اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے سب گندی باتیں، شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو (۱)-المائدہ-90
یہ شراب کے بارے میں تیسرا حکم ہے۔ پہلے اور دوسرے حکم میں صاف طور پر ممانعت نہیں فرمائی گئی۔ لیکن یہاں اسے اور اس کے ساتھ جوا،پرستش گاہوں یا تھانوں اور فال کے تیروں کو رجس (پلید) اور شیطانی کام قرار دے کر صاف لفظوں میں ان سے اجتناب کا حکم دے دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اس آیت میں شراب اور جوا کے مزید نقصانات بیان کرکے سوال کیا گیا ہے کہ اب بھی باز آجاؤ گے یا نہیں؟ جس سے مقصود اہل ایمان کی آزمائش ہے۔ چناچہ، جو اہل ایمان تھے وہ تو منشائے الٰہی سمجھ گئے اور اس کی قطعی حرمت کے قائل ہو گئے اور کہا اے رب ہم باز آگئے، لیکن آجکل کے بعض “دانشور” کہتے ہیں کہ اللہ نے شراب کو حرام کہاں قرار دیا ہے؟ (برین عقل و دانش بباید گریست)۔ یعنی شراب کو رجس (پلیدی) اور شیطانی عمل قرار دے کر اس سے اجتناب کا حکم دینا نیز اس اجتناب کو باعث فلاح قرار دینا ان مجتہدین کے نزدیک حرمت کے لئے کافی نہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کے نزدیک پلید کام بھی جائز ہے شیطانی کام بھی جائز ہے جس کے متعلق اللہ تعالی اجتناب کا حکم دے وہ بھی جائز ہے اور جس کی بابت کہے کہ اس کا ارتکاب عدم فلاح اور اس کا ترک فلاح کا باعث ہے وہ بھی جائز ہے انا للہ وانا الیہ راجعون۔
عباد بن موسی، اسمعیل، ابن جعفر، اسرائیل، ابواسحق عمرو سے روایت ہے کہ جب حرمت شراب نازل ہوئی تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ اے اللہ! ہمارے لیے شراب کے بارے میں شافی و کافی بیان نازل فرمائیے، چنانچہ پھر وہ آیت نازل ہوئی جو سورۃ بقرہ میں ہے، ـ”کہ یہ لوگ شراب کے بارے میں سوال کرتے ہیںـ” (اس آیت کے نزول کے بعد) حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو بلایا گیا اور ان کے سامنے یہ آیت پڑھی تو انہوں نے فرمایا کہ اے اللہ ہمارے واسطے شراب کے بارے میں شافی و کافی بیان فرمائیے، پھر سورۃالنساء کی آیت نازل ہوئی، چنانچہ اس آیت کے نزول کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ جب نماز کھڑی ہوتی تو پکارتے تھے کہ خبردار! نشہ کی حالت والے نماز کے قریب مت آئیں۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو بلایا گیا اور انہیں یہ آیت سنائی گئی تو انہوں نے فرمایا اے اللہ شراب کے بارے میں ہمیں واضح بیان عطا فرمائیے۔ چنانچہ پھر (سورۃ مائدہ کی آیت نازل ہوئی) یَا اَیّْھَا الَّذِینَ آمَنْوا اِنَّمَا الخَمرْ وَالمِیسِرْ وَالاَنصَابْ، سے آخر تک۔ اے ایمان والو بیشک شراب جوا اور پانسہ وغیرہ یہ شیطانی کام ہیں سو ان سے اجتناب کرو شاید کہ تم فلاح پاؤ۔ بیشک شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ تمہارے درمیان دشمنی وبغض کو ڈال دے شراب اور جوئے کے بارے میں تمہیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے روک دے۔ سو کیا تم باز آنے والے ہو، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اِنتَھَینَا۔ ہم باز آئے۔سننن ابوداؤد
محمد بن رافع، ابراہیم بن عمر، نعمان بن بشیر، سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز (جس سے حواس معطل ہو جائیں) شراب ہے اور ہر نشہ آور حرام ہے اور جس شخص نے شراب پی لی تو اس کی چالیس دن کی نمازیں ضائع ہو جائیں گی، اور پھر اگر وہ توبہ کر لے تو اللہ تعالی اس کی توبہ کو قبول فرما لیں گے، پھر اگر وہ چوتھی مرتبہ پیے تو اللہ تعالی کا اس پر حق ہے کہ اللہ اس کو طینۃ الخبال پلائیں، پوچھا گیا کہ یہ کیا چیز ہے؟ فرمایا کہ اہل جہنم کی پیپ۔ اور فرمایا کہ جس نے کسی نابالغ لڑ کے کو جسے حلال و حرام کی تمیز و شعور نہ ہو یہ شراب پلائی تو اللہ تعالی پر اس کا حق ہے کہ اسے طینۃ الخبال پلائیں۔ سننن ابوداؤد
گذشتہ دنوں پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینٹ میں چیرمین سینٹ اور سینیٹر حافظ حمدا للہ کے درمیان پارلمینٹ لاجز میں شراب کی خالی بوتلوں کی موجودگی بارے ایک دلچسپ جھڑپ ہوئی جس میں حافظ حمد اللہ نے ارکان پارلیمنٹ کے طبی معائنہ کرانے پر اصرار کیا۔ چیرمین سینٹ نے سینٹ میں شراب نوشی کے تذکرے پر حافظ حمد اللہ کو روکنا چاہا لیکن حافظ حمد اللہ باز نہ آئے اور کہا کہ آپ ہر بار شراب کے تذکرے پر خاموشی کا کہہ دیتے ہیں۔کیا شراب پینا جرم نہیںہے؟ اگر پارلمینٹ کے ارکان شراب نہیں پیتے تو کیا ملازمین اور بھنگی پارلمینٹ لاجز میںمہنگی شراب کی بوتلیں پی کر خالی بوتلوں نے انبار لگاتے ہیں؟ جس پر چیرمین سینٹ نے کہا کہ تمام لوگ اپنے عیبوں پر پردہ ڈالتے ہیں، آپ اگر ارکان پارلیمنٹ کو تماشا بنا نا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی۔جس پر حافظ حمد اللہ نے کہا کہ جس طرح چوہوں کے خاتمے کے لیے ٹھیکیدار بھرتی کیے گئے ہیں اسی طرح رندوں کے خاتمے کے لیے بھی ٹھیکدار رکھ لیا جائے۔
حافظ حمد اللہ نے کوئی نئی بات نہیں کی، انکی بات میں وزن ہے۔ شراب نوشی اسلام میںحرام ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں،کون نہیں جانتا کہ اسلام آباد ، لاہور ، کراچی اور کوئیٹہ کے تمام بڑے ہوٹلوں اور نجی محفلوں میں شراب نوشی سرعام کی جاتی ہے ۔ بلکہ اسے اسٹیٹس سمبل کے طور پر لیا جاتا ہے۔اگر کوئی انکی محفل میںشریک ہو اور وہ شراب پینے سے اجتناب کرے تو اسے بیمار مہذب (Ill mannered)قرار دیا جاتا ہے۔پاکستان اسلام کے نام پر بنا! اسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کہاجاتا ہے لیکن یہاں قانون صرف کتابوں میں اور استعمال صرف غریبوں پر کیا جاتا ہے۔ ایلیٹ کلاس ہر طرح کی قانونی گرفت سے مبرا ہے۔اگر کوئی غریب یا عام شخص شراب کے نشے میں دھر لیا جائے تو پولیس نہ صرف اسکی درگت بناتی ہے بلکہ جیل میں ڈال دیتی ہے اور اگر امیر پی لے تو کہتے ہیں۔
؎ ؎پیاس بجھانے کو چسکی لی ہے
کون شرابی کس نے پی ہے
پارلیمنٹ لاجز میں شراب نوشی کا معاملہ اس سے پہلے جمشید دستی ایم این اے نے بھی اُٹھایا تھا۔ جس پر انکے خلاف ریفرنس اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس ہے۔ اس معاملے پر جان بوجھ کر چشم پوشی اخیتارکی جار ہی ہے کیونکہ پارلیمنٹیرین کی ایک کثیر تعداد کو اسکی لت ہے۔ایک بڑی سیاسی جماعت کے اعلیٰ عہدے پر فائز سابق ممبرایوان کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جو سرشام ہی شراب کے نشے میں دُھت ہو جاتا ہے اور اس دوران اگر کوئی خاتون صحافی اسے فون کر لے تو وہ پیچھے ہی پڑ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی روک تھام کے لیے کوئی قانون سازی عمل میں نہیں آتی اور اگر کوئی قانون ہے بھی تو اس پر عمل درآمد کون کروائے گا؟کیا اس کے لیے بھی کوئی ٹھیکیدار رکھنا پڑے گا؟
ٹھیکیدار رکھ لیجئے
مقالات ذات صلة