غریبی جرم ہے ایسا کہ دیکھ کر مجھ کو
تحریر :شہزاد حسّین بَھٹی/ دُرریز
ممتاز اُردو شاعر و ادیب ندا فاضلی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ” کئی سال قبل مہاراشٹر کے پاور لوم کے شہر ما لی گاوں میں دھماکے ہوئے جن کی لپیٹ میں آئے بتیس لوگ موت کے گھاٹ اتر گئے۔سو سے زائد گھائلوں میں بڑی تعداد ان بھکاریوں کی بتائی جاتی تھی جو شب بارات کے دن دُور دُور سے چل کر وہاں کی رحمانی مسجد کے سامنے اور مسجد سے تھوڑے فاصلے پر بڑے قبرستان کے ارد گرد بیٹھے تھے۔جو بھیک مانگ کر روزی روٹی چلاتے تھے۔ وہ مذہب کی تقسیم کو نہیں مانتے۔ ان کے مطابق مندر کے بھگوان، مسجد کے رحمان یا مالی گاو ¿ں کے بڑے قبرستان میں کوئی تمیز نہیں تھی۔سیاست بکھاریوں کی اس سیکولر خاصیت سے بخوبی واقف ہوتی ہے اس لیے کبھی ان کے ماتھے پر تلک لگاکر رام سیوک بنا دیا جاتا ہے۔ کبھی ان کے سر پر ٹوپی رکھ کر اللہ اکبر کا نعرہ لگوایا جاتا ہے اور کبھی سیاسی قوت کے اظہار کے لیے انہیں گاوں کھیڑوں سے بلا لیا جاتا ہے۔جدھر بھی روٹی بلاتی ہے غریبی ادھر چلی جاتی ہے۔ غریبی کی دنیا کھاتے پیتے لوگوں کی دنیا کی طرح سیماو ¿ں اور سرحدوں میں نہیں بٹتی۔ اس کا دھرم مذہب بھوک ہوتا ہے۔ اس کی دنیا روٹی سے شروع ہوتی ہے اور روٹی پر ہی ختم ہوجاتی ہے۔ وہ خدا کو مورت یا قدرت کے روپ میں نہیں سوچتی۔بھیک مانگ کر روٹی کمانے والے مذہب کی تقسیم کو نہیں مانتے۔اس غریبی کے لیے آسمان اور زمین دو بڑی روٹیوں کی طرح ہیں جس میں اس کی اپنی روٹی بھی چھپی ہوتی ہے، جس کو پانے کے لیے کبھی وہ بھجن گاتی ہے، کبھی کلمہ دہراتی ہے اور کبھی حضرت عیسٰی کی شبیہہ کے سامنے سر جھکاتی ہے”۔بقول ندا فاضلی
ساتوں دن بھگوان کے، کیا منگل کیا پیر، جس دن سوئے دیر تک بھوکا رہے فقیر
غربت دُنیا کی وہ بھیانک حقیقت ہے جو انسان سے ہر وہ برا کام کراتی ہے جو ایک زندہ باضمیر انسان اپنی دائمی ہوش و حواس میں کرنے سے بیشتر مر جانا شاید بہتر سمجھتا ہو، لیکن اولاد کو بھوک سے بلکتا یا تڑپتا دیکھ کر ایک عاقل وبالغ شخص ہار مان لیتا ہے اور حرام و حلال کی تمیز کہیں دور اُوجھل ہو جاتی ہے۔انسان اپنے اور اپنے بچوں کی دو وقت کی روٹی کے لیے ہاتھ پاﺅں مارتا ہے اورتلاش رزق میں سرگرداں دکھائی دیتا ہے۔کمزور انسان زمانے کی تلخیوں سے ہار مان کر موت کو گلے لگا لیتا ہے جبکہ مضبوط اعصاب کا مالک اپنے حق اور انصاف کی خاطر اپنی آخری سانس تک لڑتا ہے اور ہر اُس چٹان جیسی بّلا سے ٹکرا جاتا ہے جس سے با آلاخر یا اسے شکست ہوجا تی ہے یا جیت جاتا ہے۔ حکایاتِ سعدی میں شیخ سعدی علیہ رحمہ فرماتے ہیں کہ جب انسان پر مصیبت آتی ہے تو وہ اپنے ننگے ہاتھ سے تلوار کو روک لیتا ہے جیسے بلی اپنے بچوں کی حفاظت کی خاطر اپنے سے کئی گنا طاقت ور دُشمن سے ٹکرا جاتی ہے۔
محمد نزاکت ولد فتح محمد پیشے کے اعتبار سے ایک فریج مکینک ہے اوراٹک شہر میں کامرہ روڑ پر ارسلان مارکیٹ میں کول اینڈ سروس کے نام سے چھوٹی سی دکان چلاتا ہے۔اس کے تین بچے معذور ہیں لیکن اس پہاڑ جیسی ہمت رکھنے والے 65 سالہ بوڑھے شخص نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے پیشے کو طاقت بناتے ہوئے اپنے بچوں کی دو وقت کی روٹی کما رہا تھا۔اس کرونائی صورت حال میں وہ جانتا تھا کہ اس کا مکینکل شعبہ لاک ڈاﺅن سے مستثنٰی ہے لہذا وہ اپنی دکان کھولے کام میں مگن رہتا تھا لیکن اُسے کیا معلوم تھا کہ اُس کا عزت سے روٹی کمانا بھی جرم عظیم بن جائے گا۔اپنے ساتھ ہونے والے ظلم نے اسے اتنی طاقت اور ہمت دی کہ وہ کمزور ، لاچار انسان بھی اپنے ساتھ ہونے والی غنڈہ گردی سے ٹکرانے کے لیے تیار ہو گیا یہ سوچے سمجھے بغیر کہ انجام کیا ہوگا۔
اسی سال 29 مارچ کو میرا ایک کالم بعنوان”اصل گلو بٹ کون؟” اخبارات میں شائع ہوا جس میں اٹک کے ڈپٹی کمشنر علی عنان قمر کی شہریوں کے ساتھ غنڈہ گردی کو موضوع کالم بنایا تھا۔سوچا تھا سفاکی و بربریت کی یہ داستاں شاید اب ختم ہو جائے گی لیکن افسوس ایسانہ ہو سکا۔ ضلعی انتظامیہ کے معاملات اتنے بگڑ چکے ہیں کہ ڈیڑھ ماہ قبل اسلام آباد کے ایک سینئر صحافی و ایڈیٹر آن لائن تنویر اعوان پر بھی سٹی تھانہ کے سامنے ضلعی کچہری سے نکلتے ہوئے چند نامعلوم افراد نے حملہ کردیا۔ جب وہ تھانے میں زخمی حالت میں رپورٹ کروانے گئے تو اُلٹاضلعی حکومت کی ایما پر انہیں پابند سلاسل کر دیا گیا۔بعدازاں اسلام آباد کی صحافتی حلقوں کی مداخلت پر ان کی رہائی ہوئی۔
ضلعی انتظامیہ کے ایما پرمیونسپل کمیٹی اٹک کے غنڈہ صفت اہلکار آئے روز غریب ریڑھی بانوں اورٹھیلے والوں کے پھل فروٹ کی لدی ریڑھیاں سڑکوں پر اُلٹ دیتے ہیں اور وہ غریب دُہائی دیتے اور آہ و بکا کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن اُن کا اصل جرم غریبی ہے، وہ اپنی فریاد کس کے پاس لے کر جائیں؟ اُن کی فریاد سننے والوں کو تو اپنی ذاتی خودنمائی سے ہی فرصت نہیں ہے۔ آج جب محمد نزاکت کی سوشل میڈیا پر وڈیو میں فریاد دیکھی تو دل خون کے آنسو رونے لگا۔بقول اس کے میونسپل کمیٹی کے اہلکار اس غریب مکینک کی دکان سے آئے روز مرمت کے لیے آئے نئے فریج اُٹھا کر گاڑی میں پھینکتے ہیں اور توڑ پھوڑ کر واپس کرتے ہیں وہ بھی پہلی بار نہیں بلکہ تیسری بار۔ وہ ٹوٹے فریج شہریوں کے ہوتے ہیں جنکی مرمت کا معاوضہ صرف محمد نزاکت کو ملنا ہوتا ہے لیکن اب جو ہزاروں کا نقصان تیسری بار ہو رہا ہے ا ±س کے ازالے کا کیا ہو گا؟ کون بھرے گا اس کا نقصان؟ آخر میونسپل کمیٹی کے عملے کو اس ایک شخص سے ہی کیا عداوت ہے؟ جبکہ اس کی دکان کے برابر باقی دکاندار تو مزے سے اپنا کاروبار جمائے بیٹھے ہیں اور یہ غریب تختہ مشق بنا ہوا ہے؟ کیوں ضلعی انتظامیہ سب اچھا ہے کا راگ الاپنے کے لیے غریبوں کے گھروں میں صف ماتم بچھانے پر تلی ہے؟ معلوم نہیں تین معذور بچوں والے گھرانے میں آج کھانا بھی پکا ہو گا کہ نہیں ؟ ناجانے راشن بھی کسی سے اس خود دار انسان نے قبول کیا یا نہیں۔ میں حیران ہوں کہ اپنے ساتھ بد سلوکی اور بربریت پر اس میں اتنی جرت کہاں سے آئی کہ وہ ایک طرف انتظامیہ کی بدسلوکی کے خلاف سیاسی نمائندوں سے مایوس دکھائی دیتا ہے تو دوسری طرف چیف جسٹس سپریم کورٹ سے بھی ملتمس ہے کہ اس کے ساتھ انصاف والا معاملہ کیا جائے۔ میں بھی بہ حیثیت قلم کارحکومت وقت بلکہ خصوص عثمان بزدار چیف منسٹر سے اپیل کرتا ہوں کہ لگام ڈالیے ایسے عناصر کو جو پی ٹی آئی کے فلسفے کو منّوں مٹّی تلے دفن کرنے کے درپے ہیں؟شاید ابھی دیر نہیں ہوئی۔ بقول پرنم الہ آبادی
غریبی جرم ہے ایسا کہ دیکھ کر مجھ کو
نگاہیں پھیر کے اپنے پرائے جاتے ہیں
نہ پوچھ حال شبِ غم نہ پوچھ اے پرنم؟
بہائے جاتے ہیں آنسو بہائے جاتے ہیں