(وسعت اللہ خان)
بالاخر ڈھائی ماہ بعد قصور میں بچوں سے طویل عرصے تک جنسی زیادتی اور ان کی ویڈیوز بنا کر پھیلانے اور ان کے اہلِ خانہ کو بلیک میل کر کے پیسے اینٹھنے کی تحقیقات کے لیے قائم جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو رپورٹ پیش کر دی ہے۔ اس بابت پچیس ملزموں کے چالان پیش کیے گئے ہیں۔
اس دوران بچوں سے جنسی زیادتی کا ایک وکھری ٹائپ کا اسکینڈل پشاور سینٹرل جیل سے باہر آ گیا۔ وہاں ایک قیدی بچے نے مجسٹریٹ کے روبرو زبان کھول دی کہ جیل اہلکار عادی مجرموں کو پیسے کے عوض بچے پیش کرتے ہیں۔ مجھے چکی (سخت سزا والے مجرموں کی بیرک کے لیے جیل اصطلاح) کے نمبردار اور ساتھ کے سپاہیوں نے چھ ہزار روپے میں قیدی نمبر پچھتر کے حوالے کیا۔ بہت سے بچوں کے ساتھ یہ ہو رہا ہے مگر تشدد کے خوف سے کوئی زبان نہیں کھولتا۔ ۔ ۔
جب میڈیا میں یہ خبر پھوٹی تو خیبر پختون خوا کی حکومت نے بھی اسکینڈل کی تحقیقات کی ٹھانی۔ مگر تحقیقات سے زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا؟ اس کا اندازہ چھان پھٹک شروع ہونے سے پہلے ہی وزیرِ اعلی پرویز خٹک کے مشیرِ جیل خانہ جات قاسم خان خٹک کے اس بیان سے ہو سکتا ہے کہ جیلوں میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ جس شخص نے الزام لگایا ہے وہ جووینائل قیدی نہیں بلکہ اس کی عمر اکیس سال ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
گویا خٹک صاحب کے لیے واقعہ سے زیادہ اہم قیدی کی عمر ہے۔ پشاور جیل میں اس وقت ایک سو پانچ قیدی ہیں جن کی عمر اٹھارہ برس سے کم ہے۔ ان میں سے صرف دس بچے ایسے ہیں جن کا جرم ثابت ہو چکا ہے باقی پچانوے کے مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔ پورے خیبر پختون خوا میں اس وقت تین سو چالیس نو عمر قیدی ہیں۔
ان میں سے ستائیس مجرم قرار پائے ہیں باقی فیصلے کے منتظر ہیں۔ مگر جب صوبائی مشیرِ جیل خانہ جات سے پوچھا گیا کہ اس وقت صوبے میں کتنے بچے جیلوں میں ہیں تو ان کا جواب تھا ’’ مجھے درست تعداد تو نہیں معلوم لیکن یہی کوئی چار پانچ سو تو ہوں گے ’’۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ پشاور جیل کے عملے کے خلاف فوری ایکشن کیا لیا گیا ہے تو قاسم خٹک نے فرمایا کہ وہ ’’ انڈر آبزرویشن ’’ ہیں۔ یعنی ان کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ کون نگرانی کر رہا ہے؟ کیا وہ اب بھی جیل کے اندر فرائض انجام دے رہے ہیں؟ اس کی کوئی وضاحت نہیں ہو پائی۔
اس وقت خیبر پختون خوا میں بھی ملک کی بیشتر جیلوں کی طرح کم سن قیدی بظاہر بڑے قیدیوں سے علیحدہ بیرکوں میں رکھے جاتے ہیں جنھیں جیل کی زبان میں بچہ خانہ کہا جاتا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کی سابق صوبائی حکومت نے دو ہزار بارہ میں قیدی بچوں کی رہائش و سہولیات سے متعلق قانون اسمبلی سے منظور کروایا۔ بنوں میں ایک بورسٹل جیل تعمیر ہوئی، ہری پور میں بھی اس مقصد کے لیے عمارت تعمیر ہوئی مگر تین برس گزرنے کے باوجود دونوں مراکز آپریشنل نہیں ہو سکے۔
اس وقت پاکستان میں نوے کے لگ بھگ جیلیں ہیں۔ لیکن بچوں کے لیے خصوصی جیلوں کی تعداد چھ ہے۔ یعنی دو سندھ میں اور چار پنجاب میں۔ سات سے اٹھارہ برس کے تقریباً اسی ہزار نوعمروں پر مختلف الزامات میں مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔ ان میں سے چودہ سو کے لگ بھگ بچے جیلوں میں قید ہیں مگر نوے فیصد پر جرم ثابت ہونا باقی ہے۔
جیلوں میں دو طرح کے بچے نظربند ہیں۔ ایک وہ جن کی مائیں قیدی ہیں اور وہ کم سنی کے سبب ان کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔ دیگر وہ جو کسی نہ کسی الزام میں جیل بھیجے گئے۔ اٹھارہ برس سے کم عمر کی کچھ بچیاں بھی جیل میں ہیں لیکن ان کے لیے لڑکوں کے برعکس علیحدہ سہولتیں نہیں بلکہ وہ بڑی عمر کی قیدی عورتوں کی بیرکس میں ہی رکھی جاتی ہیں۔
پاکستان میں جووئنائل جسٹس سسٹم آرڈیننس سن دو ہزار سے نافذ ہے۔ اس قانون کے تحت اٹھارہ برس سے کم عمر کے ملزم کی گرفتاری کے بعد ملزم کے ورثا کو بتانا ضروری ہے۔ ملزم کو گرفتاری کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر جووئنائل عدالت یا مجاز مجسٹریٹ کے روبرو پیش کرنا ضروری ہے۔ پاکستان میں اس وقت جووینائل عدالتیں کتنی ہیں؟ ( یہ فقیر اس بارے میں طالبِ مدد ہے)۔ جووینائیل آرڈیننس کے تحت نو عمر قیدیوں کو بالغ قیدیوں کے ساتھ نہیں رکھا جا سکتا۔
ترجیحاتی طور پر انھیں بچہ جیل یا مرکزِ اصلاح میں رکھا جانا چاہیے۔ مگر عملی صورتِ حال یہ ہے کہ جن علیحدہ بیرکوں میں نو عمروں کو رکھا جاتا ہے وہاں کھیل کود اور تعلیمی سہولتیں ندارد (سوائے گنتی کی چند جیلوں کے)۔ ان پر جسمانی و ذہنی تشدد نہیں کیا جا سکتا نہ ہی مقدمے کا فیصلہ ہونے تک مشقت لی جا سکتی ہے (مگر یہ سب ہوتا ہے)۔
پاکستان جیسے ممالک میں جیل ایک علیحدہ ریاست ہے۔ اس کا بادشاہ داروغہ اور کابینہ مددگار عملہ ہے۔ بطور آئین انگریزی دور کا جیل مینوئیل اور اس میں آزادی کے بعد کی گئی ترامیم بھی موجود ہیں۔ لیکن عملی قانون ’’اوپر آسمان نیچے جیلر‘‘ کے اصول پر نافذ ہے (اس موضوع پر درجنوں پنجابی فلمیں بن چکی ہیں)۔ اگر آپ مفلوک الحال بھی ہیں اور بدقسمتی سے جرم بھی کر بیٹھے ہیں تو پھر آپ کا اللہ حافظ ہے۔ اگر آپ خوشحال اور طاقتور ہیں تو پھر جیل بھی ریل ہے بلکہ ریل پیل ہے۔
آپ اپنا دربار سجا سکتے ہیں۔ جیل کا عملہ آپ کا دربان ہو گا۔ نوٹوں کی کیاری کو ہر کوئی پانی دیتا ہے۔ جی چاہے تو ڈائٹنگ کیجیئے نہ چاہے تو بہترین کھانا منگوائیے خود بھی کھائیے درباریوں اور نادار قیدیوں کو بھی بانٹئے اور ظالم و مظلوم کی دعائیں لیجیے۔ ایک وقت میں ایک ملاقات کی پابندی تو کنگلے مجرموں کے لیے ہے۔ آپ کے ملاقاتی کون گن رہا ہے۔ دل چاہے تو اپنی بیرک میں کرسیاں ڈلوا لیں، جی چاہے تو جیلر کے کمرے میں چائے بسکٹ کے اوپر مل لیں۔ موبائیل فون حاضر! چرس اور شراب حاضر! اور خواتین؟
کیا بات ہو رہی تھی اور کہاں نکل گیا۔ پنجاب کے ایک سابق آئی جی جیل خانہ جات پرویز راجپوت کہتے ہیں کہ قیدی بچوں پر تشدد اور جنسی زیادتی کے واقعات ہر جیل میں ہوتے ہیں مگر اکثر جیلوں کا نظام ’’نہ بتاؤ نہ پوچھو‘‘ کے اصول پر چلتا ہے۔ بچوں کی فلاح و بہبود سے متعلق ایک تنظیم اسپارک کے سربراہ انیس جیلانی کے بقول جیل ایک بند جگہ ہوتی ہے لہذا وہاں ایسے واقعات کی آزادانہ تحقیق بہت مشکل ہے۔ جو بھی معلومات حاصل ہوتی ہیں وہ جیل عملے کی چھلنی سے گزرتی ہیں۔
شاز و نادر ہی ہوتا ہے کہ کوئی خبر چھلنی سے گر پڑے اور آپ کے علم میں آ جائے۔ پشاور جیل سے آنے والی خبر بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ انیس جیلانی بتاتے ہیں کہ چند برس قبل حیدرآباد ڈسٹرکٹ جیل میں نئے نئے تعینات ہونے والے ایک جیلر نے بچوں سے جنسی زیادتی کا نوٹس لینا شروع کیا اور دیگر اصلاحات پر بھی توجہ دی تو قیدیوں نے بغاوت کر دی۔ ان کے بقول سکھر جیل کے ایک ہنگامے کے پیچھے بھی ایسے ہی اسباب تھے۔
قصہ مختصر بچے جیل سے باہر ہوں تو قصور کے سے مگر مچھ منڈلا رہے ہیں اور جیل میں ہوں تو قیدی نمبر پچھتر ان کی تاک میں ہے۔بشکریہ ہم سب نیوز
نظامِ دہر ترے اختیار میں ہے مگر!
میں سوچتا ہوں کہ تو کس کے اختیار میں ہے؟