کیا منافع خور حکومت کی دسترس میں نہیں ؟
تحریر : اقبال زرقاش/ فکر فردا
آمد رمضان کے ساتھ ہی ذخیرہ اندوز ،منافع خور مافیاءعملی طور پر میدان میں کود چکا ہے ،بدقسمتی سے ان میں سے اکثریت انہی بڑے تاجروں کی ہے جو کسی نہ کسی تعلق سے ہر حکومت کا حصہ رہے ہیں بلکہ رہتے ہیں مفادات کی سیاست کے یہ منجھے ہوئے کھلاڑی ہواﺅں کا رخ دیکھ کر پارٹیاں بدلنے کا فن بھی بخوبی جانتے ہیں ۔آج رمضان المبارک میں عام آدمی کی بڑھتی ہوئی غذائی ضروریات کو دیکھتے ہوئے یک دم کھانے پینے کی اشیاء تیس سے پچاس فیصد بڑھ چکی ہیں عام آدمی کی قوت خرید جو پہلے ہی لاک ڈاون کی وجہ سے جواب دے چکی تھی اوپر سے یہ خود ساختہ مہنگائی نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔حکومت میں شامل ذخیرہ اندوزوں کی ٹیم جو آٹا اور چینی مافیا مافیائ کے طور پر پہلے ہی بے نقاب ہو چکی ہے اوپر سے اب کولڈ سٹور سٹاک مافیاء کے سکینڈل بھی سامنے آنا شروع ہو رہے ہیں عوام کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ وہ جائیں تو جائیں کہاں ؟ہر طرف اشرافیہ (بدمعاشیہ) کا راج ہے تبدیلی کا لفظ مزاق ہی نہیں گالی بن چکا ہے۔
پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی وفاقی کابینہ کی افواج کا اعزاز بھی موجودہ تبدیلی سرکار کے حصے میں آچکا ہے وزیروں مشیروں کا ہجوم ملک کے خزانہ پر اربوں روپے کا بوجھ تو ہے ہی لیکن ان کی کارکردگی بھی صفر جمع صفر ہی دکھائی دے رہی ہے اوپر سے انتظامی بنیادوں پر بھی کئی مسائل سر اٹھا رہے ہیں جو پولیس عوام کی حفاظت پر مامور ہونی چاھیے تھی وہ وزیروں مشیروں کے پروٹوکول پر تعینات ہے ۔انتظامی مشینری عوام کو ریلیف دینے کی بجائے خود آزمائش سے گزر رہی ہے آئے روز سیاسی بنیادوں پر تبادلے اور تنزلی کا خوف سرکاری افسران کے سروں پر تلوار لے کر کھڑا ہو تو وہ کیا خاطر خواہ نتائج دیں گے کبھی سیکرٹری اور کبھی آئی جی کو تبدیل کر کے نئے نئے تجربات کیے جارہے ہیں۔اب تو ملک میں اہم انتظامی پوسٹوں پر مسلکی بنیادوں پر تعیناتیوں کی نئی روایت بھی ڈالی جا رہی ہے جس کا سہرا ایک مشیر خاص پر عائد کیا جارہا ہے۔ ذرائع یہ کہتے ہیں کہ وہ ڈپٹی وزیراعظم کا رول ادا کر رہا ہے (نئے رشتوں کی باتیں بھی زبان زد عام ہیں) گو کہ موصوف بظاہر فرماتے ہیں کہ ان کا دیگر اداروں پر کوئی اختیار نہیں لیکن حقائق بتاتے ہیں کہ انتظامی مشینری پر ان کی مکمل دسترس ہے کیونکہ وہ قریبی دوست …..جو ٹھہرے !
اب تو پی ٹی آئی کا قربانیاں دینے والا عام ورکر بھی پیراشوٹ نان الیکڈ مشیروں سے نالاں نظر آتا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کا ورکر انقلابی سوچ کا حامل ورکر ہے جو مختلف سیاسی پارٹیوں سے کشید ہو کر باہر نکلا ہے لہذا حکومت کی کارکردگی کے خلاف وہ علم بغاوت بلند کرنے میں دیر نہیں کرے گا لہذا پارٹی ہائی جیکر کسی خوش فہمی میں نہ رہیں کہ وہ تبدیلی کے نام پر زیادہ دیر ان کو اپنے دھوکے اور سحر میں مبتلا رکھ سکیں گے ۔پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک دلچسپ پوسٹ نظروں سے گزری جس میں انقلابی سوچ رکھنے والے پی ٹی آئی کے حمایتی نے کہا کہ میں پی ٹی آئی کو,, تین طلاق ,,دیتا ہوں۔اب وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے پی ٹی آئی کی تقریبا دوسالہ کارکردگی مایوس کن رہی ہے باقی تین سالوں میں بھی کچھ تبدیل ہوتا نظر نہیں آ رہا مقبولیت کا گراف پستی کی طرف گامزن ہے ۔پی ٹی آئی کے دانشور اب یہ جواز گھڑ رہے ہیں کہ 70 سالوں کا گند ہم دوسالوں میں کیسے صاف کر سکتے ہیں۔عہد حاضر کے آزاد تجزیہ نگاروں کا موقف ہے کہ جب آپ کو معلوم تھا کہ آپ حکومت میں آکر کوئی تبدیلی نہیں لا سکیں گے تو پھر سڑکوں چوراھوں پرکنٹینر کھڑے کر کے عوام کو سبز باغ کیوں دکھاتے رہے ؟اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کے پاس کوئی اللہ دین کا چراغ نہیں لیکن حکومت کی سمت تو درست نظر آنی چاھیے؟حسب روایت ” ڈنگ ٹپاﺅ” پالیسی جو پہلی حکومتوں نے اپنائے رکھی وہی موجودہ حکومت بھی اپنائے ہوئے ہے بلکہ اسی کا تسلسل جاری و ساری ہے ۔موجودہ حکومت کے پاس اب تو غفلت کی بلکل بھی گنجائش نہیں ۔جہاں موجودہ حالات میں کورونا کی وباء نے معشیت کی رہی سہی کسر بھی نکال کر رکھ دی ہے اور حکومت دیگر عوامی مسائل سے بلکل لا تعلق ہو کر کورونا ،کورونا کھیل رہی ہے جس کے نقصانات آنے والے وقتوں میں تحریک انصاف کی قیادت کو بھگتنا پڑیں گے ۔
اس وقت مہنگائی کا جو طوفان برپا ہے اس پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے ۔صرف ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سزاوں کا آرڈینس لا کر کچھ نہیں ہوگا ۔حکومت کو اپنی صفوں میں بیٹھے منافع خور مافیاء کو لگام دینی ہو گی جو ہر حکومت میں بیٹھ کر اس موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ ملک میں مصنوعی غذائی بحران پیدا کرکے اربوں روپے سے اپنی تجوریاں بھری جائیں ۔اگر اس رمضان المبارک کے مہینے میں بھی منافع خوروں کے خلاف بھر پور ایکشن نہ لیا گیا تو حکومت کی نیک نامی کی رہی سہی کسر بھی نکل جائے گی۔اقبال راہی نے کیا خوب کہا تھا کہ
یہ خون چوستے ہیں ملک کے غریبوں کا
نہیں لگام کوئی دے کسی کے بس میں نہیں
اکیلا میں نہیں یہ ساری قوم کہتی ہے
منافع خور حکومت کی دسترس میں نہیں