہیں ۔
سرائیکی موسیقی آج بھی پورے پاکستان میں شوق سے سنی جاتی ہے مگر افسوس سرائیکی ثقافت کے اس خوبصورت حصے پر بھی آج تک توجہ نہیں دی گئی۔ سرائیکی ثقافت میں مہمان نوازی ایک اہم ترین حصہ ہے سرائیکی کھانوں میں ساگ، چلڑا اور سوہانجنا بہت اہم ہیں ان دونوں پکوانوں کو اس علاقہ کی سوغات کی حیثیت حاصل ہے اس کے علاقہ کے لوگ سردیوں میں جب بھی اس خطہ سے دور جاتے ہیں تو اپنے رشتہ داروں کو ساگ اور چلڑے کی فرمائش ضرور کرتے ہیں ۔ سردیوں میں موسم میں اگر کوئی مہمان بھی آجائے تو اس خطہ کے لوگ ساگ، چلڑا، سوہانجنا ، لسی اورمکھن سے خاطر تواضع کرتے ہیں ۔پاکستان کے بہت سارے لوگ آج بھی ساگ ، چلڑا اور سوہانجنا سے ناواقف ہیں۔ یہ انتہائی اعلیٰ، اور غذائیت سے بھر پور سالن اور چاول کی روٹی ہے۔ چلڑا دیسی چاول کے آٹا سے تیار کیا جاتا ہے جو کہ بہت ہی مزیدار ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی یہاں کے آم،انار اور کھجور بھی پورے ملک بلکہ دنیا میں مشہور ہیں ، علی پور کے آم اور انار آج بھی پاکستان سے باہر بھیجے جاتے ہیں یہاں پر راقم یہ بات چیلنج سے کہہ سکتا ہے کہ ایسا انارسوائے علی پور(مظفر گڑھ) کے پورے پاکستان میں پیدا نہیں ہوتا۔ اسکے علاوہ بھی یہاں بہت ساری ایسی سوغات ہیں جو سرائیکی خطہ کی ثقافت کو چار چاند لگاتی ہیں۔نیلا رنگ اس دنیا میں ہی خوبصورتی کی علامت ہے اگر ہم آسمان کو دیکھیں تو نیلا نظر آتا ہے اس کے علاوہ کئی ممالک میں بھی اس رنگ کو خوش قسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے اسی طرح سرائیکی ثقافت میں بھی نیلا رنگ بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے
اس خطہ کی درباروں پر اگر کاشی گری دیکھی جائے تو وہاں بھی نیلا رنگ نمایاں نظر آتا ہے جبکہ ملتان میں بننے والے مٹی کے برتنوں پر جو نقش و نگار بنائے جاتے ہیں ان برتنوں پر بھی نیلا رنگ چھایا ہوا ہے اور یہاں کے برتن پوری دنیا میں فروخت ہوتے ہیں اس خطہ کی پہچان اجرک کا رنگ بھی نیلا اور سفید رنگ پر مشتمل ہے یہ اجرک جو شخص بھی پہن لے اس پر خوب جچتی ہے۔ اس اجرک کے ساتھ ٹوپی جو کہ بناوٹ میں تو سندھی ٹوپی جیسی ہے مگر اس ٹوپی میں بھی رنگ نیلا ہی ہے جو کہ بہت ہی خوبصورت نظر آتی ہے اس خطہ میں جب ثقافتی دن منایا جاتا ہے تو ہر طرف نیلے رنگ کی اجرک اور نیلی ٹوپی ہی نظر آتی ہے اس خطہ کے عوام اپنی اس ثقافت سے بے حد لگاؤ رکھتے ہیں اور تقریبا اپنے تہوار پر ضرور استعمال میں لاتے ہیں۔جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ہر خطہ کی ثقافت خوبصورت ہوتی ہے اور اس خطہ کے عوام کا حق ہے کہ وہ اپنی ثقافت کو زندہ رکھیں اور اپنی ثقافت کیلئے بھر پور کام کریں کیونکہ کوئی بھی شخص ایک ہی موسم سے اکتا جاتا ہے
جیسے پاکستان میں چار خوبصورت موسم ہیں اور یہاں کے لوگ ان موسموں کو خوب انجوائے کرتے ہیں اسی طرح پاکستان کی تمام ثقافتیں بھی انتہائی خوبصورت اور دلکش ہیں حکومت پاکستان کو چاہیے کہ یہاں کی ثقافتوں کو زندہ رکھنے کیلئے مساوی کام کرے اور ہر خطہ کی ثقافتوں کی ترقی کیلئے کام کرے تاکہ چاروں موسموں کی طرح اس خطہ کے یہ خوبصورت رنگ بھی ہمیشہ جگمگاتے رہیں ۔ جو کتاہیاں سابقہ ادوار میں رہ گئیں ان کا ازالہ کرتے ہوئے سرائیکی ثقافت پر خاص اور بھر پور توجہ دینی چاہیے ۔ آخر میں یہی دعا ہے کہ میرے وطن کی یہ خوبصورت رنگ ہمیشہ جگمگائیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین
نوٹ:نیوزنامہ پر شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کی ذاتی رائے ہے ،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں