الرئيسيةمضامینفیصل شہزاد چغتائیسرائیکی خطہ یا قلعہ غلاموں کا؟

سرائیکی خطہ یا قلعہ غلاموں کا؟

صدیوں سے زندگیوں میں رچ بس جانے والی غلامی سے کچھ سوچیں آزاد ہوئیں انہوں نے دنیا میں اپنا وجود ظاہر کرنے کے لیے صدیوں کا سفر دنوں میں طے کرنا ہے ایک طرف چند درد رکھنے والے لوگ اور ایک طرف جہالت کا سمندر۔

ِ

تحریر: فیصل شہزاد چغتائی

صدیوں سے زندگیوں میں رچ بس جانے والی غلامی سے کچھ سوچیں آزاد ہوئیں انہوں نے دنیا میں اپنا وجود ظاہر کرنے کے لیے صدیوں کا سفر دنوں میں طے کرنا ہے ایک طرف چند درد رکھنے والے لوگ اور ایک طرف جہالت کا سمندر۔


جہاں آج ٢٠٢٠ میں بھی لوٹنے والے لوگوں کو محسن سمجھا لکھا اور پکارا جاتا ہے وہاں آج بھی حق کی شمع روشن کئے بیدار لوگ وجود رکھتے ہیں ، جب ہر سمت نفسا نفسی اور ذات پرستی کا راج ہے کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ کسی کے بارے میں کچھ سوچے وہاں آج بھی لوگ اپنی سوچوں اور الفاظوں سے قوم کے تحفظ و شناخت کو بچانے کی جدوجہد کر رہے ہیں ۔
جنہیں اپنی قوم کبھی منافق ، کبھی مفاد پرست کبھی فراڈیا ، کبھ لٹیرا کہہ کر مسترد کر رہی ہے وہیں بلا غرض و مطلب یہ چند ذھن غلامی کی زنجیروں سے نکل کر حق کے لیے آواز اٹھا چکے ہیں ۔ اب قوم پر ہے کہ وہ بیدار ہو اور دیکھے کہ جن محسنوں کو بار بار ھار پہناتی چلی آ رہی ہے ایسے لوگوں نے کبھی مسلم لی گکبھی پی پی اور کبھی آزاد بن کر اعتماد حاصل کیا اور کامایبی حاصل کی اور اس خطے کے لوگوں کو جہالت کی بھٹی میں دھکیل کر چلتی بنی۔


تعمیر پاکستان کے ٣٠ سال کے بعد جو جمہوریت کا چہرہ بیگاڑا گیا وہ ایک برادری بنتا گیا اب یہ وجود قائم کر چکا ہے اس وجود میں تاجر ، منافع خوروں ، قبضہ گیروں ، زمینداروں جاگیرداروں وڈیروں ، سرداروں کا راج ہے ۔ ہر الیکشن سے پہلے یہ جمہوری ٹولہ نکلتا ہے اپنی اپنی کرسیاں خریدتا ہے اور پانچ سال کے لیے بیٹھ کر کھاتا ہے اور کھاتے تو اس خطے کے لوگ بھی ہیں مگر ان کے کھانے کے لیے جوتے ، تھپڑ ہوتے ہیں یا گالیاں مقدر بنتی ہیں ۔ یہ کہہ کر بھگا دیا جاتا ہے کہ ہم نے کہا تھا کہ ہمیں ووٹ دو ؟ کیا تمہارے ایک ووٹ نہ دینے سے میں مر جاوں گا ؟ یہ سلسلہ قائم و دائم ہے اور سرکاری خطے پر قابض یہ ٹولہ جو کہ جمہوری برادری کا حصہ ھے ۔ یہ برادری سمجھ چکی ہے کہ الیکشن سے پہلے انہوں نے اس خطے کے لوگوں کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرنا ہے دومیٹھی باتیں کرنی ہیں اور لوگ دم ھلانا شروع کر دیں گے۔اس برادری کو علم ہے کہ کس کی کیا کمزوری ہے اور کس کو کیسے خریدنا ہے ۔


تو یڈیا کچھ کہے اخبار کچھ چھاپے لوگ کچھ بولیں مگر ان کے دس کھرے ۔ مطلب یہ مجبور اور بے سہارا لوگوں کو نظر میں رکھتے ہیں اور ایسے لوگوں کو بھی جو صدیوں سے جہالت کی چار دیواری میں قید ہیں اور اپنی جہالت کو اللہ کی رضا کیساتھ منسلک کر دیتے ہیں ایسے لوگوں کو خریدا جاتا ہے ۔ کسی کو عزت دے کر ، کسی کے کام کروا کر ، کسی کو راشن دے کر ، کسی کے بیٹھے کو نوکری دلوا کر کسی کو راشن کارڈ دے کر ، کسی کو لیپٹ ٹاپ ، ییلو کیب ، رکشہ دیکر ، کسی کو آٹا ، گھی چینی دے کر اس برادری کے چیلے ہر گلی محلے شہروں میں موجود ہیں جو اس خاندان کے لیے ہر گھر ہر در پر جاتے ہیں اور انہیں ووٹ دینے کے لیے مجبور کرتے ہیں ۔


یہی وہ لوگ ہیں جو وال چاکنگ کرواتے ہیں ، بینرز لگاتے ہیں نعرے لگواتے ہیں لوگوں کو ٹریکٹر ٹرالیوں میں بھر کر جلسے جلوسوں میں لے کر جاتے ہیں ۔ میڈیا بھی رش دیکھ کر کیمرے لے کر پہنچ جاتا ہے اور فری کی تشہیر ہو جاتی ہے پھر خبریں ، اخبارات ، ٹی وی چینل کی زینت بنتے ہیں ۔ یہ وہ جمہوری برادری ہے جس میں عرصہ دراز سے صرف برادریاں ہی برجمان ہیں اور حکومت کرتی طلی ا رہی ہیں ۔
جب ایسے منافق لوگ ہر بار سرائیکی خطے سے منتخب ہونگے اور اکثریت سے ابھریں گے تو باشعور لوگوں کی سوچیں دم توڑ ہی جائیں گی۔ گزشتہ الیکشن سے پہلے خان صاحب نے خوب قوم کی سوچ کو سمجھا کہ قوم کبھی حق کے لیے باہر نہیں نکلے گی اس لیے جمہوری اولڈ سسٹم میں تھوڑی رنگینی پیدا کی اور میوزیکل نائٹ کروا کر قوم کو اکٹھا کیا اور قوم واقعی نکلی گانے سنتے ، ڈانس کیا اور موج مستی کی اور صبح ووٹ دے کر سو گئی ۔
اب یہ قوم کب بھیدار ہوگی اس کے بارے اگلے ہونیوالے الیکشن ہی بتا سکتے ہیں اب جو پارٹی اس قوم کو گانوں کیساتھ کچھ بہتر آپشن مثال کے طور پر مجروں کا اہتمام کرے گی وہی جیت سکتی ہے ۔ اب نشینل پارٹیوں میں ایک تو لیڈر مفرور ہو گئے اور دوسری پارٹی کے لیڈر حساب کتاب دے رہے ہیں اور تیسری پارٹی حاضر ڈیوٹی ہے ۔ اب دیکھیں لوگوں کی دلچسپی کا زیادہ سامان آنیوالے الیکشن میں کون مہیا کرتا ہے ۔ کیونکہ عادتیں کچھ زیادہ بگڑ چکی ہیں جناب جس کا اندازہ آپ کسی کو نیی کی طرف بلا کر لگا سکتے ہیں ۔ جس پر آپ کو لوگوں کی طرف سے ایک لاکھ بھانے ملیں گے نیکی سے جان چھڑانے کے ۔ دوسری طرف اگر انہیں کسی رنگین محفل ، شباب کباب جیسی محفل کے لیے دعوت دیں تو بس ! جیبوں میں پیسے بھر کر آپ کے ساتھ ہو لیں گے ۔


اسوقت یہ اتحادی بھی ہونگے ، متحد بھی ہونگے بشرط کہ بیغیرتی کی محفل ہو ، کمال عادتیں جگہ کر چکی ہیں ذھنوں میں برائے کے کاموں میں کوئی تمیز نہیں رکھی جاتی اور نہ ہی یہ سوچا جاتا ہے کہ جس پر ہم پیسہ لٹا رہے ہیں وہ حقدار ہے ؟ اور اگر رستے میں کوئی فقیر اللہ کے نام پر دس روپے مانگ لے تو ہم یہ نہیں سوچتے کہ وہ مانگ کس کے نام پر رہا ہے ہم فٹ سے اس پر فتوی لگا دیتے ہیں کہ پروفیسشنل ہیں فراڈیا ہیں ان کا روز کا دھندہ ہے اور دس کی بجائے ہزاروں روپے شادی کی تقریبات میں ناچنے والی تیسری دنا پر لگا دیتے ہیں ۔


ان کاموں میں فل فلش بیداری ہے نہ کسی وڈیرے ، جاگیردار ، زمیندار ، سردار کا ڈر اور نہ ہی کوئی کسی قسم کی غلامی و قید ، ہیاں آ کر کند ذھن بھی اشارے کر کے یہ کہہ کر بلا رہا ہوتا ہے کہ آ سینے نال لگ جا ٹھا کر کے ۔۔۔۔ افسوس ! اتنی تاریکی میں مست ہیں اور ان بے حیاء عادتوں میں خود کو قید کر چکے ہیں ۔


یہ قید ہی ہماری نسلوں کو ان کے حق سے محروم کر رہی ہے اور یہ نسلیں انہیں حرکات کو دیکھ کر کل ان سے دو ہاتھ آگے نکل جاتی ہیں بعد میں پچھتاوے رہ جاتے ہیں ۔


گیا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا چاہئے دنیا کی بادشاہت لگا دیں ایک گزرا ہوا سیکنڈ نہیں خرید سکتے۔ ٢٠١٢ سے ٢٠١٦ اور ٢٠١٨ تک کس کے پاس پیسے زیادہ کی جنگ چلی ، ٢٠١٨ سے ٢٠٢٠ تک جو جنگ چل رہی ہے اس میں نہ ہی پیسوں کی اہمیت ہے اور نہ ہی کسی شہ کی ۔ آج اگر واحد کسی چیز کی اہمیت ہے تو وہ ہے “وقت” جس نے وقت کس مجھ لیا وہ دنیا اور آخرت دونوں کو سنوار گیا جس نے وقت گنوا دیا اسے وقت بھی بیدردی سے گنواء دے گا۔


آج بھی سرائیکی خطے کے لوگ وقت کی نعمت سے مالا مال ہیں بہت وقت ہے ان کے پاس مگر کب تک یہ شاید یہ بھی نہیں جانتے ۔ اگر وقت کیساتھ ساتھ علم بھی حاصل کر لیتے تو اس وقت کی قدر و اہمیت کا علم بھی ہوتا۔


سرائیکی خطہ تاریخی خطہ ہے جو سینے میں صدیوں پر مشتمل تاریخ تہذیب اور ثقافت کو زندہ رکھے ہوئے ہے ہہاں کے لوگ آج تک اپنی طاقت سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ پنی سوچوں کو غالمی کا قلعہ بنا چکے ہیں ۔


رنگینیوں میں مست قوم اپنے ہی مستقبل کو جوتیو کے تلے روند چکی ہے ، بس اچھا رہن سہن، اچھا موبائل ، اچھا گھر ، اچھی گاڑی اور عیش کو اپنی زندگی کا مقصد بنا چکے ہیں ۔


جب اس حد تک اس خطے کے لوگ خود کو قید کر لیں گے تو اچھے صلے کی امید یا صبر کا پھل میٹھا کی امید کیسے رکھی جا سکتی ہے ؟ اس خطے پر بسنے والے یہ تو جانتے ہیں کہ بادل بن چکے ہیں بارش ہوگی مگر اس بارش سے بہنے والی چھت اور اس چھت کے نیچے رہنے والا خاندان ، ماں ، بیوی بچوں کو بھول جاتے ہیں کہ بارش ہوگی تو اس سے اپنا گھر ہی بہہ جائے گا ۔ کاش ! ہم اپنے گھروں کی بنیادوں کو مضبوط کریں تاکہ مضبوط عمارت ہمارے بچوں کا بہتر مستقبل دیکھ سکیں۔

مقالات ذات صلة

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا

الأكثر شهرة

احدث التعليقات