جیویں جیویں ٩ مئی دے تشدد اچ مطلوب ملزمان دی گرفتاریاں جاری ھن ، انہاں دے اھل خانہ ، ہمسایاں تے دوستاں کوں ھراساں کرݨ دی شکایات اچ اضافہ تھیندا ویندے۔
اخباری رپورٹ دے مطابق کجھ واقعات اچ پولیس صحافیاں کوں وی نشانہ بنڑیندی پئی ھِ جو پی ٹی آئی دے احتجاج دی کوریج کریندے پئے ھن۔ رپورٹس اچ آکھا گئیا کہ پولیس دی تریھ مختلف ٹیماں نے اچھرہ اچ صحافی جہانگیر حیات دے گھر تے چھاپا مارا ت سی سی ٹی وی فوٹیج دے نال لبرٹی چوک اچ نظر آوݨ دے بعد انہاں کوں حراست اچ گھن گھیدا ھِ
جہانگیر نے انہاں کوں ڈسایا کہ او اپنڑیں ادارے بزنس ریکارڈ پاروں ایں واقعے دی کوریج کریندے پئے ھن لیکن او قائل نی تھئے
جس پر کچھ مقامی لوگوں نے مداخلت کی اور انہیں پولیس کی گرفت سے آزاد کرایا، صحافی نے بعد میں لاہور پریس کلب کا دورہ کیا جہاں اس نے سینئر ساتھیوں سے مدد طلب کی۔
وہاں انہیں معلوم ہوا کہ اس روز پولیس کی ایک اور ٹیم نے بھی ان کے گھر پر چھاپا مارا تھا جبکہ شام کو، ایک تیسری ٹیم نے ان کے گھر پر دھاوا بولا اور ان کے بچوں اور خاندان کے دیگر افراد کو ہراساں کیا۔
جہانگیر کے بھائی نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے سینئر پولیس افسران کو آگاہ کیا تھا کہ جہانگیر کا پی ٹی آئی سے تعلق ہے اور نہ ہی وہ ان کے احتجاج کا حصہ تھے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
اسی طرح کے ایک کیس میں پولیس ٹیموں نے جی این این کے لیے کام کرنے والے صحافی سرفراز خان کی گرفتاری کے لیے ان کی رہائش گاہ پر چھاپا مارا اور وہاں نہ ملنے پر ان کے اہل خانہ کو مبینہ طور پر ہراساں کیا۔
ان کے ساتھیوں نے بتایا کہ وہ 9 مئی کو پی ٹی آئی کے احتجاج کی کوریج کر رہے تھے لیکن پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج کی بنیاد پر ان کا نام مشتبہ افراد کی فہرست میں ڈال دیا۔