| | |

آئی ایم ایف سے گزشتہ 10 سالوں میں لیا جانیوالا 49 بلین ڈالر کا قرضہ کہاں گیا؟

آئی ایم ایف سے گزشتہ 10 سالوں میں لیا جانیوالا 49 بلین ڈالر کا قرضہ کہاں گیا؟

تحریر: فیصل شہزاد چغتائی

ان چند سالوں میں دو حکومتوں کی بادشاہت کا شاخسانہ اگر الفاظ میں بیان کیا جائے تو وہ تکلیف دے مرحلہ کہلاتا ہے مگر جو بات آن ریکارڈ ہے اس کے مطابق آئی ایم ایف سے اتنی خطیر رقم قرض لینے کا جواز سمجھ سے باہر ہے اگر ان دس سالوں کا موازنہ کیا جائے تو جتنے ٹیکس گورنمنٹ کی طرف سے یہاں کی عوام پر ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ مسلط کیے گئے اگر ان کا حساب کتاب کیا جائے تو شاید ہم آئی ایم ایف کا قرضہ صرف چند ماہ میں اتار سکتے تھے آخر کیوں آج ہماری نسلیں مقروض ہو گئیں جو قرض کی مد میں اقساط دی جاتی ہے اس پر 10 فیصد تک سود بڑھ جانا، ہمارے ملک کو مزید کھوکھلا کرتا جا رہا ہے آخر ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ملک کی بنیاد ہی اسلام پر ہے جس کا نعرہ بھی آج تک ہر بچے کی زبان پر ہے دل میں ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ اللہ محمد رسول اللہ ، مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، ہماری قانونی زبان اردو ہے ، لیکن سندھی ، بلوچی ، سرائیکی، پٹھان سب بھائی بھائی ہیں، مجھے کہیں تو دیکھائیں جہاں محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ یا علاقہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے یہ لکھا ہو یا کہا ہو کہ جو قومیں اس ملک میں آباد ہیں ان کا کوئی وجود نہیں یا کسی ایک یا دو قوموں کو مسلط کر دیا گیا ہو، دین میں سود حرام ہے اگر دس سالوں میں 49 بلین ڈالر کا قرض لیا گیا تو اس پر لگنے والا سود 10% بڑھ چکا ہے اور مزید جو اقساط واپسی جمع کروائی جا رہی ہیں وہ گویا سود واپسی کیا جا رہا ہے، آخر مسلم ریاست کو سود کی ضرور کیا پڑی؟ ایسی کیا وجوہات تھیں جو آپ نے اس ملک میں رہنے والوں کو ان گزشتہ دس سالوں میں نا ہی کوئی سہولت دی اور نہ ہی کوئی ایسی سوسائٹی دی کہ جس میں کرائے پر رہنے والے اذیت اور تکلیف میں رہنے والے لوگوں کو سہارا ملتا؟ اس ملک کی عوام نے جو ٹیکس لگایا گیا اسے خندہ پشانی سے قبول کیا کیونکہ پاکستان کا بچہ بچہ اپنے ملک پر نثار ، اس کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے لیے تیار پھیرتا ہے مگر افسوس چند بھیڑوں کی وجہہ سے آج ہماری مسلم ریاست سود جیسی لعنت میں قید ہے اور ہر سال سود ادا کیا جا رہا ہے، کوئی مضبوط وجہہ قرضے لینے کی ۔۔۔؟ نا عوام نے پوچھی اور نا ہی کسی کو بتائی گئی کیونکہ عوام کو مزید الجھا دیا گیا کہ تنخواہ پرائیویٹ سیکٹر میں 8 سے 15 ہزار کر دی گئی اور اخراجات پر ٹیکس بہت لگا دیئے گئے جن میں سے تین اخراجات ایسے ہیں جن کے بغیر کسی ایک خاندان کا گزارا ممکن نہیں پہلا گھر ، دوسرا یوٹیلٹی بلز، تیسرا اسکولوں کی فیس، ان تینوں چیزوں سے نکلے نہیں تے کہ تین وقت کی روٹی سے دو وقت کی روٹی پر آ گئے اور جو پہلے سے 2 وقت کی روٹی میں گزر بسر کر رہے تھے وہ ایک وقت پر آ گئے یہ کوئی صدیوں کی بات نہیں صرف انہیں دس سالوں کا درد ہے جو شاید کتنے سالوں مزید بڑھتا رہے گا، بہت خوشی ہوتی ہے جب کسی گھر میں ایک نیا فرد آتا ہے سب خوش ہوتے ہیں مٹھایاں بانٹتے ہیں ان سب درد کو بھول جاتے ہیں مگر افسوس وہ پیدا ہونے والا فرد پیدا ہوتے ہی مقروض ۔۔۔۔ واہ ۔۔۔۔ واہ ۔۔۔۔ ہمارا ملک خود کفیل ہے ہر سمت سے اس ملک میں خزانہ موجود ہے معدنیات سے لے کر قدرتی حسن ، زراعت ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور موبائل کی تجارت کے لیے بہت موزوں ملک، جہاں کمپیوٹر ، موبائیل فون کی سیل اور ٹیلی کام سیکٹر دنوں میں اربوں کھروبوں کمائیں وہ ملک مقروض کیسے ہو سکتا ہے صرف ایک سیکٹر ٹیلی کام رنگ ٹون، موبی ٹون ، بیلس چیک کرنے ، ایڈوانس منگوانے اور کارڈ لوڈ کرنے پر ٹیکس وصول کرے اس کے علاوہ جب کال کریں تب ٹیکس ادا کرنا پڑے تو ایسے عوام پر قہر پر قہر مسلط کرنا افسوس ناک ہے، اداروں کو لئے گئے قرض کے بارے عوام سے شیئر کیا جائے اور وجہہ بتائی جائے کہ ہم کیوں مقروض ہوئے اور کیوں ہم پر اتنا قرض مسلط کر دیا گیا اور یہ بھی بتایا جائے کہ آخر اس ملک میں ایک عام انسان کو کیا فائدہ ہوا وہ کل بھی بھرت کے لیے استعمال ہوتا تھا آج بھی اسے بھرت کے لیے رکھا گیا ہے پاکستان میں رہنے والا ہر فرد ایک پاکستان ہے جو بلا تفریق بلا رنگ و نسل ملک کے نام پر قربان ہونے کو تیار ہے آخر کیوں اعلی احکام عوام کو اعتماد میں نہیں لیتے کیوں ملک کو ایک گھر کی مانند نہیں بنانا چاہتے کیویں نفرتوں کی فصلیں صبح سے شام تک بوتے ہیں، کسی بھی قوم کو اگر تباہ کرنا ہو تو اسے نشے اور فحش کاموں میں لگا دو نسل تباہ ہو جائے گی آج ہماری کیبل نیٹ ورک صبح سے شام تک کیا دیکھا رہے ہیں؟ بچوں کی تربیت کیا ہو رہی ہے آج 7 سال کی عمر رکھنے والے بچے کو نماز کا علم نہیں لیکن اسے یوٹیوب سے ویڈیو نکالنے فلمیں نکالنے اور فیس بک چلانے کا اشتیاق ہے اور بہتر انداز میں وہ یہ استعمال کر رہے ہیں والدین بھی دیکھ رہے ہیں گھر گھر میں شیطانیت ہے ذہنوں کی ڈویلپمنٹ کون کرے گا ؟ ہم ملک سے غربت ختم کر دیں گے یہ نعرہ ہر نو منتخب جمہوری دعویدار کرتے ہیں مگر افسوس غربت کی بجائے غریب ختم کرنے پر کام شروع کر دیتے ہیں۔ یا پھر پہلے سے خراب سسٹم میں گھل مل جاتے ہیں اور ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں اور غریب صرف اسی فکر میں دن گزار دیتا ہے کہ شام کو بچوں کے لیے روٹی کما کر لے جاوں ۔۔۔۔ پاکستان جیسا ملک پوری دنیا میں نہیں اور یہ ملک صلاحیت رکھتا ہے کہ اس کا ہر فرد امیر ہو ۔۔۔۔ مگر ایسا بالکل نہیں خود ساختہ فضا قائم کر دی جاتی ہے صبح سے شام تک رونے کی پالیسی رہتی ہے سڑکیں ناقص میٹریل ، فلائی آور ناقص مٹیریل ، گورنمنٹ کا اثاثہ فروخت ، آثار قدیمہ جو کسی ملک کی پہچان ہوتا ہے اور ثقافتوں اور زمانوں کی یادگار جگہ ہوتی ہے اس پر کوئی توجہ نا دینا کوئی ایک چیز تو ہوتی ان دس سالوں میں اتنی رقم لے کر کچھ بھی نہیں کیا گیا پبلک پلیس پارکس گھومنے پھیرنے کی جگہیں ختم، انٹرٹنیمنٹ ، اسپورٹس کلب ویران، کسی فیسٹیول کو منانے سے پہلے پورے ملک میں دفعات لگا کر کرفیو لگا دینا، نا ہم نیو ایئر منا سکتے ہیں نا ہم عید ، نا ہی ہم کسی مذہبی تہوار کھل کر منا سکتے ہیں یہاں تک کہ ملک میں اپنے رسول اللہ کی شان اسپیکر پر بیان نہیں کر سکتے جہاں اسپیکر چلے اور نعت خوانی ہو اس پر دھاوا بول دینا کون آرڈر دیتا ہے عوام کو گونگا بھیرا ، بھیڑ بکری سمجھ رکھا ہے کیا عوام بے حس ہے یا آنکھوں پر پٹی باندھے ہوئے ہے؟؟؟ کسی کے صبر کا اس طرح بدلہ دینا بالکل اچھا نہیں عوام سے ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ جس جس طرح سے ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے وہ کہاں استعمال ہو رہا ہے اس کے بارے میں کوئی بریفنگ پچھلے دس سالوں میں؟ غریب عوام کے لیے کیا کیا ؟ کچھ بھی نہیں ۔۔۔ جمہوریت میں آنے والے پہلے سے رونے والا منہ بنا کر بولتے ہیں کہ ہمیں اختیارات نہیں ملے ہمارے پاس وسائل نہیں پچھلی حکومت ملک تباہ کر گئی ہم اس کا ازالہ بھگت رہے ہیں ، جو بھی ووٹوں سے منتخب ہو کر آتا ہے وہ اس ملک پر قابض ہو جاتا ہے عیاشی کرتا ہے پوری دنیا میں گھومتا پھیرتا ہے اس کی نسلیں بن جاتے ہیں اس کے بھائی اس کے چاچے مامے داماد بھابھی بیٹے اور ان کے محسن سب کو نوازانے کا سلسلہ چل پڑتا ہے اور سب ککھ سے لکھ پھر کروڑ پتی ہو جاتے ہیں مگر اس ملک کے صابر عوام آسمان کی طرف چہرہ کرتے ہیں اور آہ بھرتے ہیں اور اللہ سے اتنا کہتے ہیں کہ یا اللہ ان فرعونوں سے بہتر ہمیں موت دے دے روز روز کی تکلیفیں برداشت نہیں ہوتین روز روز کا دکھ برداشت نہیں ہوتا، غریب صرف اللہ کی بارگاہ میں مدد کی صدائیں لگاتا ہے اور ایسے مافیا صفت انسانوں کے لیے سوائے بدعا کہ کچھ نہیں کر سکتا ، کاش کہ درد کو سمجھیں اور ملک پاکستان میں رہنے والے ایک عام انسان کی تکلیف کو سمجھا جائے۔ پاکستان کے عوام ایک قوم ہیں اور ملک کی سلامتی کے لیے اپنی جانوں کے نذرانوں کے لیے حاضر ہیں اور ہر قسم کی مدد کے لیے پیس پیس ہیں اور ابھی بھی غریب ہونے کے باوجود سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں اور وہی ٹیکس آپ کی اعلی رہائشوں ، وی وی آئی پی موومنٹ ، سیکورٹی اور تنخواہوں کی صرت میں آپ کو ملتا ہے ایک غریب کا تحفظ کون دے گا؟ اس کا حساب کون دے گا کہ یہ لیا جانے والا قرضہ کہاں گیا اور کہاں لگا اس سے غریب کو ثمر کہاں ملا ۔۔۔؟ کچھ سنجیدہ ہو جائیں اور سخت کارروائیاں عمل میں لائیں اچھے اور نیک صفت انسانوں کو جمہوریت اور گورنمنٹ میں لائیں تاکہ تحفوں کے نام پر رشوتیں اور پرچی سسٹم ختم ہر سکے عوام کو اعتماد میں لیا جائے عوام ضرور مدد کرے گی تاکہ ہمارا ملک سود کی لعنت سے بچ سکے جو اس کو مزید تباہ کی طرف گامزن کئے جا رہا ہے۔

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *