الرئيسيةمضموناقبال زرقاشکورونا وائرس ، جیلوں میں قیدیوں کی حالت زار

کورونا وائرس ، جیلوں میں قیدیوں کی حالت زار

کالم: فکر فردا
تحریر : اقبال زرقاش
ہمارے ملک کا کوئی شعبہ زندگی ایسا نہیں کہ جہاں غفلت لاپرواہی اور بے ضابطگیوں کی ایک سے بڑھ کر ایک انوکھی داستان ہمیں سننے کو نہ مل رہی ہو .بحثیت قوم ہم جس پستی کی جانب گامزن ہیں اس کے نتائج بھی پورے معاشرے کے ایک ایک فرد کو بھگتا پڑ رہے ہیں اور ہم نے اس ملک کو مسائل کی دلدل میں دھکیل رکھا ہے. حالیہ کورونا وائرس جیسی مہلک وباء نے جہاں ہر پاکستانی کی زندگی اجیرن بنا کر رکھ دی ہے وہیں ہماری جیلوں میں پابندِ سلاسل قیدیوں کی حالت زار بھی ناقص انتظامات کی وجہ سے قابل رحم ہے .حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ہمارے ملک کی جیلوں میں قید افراد میں اگر کورونا وائرس کی وباء پھیل گئی تو اس کے بھیانک نتائج سامنے آ سکتے ہیں جہاں پہلے ہی گنجائش سے زیادہ قیدیوں کو ایک ہی جگہ بھیڑ بکریوں کی طرح رکھا ھوا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جیلوں میں اس وقت 33 فیصد سے زائد اضافی قیدیوں کو پابندِ سلاسل رکھا ہوا ہے جن میں 2100 قیدی پہلے ہی مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہیں اگر ایسے حالات میں کوئی ایک کورونا وائرس کا شکار قیدی جیل میں آتا ہے تو وہ پوری جیل کے قیدیوں کی جان کو خطرے سے دوچار کر سکتا ہے ۔کچھ
ذرائع سے یہ رپورٹس بھی آرہی ہیں کہ 28 کے قریب قیدیوں میں کورونا وائرس کی تصدق ہو چکی ہے ۔
ملک بھر کی 117 جیلوں کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ وہاں 60 سال سے زائد عمر کے 1527 قیدی موجود ہیں جن میں 1184 خواتین بھی جیلوں میں پابند سلاسل ہیں۔ پنجاپ اور کے پی کے کی جیلوں کے بارے میں یہ بھی خبر ملی ہے کہ وہاں جیلوں میں 140 نوزائیدہ بچے بھی اپنی مائوں کے ہمراہ اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں ۔ایسے مخدوش حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ جیلوں میں قید تمام افراد کے کورونا وائرس ٹیسٹ کو فوری طور پر یقینی بنایا جائے تاکہ کسی بڑے انسانی المیے سے بچا جا سکے .بدقسمتی سے ھمارے ہاں کسی دور حکومت میں بھی جیلوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لیے کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں گیا البتہ جب کبھی ہمارے سیاستدانوں کو جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے تو میڈیا پر اُن دنوں ایک شور برپا ہو جاتا ہے کہ جیلوں کے اندر برے حالات کا سامناہے اور جیل کی عمارتیں مخدوش حالت میں ہیں، بارش میں چھت ٹپک رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔
یہ چند دن کا شوروغوغا اٹھتا ہے اور پھر ان کی ضماتیں ہو جاتی ہیں یا پھر کسی بیماری کا عزر گھڑ کر یہ ھسپتالوں کے وی آئی رومز میں چلے جاتے ہیں۔ بعض اوقات ان کے گھر ہی سب جیل کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں جہاں وہ پر آسائش اسیری کے مزے لوٹتے ہیں ایسے حالات میں یہ کب چاہیں گے کہ عام آدمی کو جیلوں میں جو مشکلات ہیں ان کا ازالہ کیا جائے۔ عالمی انسانی حقوق کے قوانین حتی کہ ہمارے مذھب اسلام میں بھی قیدیوں کے حقوق کے بارے واضع احکامات موجود ہیں اس لیے جیل میں اسیر افراد کی دیکھ بھال اور تمام انسانی حقوق ان کو میسر ہونے چاہیں۔ جیلوں میں تمام قید افراد گناہ گار نہیں ہوتے ان میں بیس سے تیس فیصد افراد وہ بھی ہوتے ہیں جن کو اپنے مخالفین نے
جھوٹے مقدمات میں ملوث کرکے سلاخوں کی زینت بنایا ہوتا ہے۔ جیل کے اندر ملزموں اور مجرموں کے درمیاں بھی تفریق کی ضرورت ہے جب تک کسی ملزم پر جرم ثابت نہیں ہو جاتا اس وقت تک اس کو جیل میں مجرم قیدیوں کی طرح نہ رکھا جائے بلکہ ان کو بہتر سہولیات میسر ہونی چاھیے قیدیوں کی اصلاح کے حوالے سے بھی خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
انسان پیدائشی طور پر بہت سی خصوصیات لے کر آتا ہے ماحول ان خصوصیات کو سنوارتا بھی ہے اور بگاڑتا بھی ہے۔ اگر ماحول اچھا مل جائے تو برے بھی اچھے بن جاتے ہیں اور کانٹوں میں بھی پھولوں کی رعنائی آجاتی ہے اگر ماحول ٹھیک نہ ہو تو نیک ماں باپ کی اولاد بھی بگڑ کر معاشرے کے لیے وجہ شرم بن جاتی ہے گویا انسان بنیادی طور پر اپنے ماحول کی پیداور ہے اور گردوپیش کے اندھیرے خلقی صلاحیتوں کے نور کو بھی دھندلا دیتے ہیں مجلس, ماحول اور صحبت کے اثرات لاشعوری طور پر قلب و نظر کا حصہ بن جاتے ہیں اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ جیل میں قیدیوں کو بہتر ماحول میسر ہو جہاں پر ان کی اصلاح ہوسکے نہ کے وہ جیلوں سے مزید بگاڑ پیدا ہو جو معاشرے کے لیے ناسور بن جائے ۔اس لیے حکومت کو چاھیے کہ وہ جیلوں کی مخدوش حالات زار پر خصوصی توجہ دے اورقیدیوں کی صحت کے حوالے سے جو خدشات ظاہر ہورہے ہیں ان کا فوری نوٹس لے ۔
مقالات ذات صلة

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا

الأكثر شهرة

احدث التعليقات