الرئيسيةمضامینشہزاد حسین بھٹیرضاکار فورس ۔حقائق و غلط فہمیاں

رضاکار فورس ۔حقائق و غلط فہمیاں

تحریر: شہزاد حسین بھٹی
کالم: دُرریز
دُنیا بھر میں کورنا وائرس وَباء کی تباہ کاریاں اس وقت عروج پر ہیں۔امریکہ،چین، برطانیہ ، فرانس ، اٹلی سمیت دُنیا کے امیر اور طاقت ور ترین ممالک اس آفت ناگہانی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ دولت ،وسائل، ٹیکنالوجی،سائنس سب کچھ بے بس و لاچار دیکھائی دے رہا ہے۔امریکہ کے ہسپتالوں کی راہداریوںمیں لاشوں کے انبار لگے پڑے ہیں لیکن انہیں اُٹھانے یا ٹھکانے لگانے والا کوئی نہیں۔ہر سُو خُوف و ڈر کے پہرے ہیں۔ ِاٹلی، سپین ، برطانیہ اور امریکہ میں روزانہ ہلاک ہونے والوںکی تعدادایک ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ امریکہ اور دیگر ممالک نے اپنے بلین ڈالرز کے فنڈز اپنی عوام کے تحفظ اور بھوک کے لیے مختض کر دیئے ہیں۔
وائرس کی تباہ کاریوںکا اِدراک کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کرونا وائرس ریلیف کے لیے ملکی اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروںکی مدد اور ان کا بوجھ کم کرنے کے لیے ایک بلامعاوضہ رضا کار فورس (کورونا ریلف ٹائیگر فورس) کے نام سے تشکیل دینے کا 31 مارچ سے اعلان کیا جس کی رجسٹریشن کا عمل 10 اپریل تک جاری رہے گا۔ اس فورس میں 18 سال سے زائد عمر افراد شامل ہو سکیں گے۔ اس فورس کے قیام کا مقصد ہنگامی حالات میں ضرورت مندوں کو خوراک، کھانا اور راشن سپلائی کرنا ہے جبکہ ذخیرہ اندوزوں کی نشاندہی کرنا بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہوگا۔کورونا ریلیف ٹائیگر فورس میں شامل نوجوان قرنطینہ میں موجود افراد کی پہرے داری کا فرض بھی سنبھالیں گے۔ اس فورس میں صرف پی ٹی آئی سے وابستہ نوجوانوں کے شامل ہونے کی پابندی نہیں رکھی گئی ہے۔ عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار تمام نوجوان اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔سٹیزن پورٹل پر اپ لوڈ فارم میں نوجوان اپنا نام، پتا، عمر، موبائل نمبر، یونین کونسل اور ضلع کی تفصیلات درج کرکے کورونا ریلیف ٹائیگر فورس میں شامل ہونگے۔ وزیراعظم عمران خان نے نوجوانوں کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ نوجوان کورونا جیسی آفت سے نمٹنے کی کوششوں میں ہمارا ہاتھ بٹائیں اور ہماری کرونا ٹائیگر فورس جسے اس وباء سے جنم لینے والے مصائب کیخلاف جہاد کیلئے منظم کیا جائے گا، کا حصہ بنتے ہوئے بیماری کیخلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کریں۔
وائرس کے پھیلائو کو روکنے اور سماجی دُوری کے حوالے سے جب مکمل لاک ڈائون اور کرفیو جیسے اقدامات کی بازگشت سنائی دینے لگی تو یہ عمران خان کا ویژن ہی تھا کہ انہوں نے سیمی لاک ڈائون کو ترجیع دی اور اس بات کو بارہا دُہرایا کہ بنیادی ضروریات ِ زندگی اور ادویات کی فراہی کو بند نہیں کیا جائے گا۔وزیراعظم نے کہا کہ دنیا اپنی صلاحیت کے مطابق کورونا وائرس کا مقابلہ کر رہی ہے اگر لوگ بے روزگار ہو جائیں گے اور ان کو کھانے کو کچھ نہیں ملے گا تو ایسے لاک ڈاؤن کامیاب نہیں ہو سکتا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ کورونا وائرس امیر اور غریب میں فرق نہیں کرتا اور ہر شخص کو اس کے خلاف کامیابی کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔جس پر صوبہ سندھ کے وزیر اعلی، وزراء اور پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت نے مرکز کے اقدام سے اختلاف بھی کیا اور اپنے صوبے کے حدتک سختی سے لاک ڈائون کی پالیسی اختیار کیے رکھی جبکہ عمران خان کا موقف یہ تھا کہ اگر لوگ کورونا سے بچ گئے تو وہ بھوک سے مر جائیں گے۔لاک ڈائون کے دوران عوام کو ریلیف دینے کے لیے وزیراعظم نے آٹھ ارب ڈالر کے ایک خطیر ریلف پیکج کا اعلان کیا جس میں ضرورت کے مطابق اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔وزیراعظم کے اس اقدام کو ملکی و بین الاقوامی سطح پر بہت پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔
وزیر اعظم کے ٹائیگر ریلیف فورس کے قیام کو ملک بھر میں سراہا جا رہا ہے او ر ابتک ملک بھر سے بلاتفریق سات لاکھ سے زائد رضا کاروں نے اپنی رجسڑیشن کروا لی ہے۔کرکٹ کھلاڑیوں، وقار یونس، احمد شہزاد سمیت کئی نامور کھلاڑی اور شخصیات بھی اس رضاکار فورس کا حصہ بن چکی ہیں جبکہ سیاسی حلقوں نے اس فورس کے قیام کو مسترد کیا ہے اور کئی سوالات بھی اُٹھائے ہیں۔ جمعیت علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ملک کسی جماعت کے سربراہ کی بنائی فورس کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کو ٹائیگر فورس کی یونیفارم پراعتراض ہے ،اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ مزدوروں کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آگئی ہے اور حکومت ایک بڑی رقم ٹائیگرفورس کے لیے چار لاکھ شرٹس بنوانے میں خرچ کر رہی ہے حالانکہ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے امور نوجوانان عثمان ڈار نے سوشل میڈیا پر زیر گردش ٹائیگر فورس کے نام سے تیار ہونے والی شرٹس سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے ۔عثمان ڈار نے کہا کہ سوشل میڈیا پر موجود تصاویر کا ‘‘ٹائیگر فورس’’ سے قطعی کوئی تعلق نہیں، حکومتی سطح پر ایسی کوئی شرٹس پرنٹ کروائی جا رہی ہیں نہ حالات ایسے اقدامات کا اجازت دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کورونا ریلیف ٹائیگر فورس مکمل طور پر سیاسی وابستگی سے بالاتر ہے،کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کسی ایک جماعت کی نہیں پورے پاکستان کی ہے۔
وفاقی حکومت کے سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیے گئے نیشنل ایکشن پلان کے مطابق رواں ماہ کے دوران پاکستان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی سے اضافہ ہوگا اور 25 اپریل تک اس وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 50 ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔تاہم رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ کوئی حتمی اعداد و شمار نہیں ہیں بلکہ بین الاقوامی طور پر کرونا وائرس کے پھیلنے کی شرح کی بنیاد پر محض اندازہ لگایا گیا ہے۔ان حالات کے باوجود حکومت نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ (این ڈی ایم اے)کے ساتھ ملکر اس وباء پر قابو پانے کے لیے اپنی تیاریاں کر رہی ہے اور ضروری وسائل بروئے کار لا رہی ہے، وینٹی لیڑز، ٹیسٹ کٹس اور دیگرطبعی سازو سامان چائینہ سے منگوایا جا رہا ہے۔ اگر وباء کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے اور لاک ڈائون بڑھانا پڑتا ہے تو ایسے میں ٹائیگر فورس دیگر قومی اداروں کا بازو بن سکتی ہے۔ اور ریلیف کے کاموں میں معاون کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اس فورس کے قیام کو متازعہ بنانے کی سیاسی کوشش کی جار ہی ہے جو آنے والی کسی بھی ناگہانی صورت حال میں ملک و ملت کو ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن سکتی ہے جس کی ذمہ داری اپوزیشن جماعتوں پر ہو گی۔میڈیا سے وابستہ دائیں بازوکے اینکر اور صحافی بھی دُور اندیشی سے کام لینے کے بجائے اس فورس کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں کر رہے ہیں جو کسی بھی طرح ملکی مفاد میں درست عمل نہیں۔قارئین کے لیے یہ جاننا بھی اشد ضروری ہے کہ اس فورس میں کوئی بھی نوجوان شرکت کر سکتا ہے۔ یہ فورس کسی صوبے یا ادارے کے بجائے بلامعاوضہ متعلقہ ضلعے کے ڈپٹی کمشنر کے ماتحت کام کرے گی اور ریلیف کے کاموں میںدیگر ملازمین/افرادی قوت کا ہاتھ بٹائے گی اور مثال بنے گی۔یہ نا تو سیاسی تنظیم ہے اور نہ وزیر اعظم کے ماتحت ہے یہ ضلعی انتظامیہ اور فوج کے ساتھ ملکر آگاہی مہم میں حصہ لے گی۔اگر ملک میں رضاکار فورس اپنا کام کامیابی سے کرتی ہے تو یہ آنے والے وقت میں ملک میں کسی بھی ناگہانی، سیلاب و آفات اور جنگ کے دنوںمیں فوج، قانون نافذکرنے والے اداروں اور سول اداروں کی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
مقالات ذات صلة

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا

الأكثر شهرة

احدث التعليقات