کالم : نسیم شاہد
موسمیاتی تبدیلی کی وزیر مملکت زرتاج گل نے تو وزیر اعظم عمران خان کی مسکراہٹ کو قاتلانہ قرار دیا تھا، تاہم اب انہوں نے اپنا فاتحانہ جلال بھی دکھانا شروع کر دیا ہے۔ خیبرپختونخوا میں تین وزیروں کی برطرفی اور پنجاب میں سازشیں کرنے والوں کو وارننگ ان کے اسی جلال کی علامتیں ہیں۔ کئی لوگوں کے دل پر تو انہوں نے یہ کہہ کر تیر بھی چلا دیئے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ہی رہیں گے، جو لوگ ان کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں، وہ انہیں پہچان چکے ہیں …… پھر انہوں نے وہ بات بھی کہہ دی جو ان کالموں میں کئی بار کہی گئی ہے کہ عمران خان، عثمان بزدار کو اس لئے نہیں بدلنا چاہتے کہ ان کا متبادل شاید چند ماہ بھی نہ چل سکے…… یہی بات انہوں نے کی اور کہا کہ عثمان بزدار کی جگہ کسی دوسرے کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا تو اسے 20 دن نہیں چلنے دیا جائے گا۔
سو اب یہ بات تو پکی ہو گئی کہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا کلہ مضبوط ہے، کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ کپتان نے تو یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں محمود خان بھی بہت مضبوط ہیں اور ان کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو گھر جانا پڑے گا، چاہے وہ کپتان کے کتنے ہی قریب کیوں نہ رہے ہوں۔ اب عاطف خان کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ عمران خان کے بہت قریب تھے،
اسی لئے انہیں خیبرپختونخوا کا سینئر وزیر بھی بنایا گیا تھا، مگر جب انہوں نے عمران خان کے بنائے گئے وزیر اعلیٰ کے خلاف بغاوت کی تو جس طرح کپتان کرکٹ ٹیم سے سرکش کھلاڑیوں کو نکال باہر کرتے تھے، اسی طرح ان کے ساتھ بغاوت میں شریک دو اور وزیروں کو گھر بھیج دیا، سو اب ہلکی پھلکی موسیقی پنجاب میں چل سکتی ہے اور نہ خیبرپختونخوا میں …… پنجاب میں وہ تمام امیدوار جنہوں نے وزارتِ اعلیٰ کی آس میں شیروانیاں سلوا رکھی تھیں، اب آنسو بہا کر سو جائیں، کپتان بزدار کی تبدیلی کا کسی کی زبان سے سننا بھی نہیں چاہتے۔
جو لوگ یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ پنجاب میں ہاہا کار مچاکر عمران خان کے ذہن کو تبدیل کر دیں گے، یا کوئی گروپ بنا کر پریشر ڈالیں گے، وہ شاید عمران خان کی شخصی تاریخ کو بھول گئے۔ کپتان تو خود بار ہا یہ کہہ چکے ہیں کہ انہیں کرکٹ کھیلتے ہوئے دباؤ میں کھیلنے کا بہت مزا آتا تھا۔ بیٹھے بٹھائے کپتان پر اچانک چاروں طرف سے یلغار شروع ہوگئی۔ پہلے اتحادی میدان میں آئے،پھر پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں یورش کے آثار پیدا کئے گئے۔
گویا کپتان کے پاس وکٹیں کم رہ گئی تھیں اور سامنے سکور کا پہاڑ کھڑا تھا۔ اب ایسے میچ تو عمران خان نے بہت کھیلے ہوں گے۔ ایسے میچوں میں کرکٹ ٹیموں کے کپتان دو طرح کی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں، دفاعی انداز میں کھیل کر وکٹیں بچائیں یا جارحانہ انداز میں چوکے چھکے لگائیں؟ عمران خان نے دوسری حکمت عملی اختیار کی اور کریز سے نکل کر ایک چھکا مار دیا۔ اس چھکے میں تین کھلاڑیوں کو گراؤنڈ سے باہر کر دیا تو سارا دباؤ ختم ہو گیا۔ پنجاب میں سب امن چین سے بیٹھ گئے، خیبرپختونخوا میں سازشیں دم توڑ گئیں اور بلوچستان میں عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ جام کمال سے ہاتھ ملانے کو تیارہو گے۔
اب رہ گیا اتحادیوں کا معاملہ تو کپتان نے ان کے لئے ضرور کوئی حکمت عملی وضع کر لی ہو گی۔ مبصرین تو بہت پہلے سے کہہ رہے تھے کہ عمران خان کو مصلحتوں سے نکل کر جرات مندانہ فیصلے کرنے چاہئیں۔ اب یقینا وہ ان وفاقی وزراء کی طرف بھی توجہ دیں گے، جنہوں نے خواہ مخواہ بیان بازی سے پارٹی کے اندر انتشار پیدا کر رکھا ہے۔
کپتان کی طرف سے وارننگ یا شٹ اَپ کال ان کے لئے کسی بھی وقت جاری ہوسکتی ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ تحریک انصاف کو 2018ء کے انتخابات میں ووٹ عمران خان کے نام پر ملے، ایک ایسی لہر چلی تھی، جس میں عوام نے عمران خان کو اپنا نجات دہندہ تسلیم کر لیا تھا، اب اگر آج کوئی تحریک انصاف کے اندر کپتان کی مرضی کے خلاف ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانا چاہتا ہے تو اسے آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا……
اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عمران خان کی گرفت اپنی پارٹی پر مضبوط ہوگی تو حکومت پر بھی مضبوط ہوجائے گی، اگر وہ مصلحتوں یا مجبوریوں کے تحت تحریک انصاف کے پارٹی ڈسپلن کو نظر انداز کریں گے تو انہیں مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس بات کا علم عمران خان کو پہلے بھی ہو گا، تاہم اب انہوں نے اس پر عمل شروع کر دیا ہے، جس کی وجہ سے خود پارٹی کے کرتا دھرتا رہنماؤں کو یہ نظر آنے لگا ہے کہ کپتان نے اپنے تیور تبدیل کر لئے ہیں۔ کرکٹ کا تجربہ ان کے بہت کام آ رہا ہے۔
کرکٹ میں ٹائمنگ بہت اہم ہوتی ہے۔ اچھے ٹائم پر باؤلر کو تبدیل کرنا یا بلے باز کو اوپر یا نیچے بھیجنا، فیلڈ کو جارحانہ سیٹ کرنا یا دفاعی انداز سے رکھنا، یہ سب کچھ میچ جیتنے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ اب کپتان کی ٹائمنگ کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جب وہ اسلام آباد سے لاہور کی اُڑان بھرنے والے تھے تو انہوں نے یہ حکم جاری کیا کہ لاہور اترنے سے پہلے خیبرپختونخوا حکومت کے تین وزیروں کی برطرفی کا نوٹیفکیشن جاری کرکے میڈیا پر آ جانا چاہیے۔ اس نوٹیفکیشن کا جاری ہونا تھا کہ پنجاب میں اگر کسی کے ذہن میں کوئی مزاحمت، شرارت یا سازش تھی بھی، تو وہ دم توڑ گئی۔
سب کو اپنی پڑ گئی،اب سبھی عثمان بزدار کے صدقے واری جانے لگے، رہی سہی کسر کپتان نے یہ دو ٹوک اعلان کر کے پوری کر دی کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ہی رہیں گے۔ پھر بین السطور یہ پیغام بھی دے دیا کہ کوئی ان کے خلاف سازش نہ کرے، کیونکہ وہ سازشیوں کو پہچان چکے ہیں۔ باقی رہی بات پنجاب کے چیف سکرٹری اور آئی جی کی تو انہیں بھی یہ کہہ دیا کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ہی رہیں گے، اس لئے ان کا ہر حکم بجا لایا جائے۔
اب ذرا فرض کریں کپتان اس جارحانہ اننگ کی بجائے دفاعی اننگ کھیلتے، خیبرپختونخوا کے وزیروں کو نہ نکالتے، لاہور آ کر گورنر، وزیر اعلیٰ، ارکانِ اسمبلی اور ناراض گروپ کے لوگوں سے پارٹی کو متحد رکھنے کی التجا کرتے، عثمان بزدار کی پھر خوبیاں گنواتے اور ان کے لئے ارکانِ اسمبلی سے مزید وقت مانگتے تو ان کی کسی نے نہیں سننی تھی، انتشار کچھ مزید گہرا ہو جانا تھا، بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے سر اٹھاتے اور بے یقینی کے سائے مزید گہرے کر دیتے۔ اب امید ہے کہ اگلے کئی ماہ تک پنجاب میں عثمان بزدار اور خیبرپختونخوا میں محمود خان کے خلاف کسی کے دماغ میں تبدیلی کی سوئی نہیں اٹکے گی……
کپتان کی قاتلانہ مسکراہٹ کے بعد ان کے فاتحانہ جلال نے پانسہ پلٹ دیا ہے۔اب بال عثمان بزدار اور محمود خان کے کورٹ میں آ چکی ہے، انہیں بھی اب کچھ کر کے دکھانا چاہئے۔ کپتان کی توقعات پر پورا اترنے کے لئے جان مارنی چاہئے۔ ملک کے وزیر اعظم اور پارٹی سربراہ کی طرف سے اتنی کھلی حمایت کے بعد بھی اگر وہ اپنے صوبوں میں ڈلیور نہیں کرتے، گڈ گورننس نہیں لاتے،
ترقی و خوشحالی کے آثار پیدا نہیں کرتے تو پھر انہیں واقعی ا ن مناصب پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں …… خاص طور پر عثمان بزدار کو اب ایک تگڑے، با خبر، فیصلہ ساز اور ترقی پسند حکمران کے طور پر اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ وہ چیف سکرٹری ا ور آئی جی سے صوبے میں گڈ گورننس کے لئے مسلسل مشاورت کریں، ارکانِ اسمبلی کو وقت دے کر ان کے علاقوں میں ترقیاتی کام کروائیں،
وزراء کو ٹاسک دیں اور ان سے تین ماہ بعد بہتری کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کی رپورٹ مانگیں۔ اب نشستند، گفتند، برخاستند کا دور گیا، کپتان کو سب سے زیادہ تنقید کا سامنا ان کی وجہ سے کرنا پڑتا ہے، اگر وہ اچھے کام کر گزرتے ہیں تو یہی تنقید کپتان کے لئے تعریف بن جائے گی، وگرنہ کپتان کا جلال تو کسی وقت بھی دوسری طرف جا سکتا ہے۔