صوبہ اگر لسانیت ہیں تو آئیں تمام صوبے ختم کر کے ایک پاکستان بناتے ہیں
تحریر فیصل شہزاد چغتائی
٧١ سال کی مسافت ٤ صوبوں کیساتھ طے کی اب مزید ٣ صوبے پاکستان کی ترقی کے لیے ناگزیر ہیں تاکہ ہمارا ملک پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو اور حقوق تمام صوبوں میں یکساں تقسیم ہوں ۔ جو لوگ یہ سوچ رکھتے ہیں کہ صوبوں کو توڑا جا رہا ہے تو ایسا ہرگز نہیں، جس وقت ریاست بہاول پور کو صوبہ بنایا جانا تھا تب صوبہ بلوچستان بنا دیا گیا اور سرائیکی خطے کے کچھ شہر بلوچستان اور کچھ سندھ اور ٧٠ فیصد حصہ پنجاب میں ملا دیا گیا۔ یہ اس خطے پر رہنے والی سادہ لوح عوام کے حق پر ایک بڑی ڈکیتی تھی۔ لوگوں کو تو پتہ ہی نا لگا کیا ان کیساتھ کیا ہو گیا۔ فلسطین کی طرح سرائیکی خطے کے لوگوں کو مجبور کیا گیا اور ان کی زمینیں اونے پونے لی گئیں اور آج سرائیکی خطے کے لوگوں کی زمینوں پر پنجابی آبادکاریاں ہو چکے ہیں، فرضی مردم شماریوں میں سرائیکیوں کی زبان کو پنجابی زبان لکھ کر دنیا کی بڑی زبانوں میں پنجابی کا شمار کیا گیا ، صوفیاء کرام ، بزرگوں جو سرائیکی زبان کا پرچار کرتے اس دنیا سے چلے گئے ان تمام کو پنجابی لکھا اور کہا گیا، سرائیکی ثقافت تہذیب کو پنجابی تہذیب کے نام سے متعارف کروایا گیا اور ویکی پیڈیا جیسی نام نہاد ویب سائٹ کے ذریعے پوری دنیا میں سرائیکی کو پنجابی زبان کا لہجہ لکھا گیا، ایسی سینکڑوں زیادتیاں آج بھی ٹیکنالوجی کے کسی بھی سرچ انجن میں تلاش کریں تو ملیں گیں۔ اب اگر سرائیکی خطے کے لوگ اپنے حقوق کی جدوجہد کریں تو انہیں باغی اور مسلمان کے فتوی دینا شروع کر دیئے جاتے ہیں ۔ بات پاکستان کی ترقی کی ہے ستر سال پہلے جو آبادی تھی اس کے حساب سے چار صوبے بہت تھے مگر اب ہزارا ، سرائیکستان ، کراچی صوبہ وقت کی ضرورت ہیں۔ تاکہ حقوق کی منصفانہ تقسیم ہو اور ملک تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ رہی بات صوبہ توڑنے یا تقسیم کی ایک بات تو ذھن نشین کر لی جائے کہ یہ نئے صوبے اگر بنتے ہیں تو ان کا تعلق پاکستان سے ہوگا جو وفاق کے ماتحت صوبائی نظام ہوگا، اس میں بھی ہر قوم نسلم رنگ و زبان کو رہنے کا اتنا حق ہوگا جتنا کہ مقامی لوگوں کو، اور تمام قومیں اپنی زندگی کا سلسلہ کر سکیں گیں۔ نہ کسی صوبے کا تعلق بنگلہ دیش سے ہوگا ، نہ بھارت سے اور نا افغانستان و ایران سے ، یہ تمام صوبے وفاق کے ماتحت کام کریں گے اور پاکستان کی ترقی میں مددگار ثابت ہونگے ، صوبائی نظام سے زیر التواء ترقیاتی کام فنڈ صحیح جگہ پر بروقت استعمال ہونگے اور روزگار بڑھے گا اور ترقی کی طرف ٧٠ سال سے نظر انداز کیئے جانیوالے شہر بھی خوشحالی کی طرف آئیں گے۔
دوسری سمت راگ الاپا جا رہا ہے کہ لسانیت ہے یہ لسانی صوبے ہیں تو محترم احباب جتنے صوبے اس وقت پاکستان میں وجود رکھتے ہیں پنجاب ، خیبرپختونخواہ، سندھ ، بلوچستان یہ تمام نام بھی لسانی ہیں اور یہ حق رکھتے ہیں جس طرح اگر کسی سڑک کام شاہراہ جناح رکھ دیا جائے تو اس مطلب یہ نہیں کہ تعصب ہے نسبت رکھنے والے لوگ باخوبی سمجھتے ہیں کہ نسبت کیا چیز ہوتی ہے جس خطے میں یا شہروں میں اکثریت قوم جو زبان ثقافت و رنگ و زبان رکھتی ہے وہ خطے اس کی نسبت سے پہچان رکھتا ہے ، نیو صادق کالونی ، مطلب نواب صادق سے ملحقہ زمین پر آباد ہونیوالی کالونی ۔ جیلان ، گیلان، اجمیر ، کشمیر ، جو کہ بعد میں اس جگہ کے رہنے والے لوگ بالترتیب جیلانی ، گیلانی ، اجمیری ، کشمیری ، اور اب ملتان ملتانی ، بہاول پور بہاولپور اور احمد پور کے لوگ احمد پوری کہلاتے ہیں ، ٹھیک اسی طرح جس طرح لاہور کے لوگ لاہوری، فیصل آباد کے لوگ فیصل آبادی ۔۔۔ یہ تمام نام صرف ایک تعلق کی طرح ہیں تاکہ تعارف میں کام آ سکیں۔ آپ کا تعلق کسی بھی شہر سے ہے تو اس شہر کا نام آپ کو اس ملک سے اور ملک کا نام دنیا سے جوڑے رکھتا ہے۔
زبان یا تعصب ۔۔۔ زبان اگر پروفیشنل نظریے سے دیکھا جائے تو جس سیلز مین تاجر کو زیادہ سے زیادہ زبانوں پر عبور حاصل ہوتا ہے وہ ایک اچھا بزنس مین بن جاتا ہے ۔۔کیوں؟ اس لئے کہ وہ اپنی بات اور اپنی چیزوں کی فروخت ان کی زبان میں کرتا ہے اور علاقے میں بولے جانے والی اکثریتی زبان چاہے پنجابی ہو ، سرائیکی ہو ، اردو ہو ، سندھی ہو ، بلوچکی ہو یا دیگر کوئی زبان ہو اس خطے سے جڑے لوگوں سے جب ان کی اپنی زبان میں بات کی جاتی ہے تو وہ بہتر انداز میں جلد سمجھ جاتے ہیں اس میں تعصب نام کی کوئی چیز نہیں یہ ایک سلسلہ ہے آپ جتنی زبانیں بولتے ہیں اتنا زیادہ آپ مقبول ہونگے زبان صرف ایک دوسرے کو اپنے بات سمجھانے کے لیے ہوتی ہے۔ گیم اب اس طرح سے شروع ہوا کہ ایک زبان دوسری زبان کو ہڑپ کرنے کے لیے ٧٠ سال سے جدوجہد کر رہی ہے ہجرت کر کے آنیوالے جغرافیائی طور پر جگہ جگہ کا پانی پی کر ان کی زبانیں سیکھ کر اب ان پر اپنی زبان مسلط کرنے کا دعوی کر رہے ہیں جیسا کہ حال کی مثال سرائیکی زبان کو پنجاب ٹیکسٹ بورڈ نے پنجابی زبان کا لہجہ قرار دیا ، سرائیکی ٧٢ فونٹک ساونڈز رکھنے والی مکمل زبان ہے۔ موجودہ اردو زبان کا وجود بھی در حقیقت سرائیکی زبان کی مرحون منت ہے ، یا ماڈرن سرائیکی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ زیادتیاں کی جا رہی ہیں حق تلفیاں ہو رہی ہیں۔۔۔ زبان کیساتھ ساتھ ، ثقافت کو بھی مٹایا جا رہا ہے تاریخ کو کچھ سے کچھ کر دیا گیا ہے ، پنج آب مطلب پانچ دریاوں کے درمیانی آباد شہروں کی بات تھی جس میں آ کو ا لکھا گیا ، اور ملا دیا مطلب پنجاب بن گیا، اس کے بعد ویسٹرن پنجاب کی بجائے ویسٹرن پنجابی لکھنے شروع کیا ۔ یہ کسی ایک فرد کا کام نہیں یہ ایک گروہ ہے جو نصف صدی سے کام کر رہا ہے گزشتہ ہونیوالی مردم شماریوں میں جس طرح سرائیکیوں کو پنجابی لکھا گیا یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ، کسی کو زبان کے انتخاب کا حق نہیں دیا گیا ، مردم شماری کچی پینسل سے کی گئی اور نتیجہ یہی نکلا کہ پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کا درجہ پنجابی رکھتی ہے ۔
٨ کروڑ کی آبادی پر مشتمل سرائیکی قوم بنگالی زبان نہیں بولتی اتنا تو سمجھنا چاہئے ظاہر سی بات ہے اتنی آبادی پر مشتمل قوم پاکستان کی آبادی میں بڑا وجود رکھتی ہے جب وجود ٨ کروڑ کے لگھ بھگ ہے تو مردم شماری میں سرائیکی بولنے والے چند لاکھوں میں کیسے ممکن ہے ؟ کیا اتنی بڑی قوم انگریز بن گئی ، سندھی بن گئی نہیں اتنی بڑی قوم پر لیبلنگ کی گئی ، ماسکنگ کی گئی مطلب ان سب پر لیبل پنجابی لگا دیا گیا اورپورا ملک خاموش تماشائی رہا۔ بلوچستان میں رہنے والوں کے پاس اپنا صوبہ ، سندھ میں رہنے والوں کے پاس اپنا صوبہ، پنجاب میں رہنے والوں کے پاس اپنا صوبہ ، خیبرپختونخواہ رہنے والوں کےپاس اپنا صوبہ کون اور کیوں آواز اٹھاتا ۔۔۔ آواز گھر میں بھی وہ اٹھاتا ہے جیسے روٹی نہیں ملتی۔۔۔ سرائیکی خطہ جو کہ ٢٣ اضلاع پر اپنا وجود رکھتا ہے کو سوتیلے بیٹے جیسا سمجھا گیا اور روٹی نہیں ملی بھوک سے کب تک برداشت کر سکتا ہے کوئی آخیر بولے گا کہ مجھے روٹی دو ۔۔۔ ایک طرف تو پنجابی زبان کا لہجہ کہنے کے لیے پنجابی پہل پہل ہیں دوسری طرف سرائیکیوں کی ثقافت ، زبان اور اس خطے سے جڑے ہر فرد سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں ۔۔۔ کیونکر؟اس لیے جو ورثے میں ملا بس بغیر سوچ و سمجھ کے وہ کرتے چلے آنا ہے یہ نہیں دیکھنا کہ کس نے اپنے اس خطے پر آپ کے خاندانوں کو ویلکم کہا۔۔۔ کس نے اپنی زمینوں جانوروں سے مدد کی اور آباد کیا ۔
سادہ سی بات صرف اتنی ہے کہ حق تلفیاں ہو رہی ہیں ہر جمہوری دور میں سیاست دان آئے اور اپنا اپنا الو سیدھا کیا اور چلتے بنے اور سرائیکی خطہ آج تک اپنی محرومیوں کو رونا رو رہا ہے آج بھی بہت سے شہر ترقی اور حق کیا ہوتا ہے اس سے بھی محروم ہیں ۔ آج بھی لوگ بجلی ، گیس اور پانی ملنے پر ڈھول بجا کر خوشیاں مناتے ہیں ۔ ٢٠٢٠ میں جب لوگ چاند سے اوپر کی سوچ رکھتے ہیں ٹیکنالوجی کی فراوانی ہے آج بھی سرائیکی خطے کے لوگوں میں بچوں کے سکول جانے کے لیے نہروں پر بل نہیں میلوں پیدل چل کر سکول جاتے ہیں ، سکولوں میں ایک یا دو استاد دو سو تین سو بچوں کو پڑھا رہے ہیں ، بہت سے سکول تو ایسے ہیں جہاں جانور رہائش پذیر ہیں اور کچھ سکولوں کی زمینوں پر تو فصلیں کاشت ہو چکی ہیں ۔ یہی حساب کھیل کے میدانوں کا ہے جہاں مارکیٹیں ، پلازے اور دیگران کے قبضے ہو چکے ہیں ۔ تفریحی مقامات ناپید ہو چکے ہیں ، بچوں کے پاس نہ تعلیم ہے اور نہ کھیلنے کی جگہ۔۔ اور ہسپتال کا تو حال ہی مت پوچھا جائے یہاں ہسپتال تو دور ڈسپنسریاں بھی نہیں ہیں لوگ کچھ روز مرہ کی دوائی دکانوں پر رکھ کر بیچتے ہیں ۔ سرائیکی خطہ زراعت سے وابستہ ہے مگر نہری پانی کی تقسیم میں منصفانہ رویہ نہیں صرف ان زمینوں کو سیراب کیا جاتا ہے جہاں پنجابی آبادکاری یا زمین لگتی ہو۔ یہ یکطرفہ کارروائیاں ہیں جو اس خطے کیساتھ گزشتہ نصف صدی سے چل رہی ہیں اور جو آواز اٹھائے اسے پنجابیت کے مرکز تھانے مطلب بادشاہت قائم رکھنے والے ادارے غائب کر دیتے ہیں یا ایسی کیسوں میں پھنسا دیتے ہیں کہ اس کی زندگی پیشیاں بھگتنے پر گزر جائے پر زمین واپس نہ ملے۔
ہمارا مقصد صرف ملک کی ترقی ہے اور سرداری ، جاگیردارانہ اور فرسودہ نظام سے چھٹکارا ہے ، ہمارا خطہ سلاسل میں ہے ، وڈیروں ، سرداروں ، زمینداروں کی جاگیر بنا ہوا ہے جب جس کو چاہا اٹھا لیا جس کے ساتھ چاہا زیادتی کر دی اور اس کے نوکر کو بھی مراعات دی جاتی ہیں کہ یہ فلاں بن فلاں کا بندہ ہے ، اسے ہمارا نظام پولیس محکمہ کے ذریعے مراعات دے رہا ہے ۔ ایسے غیور عوام جن کو تشدد فرسودہ نظام اور چھوٹی چھوٹی بادشاہتوں میں بلی چڑھا دیا جاتا ہے اس کے لیے ہماری جدوجہد ہے ہمارا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ صوبہ سرائیکستان بنے اور اس میں صرف سرائیکی رہیں ایسا ہرگز نہیں یہ صرف علاقائی نسبت ہے مگر جس طرح ہر صوبے میں سرائیکی وجود رکھتے ہیں اسی طرح ہر قوم اختیار رکھتی ہے کہ وہ اس صوبے میں اپنی نسل کی آبیاری کرے۔ ہم محبتوں اور احساس رکھنے والے قوم ہیں ہر قوم کی تہذہب ، ثقافت و زبان کا احترام کرتے اور محبت سے بولتے ہیں پر افسوس بدلے میں ہمیں کیا ملتا ہے یہ آپ سب بہتر جانتے ہیں۔ اگر آپ کو صوبہ سرائیکستان لسانیت تعصب اب بھی لگتا ہے تو آئیں ہم سب ملکر تمام صوبے ختم کر دیتے ہیں ایک پاکستان اور ایک پاکستانی ہونے کا ثبوت دیتے ہیں تاکہ یہ لسانیت ہی جڑ سے باہر پھینکی جائے اور ہم صرف پاکستان ہوں۔