ہمارے ملک میں ایک خود ساختہ نظام ترتیب میں آ چکا ہے جس کے تمام تر کنکشن ماضی میں بھی پیٹرول کے ساتھ جڑے ملتے ہیں اور حال میں ہی بھی یہ چوتھی مرتبہ اضافہ ہے جو پیٹرول کے صورت میں عوام کے لیے وبال جان بن چکا ہے۔ جب بھی پیٹرول مہنگا ہوا ویسے ویسے خود ساختہ پرائز لسٹیں مارکیٹ میں بٹنا شروع ہو گئیں حکومت خواب سے بیدار ہی نہیں ہوتی کہ لوکل مارکیٹ میں سبزی سے لے کر چینی پتی گھی آٹا سب پر اضافے کیساتھ ساتھ فروخت شروع ہو جاتی ہے۔ یا ایسا بھی کہیں کہ اگر آپ ایک چھوٹی سی دو لائن کی خبر ٹی وی چینلز پر چلا دیں کہ پیٹرول کی قیمت ٢٥ روپے بڑھ گئی تو یقین کریں کہ ابھی نوٹی فکیشن آیا ہی نہیں ہوگا خالی سنی سنائی پر پیٹرول پمپ دوسرے منٹ میں ٢٥ روپے اضافے کیساتھ لوگوں کی کھال اتارنا شروع کر دیتے ہیں اور ٹرانسپورٹر کی تو کیا ہی بات ہے منڈی سے لے کر شہروں تک اور گاوں سے لے کر منڈی تک کرائے آسمان تک پہنچ جاتے ہیں جو آلو زمین سے چلتا ہے تب وہ ٥ سے ١٠ کلو کے درمیان ہوتا ہے تمام خرچ نکال کر مگر ٹرانسپورٹیشن منڈی اور ٹول پلازوں کیساتھ ساتھ پولیس کو نزرانے دینے کے بعد وہی آلو ٤٠ روپے کلو گھر تک پہنچتا ہے جب چین الٹی گھمائی جائے تو پتہ چلتا ہے تو سب الزام پیٹرول پر ڈال دیا جاتا ہے تو گویا اس وقت اگر ایسا کہا جائے تو کچھ غلط نا ہوگا کہ وازارت پیٹرولیم در حقیقت فرعون کا کردار ادا کر رہی ہے جب کہ پوری دنیا میں پیٹرول سستا ہوتا جا رہا ہے مگر ہمارے ملک میں صرف مخصوص ادارے کے مفاد کے لیے پیٹرول کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ مگر در حقیقت غریب پر ایک اور کمند ڈال دی جاتی ہے جو غریب پہلے سے غربت کی دھائیاں دے رہے ھیں جو پہلے سے آٹا چینی دالیں گھی چینی پتی کی قیمتیں آسمان پر پہنچنے پر فاقوں کے قریب ہوتے جا رہے ھیں ان پر مزید پیٹرول کی قیمتوں کی صورت میں مہنگائی کا بوجھ ڈالا جا رہا ہے اگر حکومت وقت اس بارے سنجیدگی سے نوٹس نہیں لے گی تو یہ گرانفروش اپنی من مانیوں کے انبار لگاتے رہیں گے جو چینی انہیں ٣٥ روپے کلو مل رہے ہے وہ ٨٠ روپے کلو تک فروخت کر رہے ھیں اور دودھ جو ٤٥ روپے کلو سے چلتا ہے تو غریب گھرانے تک دودھ ١٢٠ روپے کلو ہو جاتا ہے ۔۔۔ یہ تو صرف چند چیزیں ہیں جنہیں ہر گھر استعمال کرتا ہے اسی طرح آئل ، آٹا ، چینی ، دالیں سب کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں ۔۔۔ حکومتِ وقت ان معاملات کو سنجیدگی سے لے بصورت دیگر جب لوگوں کی قوت خرید سے اشیاء نکل جائیں گیں تو لوگ سڑکوں پر نکلیں گیں اور فریاد کریں گے جب ان کی فریاد نہیں سنی جائے گی تو وہ اپنے حق کے لیے انہیں جو جائز لگے گا وہ کریں گے۔ ایک طرف تو مہنگائی کا نا روکنے والا ریلا غریبوں کے گھروں کو روندتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے دوسری طرف پرائیویٹ ہو جانے والے کے الیکٹرک جیسے ادارے بل کی مد میں لوگوں کو لوٹ رہے ھیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جنگل کا قانون چلا ہے کہ جس کے جو ہاتھ لگ رہا ہے وہ لوٹ رہا ہے چاہے اس میں پولیس ہو ٹریفک کانسٹیبل ہوں یا وکلاء اور ڈاکٹر صاحبان ہوں تمام لوگوں نے اپنی اپنی چھریاں تیز کر رکھی ہیں ایسے خیراتی ہسپتال جہاں لوگوں سے صرف ١٠ روپے پرچی لی جاتی تھی اب وہ خیراتی ادارے ١٠٠ روپے او پی ڈی کے لیے رہے ہیں ، اور لوگ ہیں کہ آنکھیں بند کر کے ان کو نوازتے جا رہے ھیں مصطفی ویلفیئر ٹرسٹ کے نام سے کراچی میں سرگرم ہسپتال دن رات ١٠ روپے ویلفیئر پرچی سے چلنے والا اب آج کل ہر علاقے میں ١٠٠ روپے فی پرچی وصول کر رہا ہے مگر ہپستالوں ، سکولوں ، تھانوں کے نام پر کمائی کے اڈروں کا کوئی انسپکشن نہیں ہو رہا اس طرف کسی کی سوچ نہیں جاتی اگر جاتی بھی ہے تو اس کو چھیڑا اس لیے نہیں جاتا کہ کس کس کو باہر نکالیں شجرے جڑے ہیں ان تمام اداروں سے نیچے سے اوپر تک کمائیوں کا سلسلہ ہے، سہولت پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم کر دی جاتی ہے کراچی میں بچت بازار لگتے تھے گزشتہ جمعرات کو لگنے والے غریب محنت مزدوری کرنیوالے ریڑھی والے نوجوانوں پر مقامی پولیس کا اندھا دھند لاٹھی چارچ اور تشدد سمجھ سے باہر ہے کس کو ختم کرنے کے در پر ہے حکومت یا اب تک کیوں لا علم ہے حکومت ایسے معاملات ان تک کیوں نہیں پہنچتے ؟ کیوں کسی غریب کی آہ ایوانوں میں بیٹھے لوگوں تک کیوں نہیں پہنچتی کیا ایوان کی دیواریں اتنی بلند ہو گئی ہیں کہ ایک غریب سسک سسک کر مر جائے مگر اس کی صدا تک کوئی نا سنے؟ خدارا ووٹ دینے والے غریب اور مستحق خاندانوں کو بخش دیا جائے ان کے لیے کچھ سوچا جائے ہمیشہ سے قربانیاں غریبوں کے حصے میں آتی ہیں احتساب ہو کسی سے ریکوری ہو قرض کی ادائیگی ہو یا ڈیم بنانے کا سلسلہ ہو قربانیاں عوام ہی دیتے آئے ہیں اور اب بھی انہیں کا خون نچوڑا جا رہا ہے پیٹرول کی قیمتوں میں مسلسل چوتھی مرتبہ اضافہ غریبوں کے تابوت میں ایک اور کیل کی مانند ہے ، عوام بہت سے معاملات سے بے خبر ھی رہنا چاہتے ہیں انہیں کوئی غرض نہیں کہ ریکوری ہوئی یا نہیں ہوئی انڈسٹری ٹیکس ادا کر رہی ہے یا نہیں عوام صرف یہ جانتی ہے کو وہ صبح سے شام تک ٹیکس بھی ادا کرتی ہے اور گرانفروشوں کے ہاتھوں میں بلیک میل بھی ہو رہی ہے اب تو نوبت ہر گھنٹے بعد قیمت بڑھنے تک پہنچ چکی ہے کیا کوئی ایسا ادارہ ہے جو غریبوں کو ان کے زندہ رہنے کی بنیادی اشیاء مہیا کر سکے؟ غریب ایک طرف تو کرائے کے گھروں ، یوٹیلیٹی بلوں ، سکول مافیا کے ہاتھ چڑھے ہیں دوسری طرف بچوں کو دو وقت کی روٹی کھالنے کے لیے ٨ گھنٹے سے ١٨ گھنٹے کام کر رہے ہیں مگر پھر بھی پوری نہیں ہو رہی اس بارے میں سنجیدگی سے سوچا جائے اور ذمہ دار اداروں کو عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے ہر گلی میں لوٹنے والے دوکانداروں ، کارخانہ ، سپلائرز ، ھول سیلرز پر لگام ڈالی جائے اور قیمتیں چیک کی جائیں کہ آخر کیوں جو قیمت احکام اعلی کی نظر سے گزرتی ہیں وہ غریب گھرانے تک پہنچے پہنچے دو سو فیصد مہنگی کیسی ہو جاتی ہیں؟ہمارے ہاں ایک اور اہم مسئلہ بڑھتی ہوئی بیروزگاری بھی ہے اور اس کی اصل وجہ مخصوص خاندانوں اور مخصوص لوگوں کی سرکاری ملازمتوں پر برا جمان ہونا ہے کیونکہ عام طبقے کے لوگ سرکاری ملازمت کا تصور بھی نہیں کر سکتے حکومت کی طرف سے فراہم کردہ سرکاری نوکریوں کا فائدہ ان مخصوص لوگوں کو پہنچتا ہے خواہ وہ پرانا پاکستان ہو یا نیا پاکستان ملک کے چلانے والوں کے صرف چہرے بدل جاتے ہیں طریقہ کار نہیں سرکاری نوکریوں میں اپنوں کو نوازا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ بیروزگاری کا مسئلہ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتا جا رہا ہے اور حکومت وقت اگر نرخوں میں اضافے کے پیش نظر عوام کو ریلیف دیتے ہیں تو وہ صرف سرکاری ملازمین تک محدود ہوتے ہیں کیونکہ شرح مہنگائی کے تناسب سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جاتا ہے اور اس پر اکتفا کر دیتے ہیں حالانکہ سرکاری ملازمین کو جو ریلیف ملتی ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن وہ لوگ کیا کریں گے جو سرکاری ملازم نہیں بلکہ حالات نے ان کو بیروزگاری کے دلدل میں دھکیل دیتے ہیں اور ایسے لوگوں کی تعداد سرکاری ملازمین سے ، کئی زیادہ ہے روزمرہ اشیاء کے نرخوں میں اضافے کا براہ راست اثر عام لوگوں پر پڑتا ہےاگر گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو پھر شرح کرایہ میں اضافہ ہوتاہے اور اس کے ساتھ دیگر معمولات زندگی بھی متاثر ہوتی ہے تاہم شرح بیروزگاری میں اضافہ خطرناک حد تک بڑھنے سے مزدورطبقہ بھی شدید پریشانی ہیں اور لوگ بیروزگار ی کیوجہ سے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں لیکن اس حوالے سے حکمرانوں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری بطریق احسن ادا کرتے ہیں یا نہیں آج ہمارے ہاں لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ بیروزگاری اور مہنگائی ہے اور عوام کو اس سے نجات دلانے کیلئے حکومت کے ساتھ کونسا پروگرام ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکمرانوں کے ساتھ بیروزگاری اور مہنگائی کے آگے بندھ باندھنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے کہ حکومت کی طرف سے شرح مہنگائی میں تسلسل کے ساتھ اضافے نے لوگوں سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے اور آج بڑھتی ہوئی مہنگائی نے لوگوں کو زندہ درگور کر رکھا ہے تحریک انصاف سے لوگوں نے کافی توقعات وابستہ کر رکھے ہیں اب آگے دیکھنا ہے کہ مستقبل میں عوام کے ساتھ کونسا کھیل کھیلاجارہا ہے ضرورت اس امر کی کہ حکومت عوام کو ہرشعبہ میں ریلیف دینے کیلئے وہ تمام اقدامات اُٹھائے جو ان مسائل کے حل میں مفید ثابت ہو سکے ۔ اگر بیروزگاری کو ختم کرنے کیلئے سنجیدگی سے اقدامات اُٹھائے جائے تو حکومت بڑھتی ہوئی بیروگاری کو قابو کر سکتی ہے لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کیلئے سرمایہ کاروں کو ارزاں نرخوں پر بجلی فراہم کی جائے تاکہ ملک کے کونے کونے میں فیکٹریاں اور کمپنیاں قائم ہو سکے اور حالات کیوجہ سے جو گاڑی رک گئی ہے تو ان کو رواں کیا جا سکے
تحریر: فیصل شہزاد چغتائی