جب حکومتِ وقت عوام کو ریلیف دے ہی نہیں سکتی تو کوئی وعدہ وعید بھی نہ کرے
تحریر۔ فیصل شہزاد چغتائی
سندھ میں مزدوروں کو ریلیف دینا ، گھروں تک راشن کو ردوبدل کر کے کھانا اور پھر رقم پہنچانا، اس کے بعد ٣ ارب کا ریلیف پیکج متعارف کروانا بعد میں وزیر اعلی سندھ کا کہنا کہ صوبے کے ایسے حالات نہیں کہ وہ ریلیف پیکج نکال سکے۔ بجلی کے بلوں نہ لینا، اور تمام پانچ ہزار تک کے بلوں کو رد بدل کر کے دو ھزار تک لانا اور پھر ایک دم سے ایک بیان جاری کرنا کہ عوام قسطوں میں بل ادا کر سکتی ہے تو یہ صرف غریب تو غریب ایسے سفید پوش گھروانوں کی عزت نفس سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ چائنہ سے جو کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے جو امداد ملی اسے صرف ایک ھسپتال تک محدود کر دینا اور فیس ٩ سے ١٠ ھزار کر دینا تو یہ کونسی دنیا کا ریلیف ہے ۔ معذرت کیساتھ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت پچھلے ڈیڑھ ماہ سے آدھی سے بھی کم رہ گئی ہے مگر پاکستان میں اب بھی پیٹرول میں ١٠ فیصد تک کمی نہیں لائی جا سکی ابھی تک عوام کو سرعام لوٹا جا رہا ہے جو پیٹرول عالمی منڈی کے حساب سے ٣٥ سے ٤٥ روپے لیٹر ہونا چاہئے وہ آج بھی ١٠٠ سے اوپر فروخت ہو رہا ہے۔ پولیس سرعام موٹر وے ، سپر ھائی وے اور بڑی شاہراوں پر بسوں سے بھتہ وصول کر رہی ہے بسوں کو لوٹا جا رہا ہے گاڑیوں کو مختلف سڑکوں پر ناکے لگا کر ڈکیتیاں ہو رہی ہیں۔
ایک ھی دن میں دس سے بارہ بسوں کو پنجاب میں لوٹا جا رہا ہے اور ڈیم کی طرز پر وزیر اعلی پنجاب نے پیسے کٹھے کرنے کی اینٹ رکھ دی ہے کہ ہم اس ماہ کی تنخواہیں اپنی ریلیف کے لیے دیں گے مطلب یہ کہ ہمیں ڈیم کی طرح سب کو مل کر چندہ کرنا ہوگا اور جو رقم یا امداد آئی یا آئے گے اس کی بندربانٹ تمام سیاسی پارٹیاں اپوزیشن کو ملا کر رضامندی سے کریں گیں ۔ حد ہوتی ہے ۔ ایک چھوٹے سے ایونٹ کرکٹ میچ کے لیے پورا کراچی کے روٹس بند کروانے سے قبل تو متبادل روٹس متعارف کروائے جاتے ہیں تاکہ عوام سہولت کیساتھ آمدو رفت رکھ سکیں کیونکہ اس کے پیچھے روزانہ کا ڈبل قیمت پر فروخت ہونیوالا پیٹرول ہے دوسری طرف جب کرونا وائرس سے لوگ اتنی بڑی تعداد میں متاثر ہو رہے ہیں انہیں گھروں میں محسور کر دیا جاتا ہے کہ جی ہمارے پاس اتنی اھلیت ہیں سہولتیں نہیں جو تعاون مل رہا ہے وہ ممی ڈیڈی لوگوں تک محدود ہے۔
ایسی خبریں جب نظر سے گزرتی ہیں تو مجھے ایک واقعہ یاد آ جاتا ہے کہ ایک مریض ڈاکٹر کے پاس گیا ٣٠٠ روپے فیس دی ڈاکٹر نے اسے دوائی دیدی دوسرا گیا اس نے دو سو روپے دیئے ڈاکٹر نے اسے چیک تو کر لیا مگر مہنگی دوائی لکھ دی، تیسرا اس کے پاس گیا تو بولا ڈاکٹر صاحب میرے پاس پیسے نہیں میں غریب ہوں تو ڈاکٹر کو اپنی بیماری کے بارے بتایا ڈاکٹر نے کہا آپ اس دروازے سے اندر چلے جائیں۔ جب وہ اس دروزے سے اندر گیا تو اندر بہت بڑا خالی میدان تھا، مطلب یہ کہ غریب میدان میں گھومے پھیرے خود ہی ٹھیک ہو جائے گا ۔ عوام نے مستقبل میں نسلوں کے لیے پانی کو محفوظ کرنا ہو یا کوئی بھی معاملہ ہو اپنے ملک کیساتھ وفا کی اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور کر رہے ہیں حکومت کی ایک کال پر سب نے تعاون کیا اور ڈیم میں حصہ ملایا، بہت سی کمپنیوں ، انڈسٹری سے ، گورنمنٹ اداروں سے ، پاک افواج سے ہر سمت سے تعاون ملا مگر ڈیم جوں کا توں رہا اب تک کوئی نوید نہیں سنائی گئی۔ اس مرتبہ کرونا وائرس سے بچنے کے لیے جو حکومت نے تعاون مانگا اس میں معذرت کیساتھ یکطرفہ فیصلہ کیا گیا چاہے وہ صوبہ پنجاب سے تعلق رکھتا ہو ، سندھ سے تعلق رکھتا ہو ، یا کسی اور صوبے سے ، کیوں ذھن میں ہیں رکھا گیا کہ چائنہ کے بعد ہمارا نمبر آنا ہے کیونکہ ہمارے بہت قریبی مراسم ہیں۔ کیوں عوام کو متبادل رستے فراہم نہیں کیے گئے اب جب لاک ڈاون ہے پورا ملک اس کیفیت کو اگر کسی غریب کی نظر سے دیکھیں تو چند دم توڑتی سسکیاں نظر آتی ہیں بھوک و افلاس میں فریاد کرتے کرتے مرتے لوگ نظر آتے ہیں۔ اور ایسا طبقہ جو نہ غریب ہے اور نہ امیر ہے درمیانی طبقے سے تعلق رکھتا ہے جن کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں کہ وہ اپنے گھروں میں راشن خرید کر رکھ سکیں وہ اتنے بڑے پیمانے پر مارکیٹوں سے آٹا چینی دالیں گھی غائب کر کے وہی آٹا چینی دالیں اور گھی مہنگے داموں فروخت کرنے والے ذخیرہ کرنےوالے گروہ کی لوٹ مار سے کیسے بچ سکے گا۔
جس طرح آج لاک ڈاؤن ہے ہر شہر چاہے چھوٹا ہو بڑا ہو لوگ گھروں میں محسوس ہیں تو کیونکہ اس طرز پر کوئی آپریشن ایسے ناجائز منافع خوروں ، ذخیرہ اندوزں کیخلاف نہیں کیا جاتا ؟ ہر غریب کا در تو بند ہے اور تعاون کر رہا ہے کیونکہ یکطرفہ قربانیوں کا سلسلہ رکھا جاتا ہے۔ میں حکمران بالا سے اپیل کرونگا کہ خدارا ملک کی عوام کو مزید خواب نہ دکھائے جائیں ، کبھی انہیں ریلیف دینے کا کہا جاتا ہے کبھی انہیں گھر دینے کا خواب دیکھا جاتا ہے اور کبھی روزگار، افسوس حالات مزید بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں اتنے بڑے پیمانے پر بے روزگاری اس کے بعد کسی غریب کو کہنا کہ یہ ھاوسنگ سوسائٹی آپ کے لیے بنا رہےہیں بس اس میں ایڈوانس اتنا دینا ہوگا باقی اقساط اتنے سال کی دینا ہونگی تو عجیب سا مذاق ہے غریبوں کیساتھ ، اگر اتنے پیسے غریبوں کے پاس ہوتے تو وہ گھر بنا چکے ہوتے۔ ابھی لوگ فاقوں سی کیفیت میں اور ابھی ڈیڑھ ہفتہ باقی ہے جب لوگ کھانے کی فکر سے بے فکر ہونگے تو کرائے کے گھروں میں رہنے والوں کے سروں پر مالک مکانوں کی تلواریں لٹکی ہوئی ہیں۔
یہ وہ مالک مکان ہیں جنہوں نے اس دور میں بھی کرائے نہیں چھوڑے جب ہر دن کہیں نہ کہیں بم پھٹتے تھے اس وقت بھی وہ گھروں کے مالک مکان یہی کہتے تھے کہ ہم نے تو بم پھینکا ہمیں ہمارا کرایا دو۔ اس وقت قوم فروعون صفت لوگوں کے شکنجے میں پھنسی ہے خدارا قوم کو کم از کم سانس لینے کا حق دیا جائے۔ آج تک دودھ کی قیمت کم نہیں ہو سکی ۔ سندھ میں دودھ ٦٠ روپے لیٹر سے آج ١٢٠ روپے فروخت ہو رہا ہے مگر اس مافیا سے تو آج تک نہیں نمٹا جا سکا اور یقین مانی کم و بیش ٨٠ فیصد لوگ دو نمبری کر رہے ہیں دودھ فروخت کرنے میں مگر سب قانون کی ناک کے نیچے چل رہا ہے۔ اس بارے کوئی اب تک لاک ڈان نہیں ہوا۔ کیونکر ایسے سبزی فروشوں کیخلاف لاک ڈاون نہیں ہوا جو ٢٠ روپے کلو والی سبزی ١٠٠ سے ١٢٠ روپے کلو فروخت کر رہے ہیں ۔
ایسے عناصر اب تک کیوں نہیں پکڑے جاتے۔ منافع خوروں نے جتنی چالاکی سے مارکیٹوں سے مال اٹھایا اور شارٹ انویسٹمنٹ کے ذریعے ١٠٠ سے ٢٠٠ فیصد منافع کمایا جا رہا ہے اور جن سے کمایا جا رہا ہے وہ بیچارے پہلے فاقوں سے مر رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ غریب اس وقت ٩٠ روپے کلو آٹا خریندے پر مجبور ہیں ، ایک پاو گھی ، چینی ، دال خریدنے کی حیثیت سے گزر چکےہیں ۔ ماضی کی سیاسی جماعتوں اور آج انصاف کی سیاسی جماعت میں کچھ تو فرق ہو یا آس پاس کے تمام بنئے سب اچھا ہے کی رپورٹ شیئر کر رہے ہیں ؟ اتنے بڑے پیمانے پر حق تلفی کا ہونا سندھ کی اپنی من مانیوں اور پنجاب میں سب اچھا ہے کی رپورٹ پر چل رہا ہے۔ کیونکہ بھٹو نے کل بھی زندہ رہان اور آج بھی زندہ ہے اور پٹواری پنجاب کی رگوں میں رچ بس چکی ہیں پٹواری ایک عادت ہے جو کہ نا ممکن سی بات ہے چھوٹے ۔