طلاق دینے کا احسن طریقہ
تحریر: پروفیسر اللہ دتہ قادری
طلاق کے مسائل سیکھنا ہر شادی شدہ شخص پر فرض ہے بلکہ ہمیں نکاح سے قبل ہی طلاق کے مسائل سیکھ لینے چاہئیں لیکن لوگ اس بارے میں سخت غفلت کا شکار ہیں اور طلاق کے مسائل نہیں سیکھتے نہ ہی اس کا نام سننا پسند کرتے ہیں لیکن اس کا استعمال بے دھڑک ہو کر کرتے ہیں۔ عوام کی اکثریت صرف تین طلاق کو ہی طلاق سمجھتی ہے جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، بلکہ شریعت اسلامیہ میں اسے سخت ناگوار سمجھا گیا ہے جب کہ طلاق کا سب سے بہتر طریقہ طلاق احسن کہلاتا ہے۔
طلاق احسن کی صورت یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو ایک طلاق ایک ایسے طہر یعنی پاکی کے دنوں میں دے جس میں بیوی سے مجامعت نہ کی ہو اورعدت گذرنے تک اسے چھوڑدے۔(رد المحتار3/231) (دوسری یا تیسری بارطلاق کے الفاظ نہ دہرائے۔
یہ ایک طلاق واقع ہو چکی ہے۔ عدت گزرنے کے بعد عورت آزاد ہے وہ چاہے تو کسی سے بھی نکاح کر سکتی ہے اور اگر فریقین کا ارادہ صلح کا ہے تو عدت کے اندر رجوع کیا جا سکتا ہے اور اگر عدت گزر چکی چاہے کئی سال ہی کیوں نہ گزر جائیں اور عورت نے ابھی تک کسی سے بھی نکاح نہیں کیا تو میاں بیوی دوبارہ نکاح کر کے صلح کر سکتے ہیں۔ یوں حلالے کی ضرورت نہیں ہے یہی طلاق دینے کا بہتر طریقہ ہے اسے طلاق احسن کہتے ہیں۔ یاد رہے کہ مرد کو چاہیے کہ کبھی بھی طلاق کا لفظ زبان پر نہ لائے اگر کبھی ضرورت ہو تو انتہائی غور و فکر کے بعد طلاق دے بیوی سے کتنا ہی جھگڑا کیوں نہ ہو کبھی بھی فوراً طلاق نہ دے۔ ہمیشہ سوچ سمجھ کر دے اور مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق دے گا تو بعد میں پچھتانا نہیں پڑے گا۔
ہمارے ہاں عموماً غصہ آنے کی صورت میں مرد فوراً طلاق طلاق طلاق کی گردان شروع کر دیتا ہے اور تین طلاق دے کر بیوی کو فارغ کر دیتا ہے افسوس تو یہ ہے کہ جس چیز کو آخری حربے کے طور پر استعمال کیا جانا چاہئے تھا ہم اسے ابتدائی مراحل میں ہی استعمال کر دیتے ہیں
یعنی توپ سے مکھی مارنے کا کام لیتے ہیں
جس کی وجہ سے بعد میں پچھتاتے ہیں اور پھر مفتیان کرام اور دارالافتاء کے چکر لگاتے ہیں کہ ہمارے مسئلے کا کوئی حل بتائیں
لیکن اہل سنت کے نزدیک اس وقت سوائے حلالہ کے کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم طلاق کے مسائل سیکھ لیں تاکہ اس کا درست استعمال کر سکیں ویسے بھی بیک وقت تین طلاق دینا بدعت اور گناہ ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی کہ ایک شخص نے اپنی زوجہ کو تین طلاقیں ایک ساتھ دے دیں اس کو سُن کر غصہ میں کھڑے ہو گئے اور یہ فرمایا کہ کتاب اللہ سے کھیل کرتا ہے حالانکہ میں تمہارے اندر ابھی موجود ہوں۔ (نسائی:3398) یعنی بیک وقت تین طلاق دینا انتہائی ناپسندیدہ اور مذموم فعل ہے، اور طلاق ویسے بھی انتہائی نا پسندیدہ امور میں سے ہے اس لیے حتی الامکان اس سے بچنا چاہیے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: کہ تمام حلال چیزوں میں خدا کے نزدیک زیادہ نا پسندیدہ طلاق ہے۔(ابوداؤد:2178) لیکن بڑھتی ہوئی بے حیائی، فلموں،ڈراموں اور مردو زن کے اختلاط کی وجہ سے طلاق کی شرح پچھلے کچھ سالوں سے پاکستان اور دنیا بھر میں بڑی تیزی کے ساتھ بڑھتی چلی جارہی ہے اسی وجہ سے ان لوگوں میں یہ مثل مشہور ہے کہ اپنی اولاد اور دوسرے کی بیوی ہمیشہ اچھی لگتی ہے اور یوں دل خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے نتیجتاً دل اپنی بیوی سے غیر مطمئن ہو جاتا ہے دوسری عورتوں سے گپ شپ کرنا اچھا لگتا ہے اور اس نیک بخت سے جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں اور یوں بات طلاق پر منتج ہوتی ہے۔ ان تمام باتوں کا علاج دین اسلام کی مکمل تابع داری میں ہی پنہاں ہے۔ اس لیے اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی صورت میں یہ مسائل کبھی پیدا ہی نہیں ہوتے۔
اللہ تعالی ہر ایک کے گھر کو محبتوں کا گہورا بنائے اور طلاق تک نوبت پہنچنے سے بچائے آمین
بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم