الرئيسيةصفحہ اولسرائیکی زبان کے شیکسپیئر اور انقلابی شاعر کی کہانی، سحرش منظور

سرائیکی زبان کے شیکسپیئر اور انقلابی شاعر کی کہانی، سحرش منظور

سحرش منظور

شاعری جذبے اور احساس کا نام ہے جو دلوں میں گداز اور لہجے میں شائستگی پیدا کرتی ہے۔ شاعری جب خواجہ فرید، بابا بلھے شاہ اور سلطان باہو کی کافیاں کہلائی تو امن اور اسلام کے فروغ کا ذریعہ بنی۔

اقبال کی نظموں کا روپ لیا تو بیداری انساں کا کام کیا۔ فیض اور جالب کے شعروں میں ڈھلی تو انقلاب کا سامان مہیا کیا اور جب ناصر و فراز کو شاعری نے منتخب کیا تو پیار و الفت کی نئی کونپلوں نے جنم لیا۔

شاعری جب عقیدت کے سفر پر گامزن ہوئی تو حفیظ تائب اور انیس و دبیر منظر عام پرآئے۔ شاعری کے پیچھے چاہے عقیدت کارفرما ہو یا دنیا داری بہرحال یہ سب محبت کے استعارے ہیں اور تسکین کا سامان۔

سرائیکی زبان کے بادشاہ، شاکر شجاع آبادی اپنی انقلابی شاعری سے سماج کے شرفاء اور صاحب اقتدار کو چوٹ لگاتا ہے۔ شاکر نے اپنی زندگی سرائیکی شاعری کے لیے وقف کردی اور اپنی شاعری میں معاشرے کے مظلوم پسے ہوئے محروم طبقات کو اپنا موضوع بنایا۔

پڑھو رحٰمن دا کلمہ بنڑوں شیطان دے چیلے
منافق توُں تاں بہتر ہےِ جو کافر ناں رکھا ڈیوؤ

شاکر کی شاعری روح پر اثر ڈالتی ہے، ان کا نام سُنتے ہی شاعری کے دلدادہ مشاعروں میں کھینچے چلے آتے ہیں شاکر اگرچہ خود جسمانی معذوری کا شکار ہے اور اسے مشاعرہ پڑھنے میں شدید دقت ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود ان کی شاعری پڑھنے اور سننے کے مداحوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔

لاہور کے جنرل ہسپتال میں علاج نہ ہونے کے بعد آج شاکر اپنے گھر کی پرانی چار پائی پر بے یارومدد گار پڑا ہےاُن کے چاہنے والے کچھ دوست اس کی مدد کر رہے ہیں۔

شاکر شجاع آبادی، جن کا اصل نام محمد شفیع ہے، انہوں نے چھٹی جماعت سے پڑھائی چھوڑدی تھی، اور گائیگی شروع کردی، اس لیے کہ وہ اپنی صلاحتیوں کو منوانا چاہتے تھے۔

تاہم وہ گائیکی کے شعبے میں جگہ نہیں بناسکے اور جلد ہی اس کو چھوڑ دیا۔ انہیں احساس ہوا کہ وہ ردیف اور قافیہ بندی کی خوبصورت روانی کے ساتھ شاعری کرسکتے ہیں، تب انہوں نے اپنے اندر کا شاعر دریافت کیا۔

شعرو شاعری کے چوبیس برسوں کے دوران شاکر نے ہزاروں دوہرے، قطعے، گیت اور غزلیں لکھیں۔ کافی اور نظم کی کلاسیکی قسم نے انہیں زیادہ متاثر نہیں کیا۔

میڈا رازق رعایت کر نمازاں رات دیاں کردے
جو روٹی رات دی پوری کریندیاں شام تھی ویندی

یہ عوامی شاعر بارہ برسوں سے چلنے پھرنے سے قاصر ہے تاہم یہ نڈھال نہیں ہوا۔ ڈاکٹروں کے مطابق وہ اپنی پیدائش سے ہی چلنے پھرنے میں خرابی کا شکار تھے۔ انہیں سر اور گردن کی حرکت میں دشواری کا سامنا ہے۔

لیڈر ساڈے نال کریندن پکے وعدے ایویں
جیویں کالے کاغذ اتے کالے حرف لکھیجن

فروری 2014ء میں وزیراعظم نواز شریف نے شاکر کے لیے ایک ملازمت، ماہانہ وظیفے اور ایک گھر کا اعلان کیا تھا۔

اس وعدے پر کبھی عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ بعد میں وزیراعلیٰ شہباز شریف نے ان کے لیے 25 ہزار روپے کے ماہوار وظیفے کا اعلان کیا، لیکن اس کی ادائیگی صرف ایک مرتبہ اس جنوری میں کی گئی۔

لفظ اور صوت کی تخلیق کے ساتھ ہی جذبوں کے اظہار کیلئے شاعری جیسا لطیف ترین ذریعہ بھی وجود میں آ گیا تھا ،جسے دنیا کی ہر قوم اور ہر زبان میں فروغ ملااور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

ان کی مقبولیت کے بڑھتے ہوئے گراف کے ساتھ ہی ان کی کتابوں کی فروخت میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ پبلشروں نے ان کی ایک درجن سے زیادہ کتابیں شایع کیں، لیکن شاذونادر ہی انہیں رائیلٹی کی ادائیگی کی گئی۔

سرائیکی وسیب کے یہ دلدادہ شاعر 2004ء میں وہ اسٹروک کا شکار ہوگئے، جس نے ان کی بات چیت اور جسمانی نقل و حرکت کو شدید متاثر کیا۔

لوگوں کا ابھی بھی شاعری اور شاعروں سے لگاؤ ہےاور یہ لگاؤ وقت کے ساتھ ختم نہیں ہوا۔ البتہ پڑھنے اور سننے کے میڈیم ضرور بدل گئے ہیں ۔ پرنٹ شدہ کتاب کے ساتھ اب برقی کتاب بھی پڑھی جاتی ہے۔ کہا جاسکتاہے کہ سوشل میڈیا نے شاعر اور شاعری کو اور بھی مقبول بنا دیا ہے۔

اساڈا ملک موضع ہے، تے نمبردار امریکا
ضمیراں دی اگاڑی کر کے چوکیدار ڈے آندے

ان کی شاعری کے کئی مجموعے چھپ چکے ہیں ان کی مقبول کتابوں میں لہو دا عرق، پیلے پتر، بلدین ہنجو، منافقاں تو خدا بچاوے، روسیں تو ڈھاڑیں مار مار کے اور گلاب سارے تمہیں مبارک،کلامِ شاکر ، خدا جانے ، شاکر دیاں غزلاں اور شاکر دے دوہڑے شامل ہیں۔

اشاعتی اداروں نے شاکر شجاع آبادی کے ان مجموعوں کو کئی عرصہ سے دوبارہ شائع نہیں کیا بلکہ شاکر سے جب بھی ملو تو معلوم ہوتا ہے کہ ان اشاعتی اداروں نے مجموعوں کی اشاعت کے بعد رائیلٹی کی مد میں پیسوں کی پوری ادائیگی بھی کبھی نہیں کی۔

شاکر شجاع آبادی کے کلام میں یہ شعر بہت مشہور ہوا؛

اے پیر جعلی تے نقلی ملاں ، منافقت دے پہاڑ سمجھو
شکل دے مومن، عمل دے کافر، دعا دے وچ دغا کریندن

دُنیا کا نامور سائنسدان سٹیفن ہاکنگ بالکل معذور ہے، نہ وہ بول سکتا ہے اور نہ ہی اُس کا جسم حرکت کرنے کے قابل ہے۔ لیکن امریکہ میں اُسے جدید ترین ٹیکنالوجی اور نامور معالجوں کی زیر نگرانی رکھا گیا ہے۔

ریاست نے جب سٹیفن ہاکنگ کو اپنایا، اُس کی صلاحیتوں کی قدر کی گئی تو وہ آج جدید سائنسی تحقیق میں حصے دار ہے اور شعبہ فزکس میں صف اول کا سائنسدان ثابت ہوا ہے۔ وہ معذور ہوا تو کیا ہوا لیکن اُسے ریاست نے دھتکارا نہیں بلکہ اُس کی حفاظت کی تب وہ جاکر سٹیفن ہاکنگ بنا ہے۔

شاکر کا یہ شعر بہت معنی خیز ہے؛

بہتر حور دے وچوں گزارا ہک تے کر گھنسوں
اکہتر حور دے بدلے اساکوں رج تے روٹی ڈے

شاکر شجاع آبادی ایک تو جنوبی پنجاب کے شاعر ہیں اور جس وسیب سے اُن کا تعلق ہے وہ پسماندہ ترین ہے۔ جنوبی پنجاب جو اپنی شناخت کے لیے کبھی کبھار سیاسی تحریک بھی چلاتا ہے آج یہاں کا بہترین شاعر کسمپرسی کا نہ صرف شکار ہے بلکہ ریاستی بے حسی کے آگے بے بس ہے۔

شاکر شجاع آبادی کی شاعری کا مجموعہ شائع کرنے کے لیے نیشنل بُک فاؤنڈیشن کو آگے بڑھنا ہوگا اور شاکر کی ارد گرد بکھری شاعری کو جمع کرکے اسے شائع کیا جانا چاہیے۔

شاکر کی شاعری میں انقلاب کی جھلک نظر آتی ہے، صرف یہی نہیں بلکہ اُن کی شاعری میں رومانویت بھی پڑھنے کو ملتی ہے۔شاکر نوجوان نسل کو سماجی و معاشی عدم مساوات کے خلاف ریاست کے حکمرانوں کو جھنجھوڑنے کے لیے آواز اُٹھانے کی ترغیب دیتا ہے۔

جے سچ آکھنڑ بغاوت ہےِ بغاوت ناں ہےِ شاکر دا
چڑھاؤ نیزے تے سر بھانویں میڈے خیمے جلا ڈیوؤ

مقالات ذات صلة

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا

الأكثر شهرة

احدث التعليقات