وزیر اعظم کا عوام کو ریلیف پیکج دینے کے لیے یوٹیلٹی اسٹوروں کو ١٥ ارب دینا عوام کے گلے پڑ جائے گا

وزیر اعظم کا عوام کو ریلیف پیکج دینے کے لیے یوٹیلٹی اسٹوروں کو ١٥ ارب دینا عوام کے گلے پڑ جائے گا

وزیر اعظم کا عوام کو ریلیف پیکج دینے کے لیے یوٹیلٹی اسٹوروں کو ١٥ ارب دینا عوام کے گلے پڑ جائے گا

ازقلم ۔ فیصل شہزاد چغتائی
 
وزیر اعظم کا عوام کو ریلیف پیکج دینے کے لیے یوٹیلٹی اسٹوروں کو ١٥ ارب دینا عوام کے گلےک پڑ جائے گا۔و چیزیں سستی اور راشن دینے کے لیے ١٥ ارب کی خطیر رقم یوٹیلیٹی اسٹور کو دینے کے بارے کا اعلان بیشک احسن ضرور ہے مگر اس کے پس منظر پر یہ یوٹیلٹی اسٹور اربوں پتی بن جائیں گے مگر اس پیکج سے عوام کو ریلیف نہ ملے گا، وزیر اعظم عوام کے لیے درد رکھتے ھیں اور ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو عام مارکیٹوں میں گرانفرش ، ناجائز منافع خوروں کیخلاف آپریشن شروع کیے جائیں کیونکہ ١٥ ارب کی رقم سے یوٹیلٹی اسٹور نے جس طرح ماضی میں ناقص گندم اور ناقص چینی لوگوں میں سستے کے نام پر فروخت کی آج بھی اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے صرف ایک آیٹم چینی کو ھی دیکھ لیں جو مارکیٹ سے چینی خرید کر استعمال کرینگے اس کا معیار کچھ اور ہے اور اس میں مٹھاس ہے مگر جو یوٹیلیٹی اسٹور پر دستیاب چینی ہے اس کے آپ ٣ سے ٤ چمچے بھی چائے کی پیالی میں ڈال لیں چائے میٹھی ہونے کا نام ہی نہیں لیتے اور آٹے کا معیار بہت ھی خراب ھے اس کی روٹی گویا پلاسٹک کے شاپر کھانے جیسی ہے ایسے آٹے سے ہوٹلوں پر نان بنا کر تو بیچے جا سکتے ہیں مگر غریب کھانے سے کاسر ہیں ۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلی سندھ کو از سر نو کراچی جیسے بڑے شہروں ، لاہور ، اسلام آباد ، بہاول پور ، رحیم یار خان ، ڈیرہ غازیخان ، ملتان فیصل آباد میں بلاتفریق آپریشن کروانا چاھیئے آخیر کیسے ٤٠ روپے کی چینی مارکیٹ میں ٧٠ سے ٨٠ روپے کی فروخت ہو رہی ہے چکی پر فروخت ہونے والا آٹا ٤٦٠ روپے دس کلو سے بڑھ کر ٦٨٠ روپے دس کلو کیسے ہو گیا ہے؟ کون لوگ ہیں جو گلیوں محلوں بازاروں میں بیٹھ کر پی ٹی آئی کے نام پر لوٹ رہے ہیں لوگوں کو چاول ٦٠ روپے کلو والے کو ١٢٠ روپے کلو کر دیا گیا اب جب کہ آئل کی عالمی منڈی میں قیمت کم ہوئی ہے مگر پاکستان میں قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے ١٦٠ روپے لیٹر ملنے والا کھانے کا تیل اب ٢٤٠ روپے میں مل رہا ہے۔ سبزیاں مرغی ، مچھلی ، اور گوشت جیسی ہو گئی ہیں ، ایک عام آدمی جو ہفتے میں ایک آدھا دن یا کبھی مہمانوں کے آنے پر گوشت پکا کر دعوت کر دیتا تھا آب ان پیسوں میں صرف سبزی پکا کر کھا سکتا ہے۔ کیا اتنا طاقتور مافیا ہے جو حکومت کی ناک کے نیچے ھر دن نئی قیمت چیزوں کی متعارف کروا دیتا ہے ہر دن دالیں ، چینی ، گندم ، دلیہ ، گُڑ ایسی عام روز مرہ کی استعمال ہونے والی چیزیں مثال کے طور پر دہی ، دودھ ایسی نعمتوں کو غریبوں کے خرید سے باہر کر دیا گیا ہے کیونکہ یہ وہ عناصر ہیں جو “میں نا مانوں” کی پالیسی پر عملدرآمد کر رہے ہیں، کوئی جئے مرے انہیں کوئی اختیار نہیں ان کو منافع ١٠٠ پر ١٠٠ ملنا چاہئے ورنہ ان کی پوری نہیں ہوتی اور نہ ہی کبھی ہونی ہے دنیا میں کتنے چور ڈکیت ہیں چوریاں کرتے ہیں ڈکیتیاں مارتے ہیں مگر ساری زندگی ان کا یہی کام رہتا ہے کبھی کسی کو خوشحال ہوتے نہیں دیکھا، اسی طرح یہ مافیہ سرگرم عمل ہے پورے پاکستان کی گلی گلی محلوں شہروں ، دیہاتوں غرض یہ کہ ہر جگہ پر اپنا نیٹ ورک بنا چکا ہے جو چیز سستی ملتی ہے اسے اسٹاک کر لیا جاتا ہے اور اس چیز کو قلت پڑنے پر ١٠ روپےو الی چیز ١٢٠ اور ١٣٠ اور کبھی تو ١٨٠ روپے کلو کے حساب سے فروخت کیا جاتا ہے، جو آئٹم مارکیٹ میں نظر میں آ جائے تو اس دوران دوسری پراڈکٹ کو اسٹاک کر لیا جاتا ہے یہی حساب گندم کا ہے جو اسٹاک کر لی گئی ہے اور صرف ان کو فروخت کی جا رہی ہے جو آگے مہنگی فروخت کریں۔ وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ مزید عوام کو قرضوں کے بوجھ تلے نہ ڈالیں وہ اس ریلیف کی رقم سے منافع خوروں کا خاتمہ کریں ایسے بھیڑوں کو نکالیں اور پاک کریں جس طرح پولیس کا قبلہ درست سمت کیا جا رہا ہے اب ایسے عناصر کو لگام ڈالنا وقت کی ضرورت بن چکا ہے اس وقت اگر عمران خان صاحب تمام وزراء کو ھدایت کرتے کہ ہر گلی کوچے میں ناجائز منافع خور کے گرد گرفت کا دائرہ تنگ کیا جائے اور پکڑ دھکڑ شروع کی جائے تو یقینا تمام چیزیں اپنی اصلی حالت اور قیتم میں آ جائیں گیں۔ جائز منافع جو کہ ٥ سے ١٠ فیصد بنتا ہے وہ ضرور لیں مگر منافع سے بڑھ کر منافع کمانے کی خواھش میں غریبوں کو موت کی طرف نا دھکیلا جائے غریب تو پہلے ہی مر رہے ہیں تنخواہ ، مزدوری جوں کی توں ہے اور اخراجات ١٠٠ فیصد سے ٢٠٠ فیصد بڑھ چکے ہیں۔ حکومت اگر کچی نیک کام کرنے کی خواہش رکھتی بھی ہے تو ١٥ ارب کی رقم سے ایسے گھرانوں کو ریلیف دیا جائے جو فاقوں کے قریب ہیں انہیں مستقل روزگار مہیا کیا جائے نا کہ آٹا چینی دالیں یا راشن دے کر انہیں فقیر بنایا جائے ، قوم میں کام کی عادت ڈالنے اور ذمہ داری کا احساس دلانے سے معاشرہ بہتری کی طرف آ سکتا ہے جو لوگ اپنے کاروبار کرنے کی حیثیت نہیں رکھتے انہیں مائیکروبزنس شروع کروا کر دیئے جائیں اور ان کی مانیٹرنگ کی جائے کہ وہ واقعی ھی اس کاروبار پر توجہ دے اور اس کی کمائی سے اپنے بچوں کو اعلی تعلیم اور معیاری زندگی کا رہن سہن دے۔
 
خدارا مزید کالی بھیڑوں کو نوازنے سے احتیاط برتا اور ہر مارکیٹ دکان اور ریڑھیوں پر فروخت ہونیوالے ناقص اشیاء اور ناجائز منافع خوری کرنیوالوں کیخلاف کارروائی عمل میں لائے جائے تاکہ گرانفروشی کرنیوالے مافیا کا قبلہ درست ہو اور وہ جائزہ منافع رکھتے ہوئے لوگوں کو اشیاء روزمرہ کی فروخت ممکن بنائیں۔ دوسرے سمت میڈیکل کمپنیاں ، ملٹی نیشنل کمپنیاں جو آے روز ادویات مارکیٹ سے شارٹ کر کے اس کی ری لیبلنگ کرنے میں مصروف ھیں اور قیمتیں مٹا کر نئی قیمتوں میں ٣٠ سے ٤٠ فیصد اضافہ کر کے مارکیٹ میں ری سیل کر رہے ہیں ایسے عناصر کے خلاف کارروائی عمل میں لائے جائے۔ عوام کی جان سے صبح سے شام تک ٹیکس مختلف طریقوں سے نکل رہا ہے عوام کا حال اس گنے جیسے ہے جیسے بار بار گنے کی مشین میں گھسایا جاتا ہے اور اس کا رس نکالا جاتا ہے جب تک وہ پھوپس نہیں ہوجاتا جب وہ پھپوپھس ہوجاتا ہے تو سوکھ جانے کے بعد اسے جلا کر اس سے آگ بنائی جاتی ہے ۔ خدارا غریبوں کے حالات پر حقیقی معنوں میں رحیم کھایا جائے اور مزاق سے ھٹ کر حقیقی معنوں میں کچھ کیا جائے ۔ اب تک جو اسکیمیں متعارف ہوئیں وہ غریب عوام کے لیے صرف ایک خواب رہیں اور غریب کی نظر سے دیکھا جائے جو صحت کارڈ ہے ، اپنا گھر اسکیم ہے وہ ابھی تک کسی غریب گھرانے تک نہیں پہنچے ۔۔۔ غریب کی نظر میں تو اب تک اندھا بانٹے ریوڑیاں بار بار اپنوں کو والی مثال ہے۔ وزیر اعظم کا ریلیف پیکج وزیر اعظم کے گلے پڑ جائے گا کیونکہ اس رقم سے غریب عوام میں بیماریاں تقسیم ہونگی اور جب غریب بیمار ہونگے تو ان کی صحت پر لاکھوں کروڑوں دوائیوں کی مد میں خرچ ہونگے۔ معاشرے کو ترتیب مین لے کر آتے جائیں اور ناقص معاشرے کے فرد کو ایک حصار میں لے کر انہیں سدھارا جائے جو نا سدھرے اسے کم از کم جیل ، تھانوں کی بھرت کی جائے تو یقینا مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *