پنجاب میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح
تحریر : اقبال زرقاش/ فکرِفردا
جب سے پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت برسراقتدار آئی ہے امن و امان کے حوالے عوام عدم تحفظ کا شکار ہو چکے ہیں عوام سے کیے گے وعدے ہوا میںاُڑئے جارہے ہیں حالانکہ عوام کو بڑی امید تھی کہ وہ پنجاب پولیس میں اصلاحات کرکے خیبر پختونخواہ پولیس کی طرح یہاں بھی صدیوں سے بگڑا ہوا نظام درست کر لے گی مگر یہاں تو حکومت کو پنجاب پولیس کے آگے گھٹنے ہی نہیں ٹیکنے پڑے بلکہ ہاتھ باندھ کر لیٹ کر جان بچانی پڑ رہی ہے۔ جی ہاں یہ وہی پولیس ہے جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ اس کا ایک سپاہی وردی پہن کر پورے گاوں کو آگے لگا لیتا ہے ۔حکومت پنجاب نے پندرہ ماہ میں پانچ آئی جی تبدیل کر دیئے لیکن پولیس کی کارکردگی بہتر نہ ہوسکی اب حکومت نے عملًا ہتھیار ڈال کر عوام کو پولیس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے ۔
میرے سامنے پچھلے سال 2019ءمیں پنجاب میں ہونے والے جرائم کے اعداد شمار پڑے ہیں جس کے مطابق پنجاب میں 3594 قتل کی وارداتیں رپورٹ ہوئیں ، اقدام قتل کے 9795 اور لڑائی جھگڑے کے 13 ہزار چالیس واقعات رونما ہوئے اغواء کی 13 ہزار 3 سو وارداتیں اغواءبرائے تاوان کے 76 کیسز شہریوں کے لیے خوف کی علامت بنے۔ جرائم پیشہ عناصر نے شہریوں کو کروڑوں کی املاک سے محروم کیا ۔ڈکیتی کی 15 ہزار بیس، گاڑی چھینے اور چوری کی 22 ہزار دو سو اور مویشی چوری کے چھ ہزارواقعات سامنے آئے ۔ان اعدادوشمار کے باوجود وزیر قانون پنجاب نے امن و امان کی صوتحال کو تسلی بخش قرار دیا شائد اسے ہی پنجاب میں تبدیلی کے ثمرات کہتے ہوں حالانکہ حسب روایت پنجاب میں چوری اور ڈکیتی کی پچاس فیصد وارداتوں کی ایف آئی آر کا اندراج ہی نہیں کیا جاتا اور ایسے جرائم کی سرکاری فائلوں کو ہوا بھی نہیں لگنے دی جاتی اس لیے کہ لٹنے والے نہایت غریب اور بے سہارا لوگ پولیس کے روایتی ہتھکنڈوں اور دباﺅ کے پیش نظرایف آئی آر تک درج کروانے سے قاصر رہتے ہیں اور وہ جرائم کسی اعدادوشمار میں ہی نہیں ہوتے ۔
رواں سال میں لاک ڈاون کے باوجود پنجاب میں جرائم پیشہ افرادنے اپنی کاروائیاں جاری و ساری رکھی ہوئی ہیں۔ پچھلے چار ماہ میں سب سے زیادہ وارداتیں چوری اور ڈکیتی کی سب سے زیادہ رپورٹ ہو رہی ہیں، لوگوں کی بند دکانیں اور گھروں کے تالے توڑ کر وارداتیں کرنے والے گروہ زیادہ متحرک دکھائی دے رہے ہیں۔گزشتہ دنوں وحدت کالونی، ٹیکسلا میں مقیم میرے ایک عزیز نورالامین ولد حاجی رفیق نے بتایا کہ وہ ایک رات کے لیے اپنے گھر کے تالے لگا کر اپنے کسی رشتہ دار کے پاس گئے اور واپس آئے تو گھر کے تالے ٹوٹے ہوئے تھے اور پڑتال کرنے پر معلوم ہوا چور 13 تولے سے زائد کے سونے کے زیورات، پانچ تولے چاندی کے زیورات، تین لاکھ سے زائد نقدی، موبائل فون اور دیگر قیمتی سامان لے اڑے جن کی مالیت بیس لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ وحدت کالونی ٹیکسلا وہ پوش ایریاء ہے جہاں پر چند قدم کے فاصلے پر تھانہ وحدت کالونی موجود ہے یعنی پولیس کی ناک کے نیچے اتنی بڑی چوری کی واردات پولیس کے لیے لمحہ فکریہ ہے ؟ آخری اطلاع تک پولیس ایف آئی آر درج کرنے میں روایتی ھتکنڈوں سے کام لے رہی تھی ۔
لاک ڈاون کی موجودہ صورت حال میں بھی عوام خوف کے سائے میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح موجودہ حکومت کی ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔تبدیلی سرکار جب تک پنجاب پولیس میں سے سیاسی وفاداریوں کی بنیادوں پر بھرتی پولیس افسران کو لگام نہیں دے گی تو ہمارے پولیس کے چوہدری , ملک , خان, سردار , جدون ,مزاری ,لغاری,عباسی, طور , کھوسے, ستی, کیانی , اور نیازی وغیرہ اپنی جاگیردارانہ سوچ لے کر ہمارے پولیس اسٹیشن میں اپنی اجارہ داری قائم رکھیں گے۔ پنجاب اور سندھ پولیس میں سب سے زیادہ بھرتیاں اقرباء پروری اور سیاسی وابستگی کی بنیادوں پر کی جاتی رہی ہیں جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔آج بھی پنجاب کے تمام تھانوں میں تبادلے اور تقریاں حکومتی ایم این اے اور ایم پی اے کی سفارش کو پیش نظر رکھ کر کی جاتی ہیں تھانوں میں سیاسی مداخلت بام عروج پر ہے۔آپ لاکھ آئی جی تبدیل کر لیں جب تک سیاسی مداخلت سے پولیس کو پاک نہیں کیا جاتا کوئی اعلی پولیس آفیسر امن و امان میں بہتری کے رزلٹ نہیں دے سکتا۔
سانحہ ماڈل ٹاون اورسانحہ ساہیوال کی بد ترین مثالیں ہماری پنجاب پولیس کے ماتھے کا جھومر بن کر لہرا رہی ہیں۔ کے پی کے پولیس کی کارکردگی میں وہاں کے عوام کا بھی کلیدی کردار ہے کہ غیرت مند پٹھان کبھی ظلم پر خاموش نہیں رھتا اور اس کے لیے وہ اپنی قوت بازو کو بھی استعمال کر تا ہے اس لیے کسی پولیس والے کی جرات نہیں ہوتی کہ وہ قانون سے ماورا اقدام اُٹھانے کی جرات کرے پنجاب کے حالات یکسر مختلف ہیں یہاں کے عوام شائد پولیس کے مظالم سہنے کے عادی ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے پنجاب میں پولیس گردی کے واقعات زیادہ دیکھنے میں آتے ہیں۔ حکومت نے پنجاب کے عوام کو جو تبدیلی کے خواب دکھلائے تھے وہ سب آھستہ اھستہ دم توڑتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور اس سے صاف نظر آرہا ھے کہ تحریک انصاف کی حکومت کی یہ پنجاب میں پہلی اور آخری بار ھے۔