الرئيسيةپروفیسر اللہ دتہ قادریشعبان المعظم کے فضائل واعمال اور کرونا وائرس

شعبان المعظم کے فضائل واعمال اور کرونا وائرس

اللہ ڈتہ

تحریر: پروفیسر اللہ دتہ قادری

شعبان المعظم رمضان المبارک کی تیاری کا مہینہ ہے۔ ہمارے اسلاف کی عادت تھی کہ وہ اس مہینے میں اپنی تمام ضروریات کو پورا کرلیتے اور رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی مسجدوں میں عبادت میں مصروف ہو جاتے۔ آج جب کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے بہت سے لوگوں کا روزگار متاثر ہو گیا ہے ہمیں چاہیے کہ اس مشکل گھڑی میں حتی الامکان ان لوگوں کی زکوۃ و صدقات کے ذریعے مدد کریں چونکہ اس وقت وہ لوگ مشکل میں ہیں لہذا ان کی دلی دعاؤں کے ساتھ ثواب بھی زیادہ ملنے کی امید ہے۔ صدقہ بلاؤں کو ٹالتا ہے اس لئے آپ ان شا اللہ کرونا وائرس کی وبا سے بھی محفوظ رہیں گے۔ احادیث میں شعبان المعظم کے بہت زیادہ فضائل بیان کئے گئے ہیں ۔

حدیث پاک میں بتایاگیا ہےکہ اس مہینے میں کثرت سے روزے رکھے جائیں ۔ کرونا وائرس کی وبا کے دوران رضائے خداوندی والے کام کرنے کی تو پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے۔ روزوں کے فوائد بارے ایک جاپانی ڈاکٹر Yoshinori Ohsumi جنہیں فاقوں پر اپنی تحقیق کی وجہ سے 2016 ءمیں نوبل پرائز سے نوازا گیا کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ایک سال میں 26 سے 27 دن فاقے کرتا ہے تو اس کے ان فاقوں کی وجہ سے انسانی جسم میں ایسے خلیے فعال ہو جاتے ہیں جو جسم میں موجود دیگر نقصان دہ عناصر کو کھا جاتے ہیں جس کی وجہ سے انسانی جسم میں موجود دیگر زہریلے مادے ختم ہو جاتے ہیں اور انسان بیماریوں سے نجات پا لیتا ہے یہ عمل جہاں بیماریوں کو ختم کر دیتا ہے وہیں جسم کی قوت مدافعت کو بھی بڑھا دیتا ہے ان کے نزدیک شروع کے 6 سے 7 دنوں میں انسان کو زیادہ مشکل ہوتی ہے اور انسان کمزوری محسوس کرتا ہے لیکن پھر آہستہ آہستہ اس کا جسم عادی ہو جاتا ہے۔ اگلے چند دنوں میں وہ خلیے فعال ہونا شروع ہوتے ہیں اورجسم میں موجود دیگر زہریلے مادوں کو کھا جاتے ہیں ۔

انہوں نے اپنی اس تحقیق کو Autophagy کانام دیا ہے۔ اگرچہ یہ تحقیق نئی نہیں ہے اس سے پہلے بھی متعدد سائنس دان اس موضوع پر تحقیق کر چکے تھے لیکن Yoshinori Ohsumi وہ پہلےشخص ہیں جنہوں نے تین ہزار سے زائد مقالہ جات لکھے اور اپنے تحقیقی نظریہ کو مختلف تجربات کی مدد سے ثابت کیا۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ابھی بھی اس پر مزید تحقیق ہونا باقی ہے۔ فاقوں کی طبی وسائنسی اہمیت کی وجہ سے یورپ میں بہت سے Fasting کلینک بن چکے ہیں جن میں فاقوں کے ذریعے موذی بیماریوں کینسر، بلڈ پریشر، شوگر، موٹاپا وغیرہ کا علاج کیا جا رہا ہے۔ ان کی اس تحقیق کو فارماسیوٹیکل کمپنیز اور فوڈ سپلیمنٹ بنانے والی کمپنیوں کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا ہے کیونکہ اگریہ طریقہ کار پوری دنیا میں فعال ہوگیا تو پھر ان کمپنیوں کی افادیت کم ہوتی چلی جائے گی اسی وجہ سے یہ کمپنیاں ان تحقیقی نتائج کی مخالفت کرتی ہیں ۔

بہرحال ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمیں ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال قبل ہی روزے رکھنے کا حکم دیا اور ہمارے لئے لازم قرار دیا کہ ہم سال میں ایک مرتبہ مسلسل ایک ماہ کے روزے رکھیں اور یوں اپنے پورے جسم کو زہریلے مادوں سے پاک کر لیں۔ اسی تحقیق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تین سے چار دن کے فاقوں کی وجہ سے ہمارا قوت مدافعت کا نظام زیادہ فعال ہوجاتا ہے اس لیے اس صورتحال میں بھی روزے رکھنے کی ضرورت ہے لیکن مقصود سائنس کی پیروی نہ ہو بلکہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل ہوتا کہ ثواب بھی ملے ورنہ یہ روزہ نہیں ہوگا۔ صرف فاقہ ہوگا اور ثواب کچھ بھی نہیں ملے گا ۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شعبانُ الْمُعظَّم کے بارے میں فرمانِ مکرم ہے: شعبان میرا مہیناہے اور رَمضان اللہ کا مہینا ہے۔ (اَلْجامِعُ الصَّغِیر لِلسُّیُوطی :4889) اس مہینے میں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ روزے رکھا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ ؅ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعبان سے زیادہ کسی مہینہ میں روزے نہیں رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعبان کے پورے مہینہ میں روزے رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ اتنا ہی عمل اختیار کرو۔ جتنے کی تم طاقت رکھتے ہو اللہ تعالیٰ نہیں اکتا جاتے جب تک کہ تم نہ اکتا جاؤ اور سب سے محبوب نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک وہ تھی جس پر مداومت کی جائے اگرچہ کم ہی ہو اور جب کوئی نماز پڑھتے تو اس پر مداومت کرتے۔(صحیح بخاری: 1894 )

حضرتِ سیِّدُنا اُسامہ بن زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں دیکھتا ہوں کہ جس طرح آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شعبان میں روزے رکھتے ہیں اِس طرح کسی بھی مہینے میں نہیں رکھتے؟ فرمایا: رَجب اور رَمضان کے بیچ میں یہ مہینا ہے، لوگ اِس سے غافل ہیں ، اِس میں لوگوں کے اَعمال اللہُ ربُّ العٰلَمین عَزَّوَجَلَّ کی طرف اُٹھائے جاتے ہیں اور مجھے یہ محبوب ہے کہ میرا عمل اِس حال میں اُٹھایا جائے کہ میں روزہ دار ہوں ۔ (سُنَن نَسائی :2354) حضرت مسلم سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہمیشہ روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا تجھ پر تیرے عیال کا حق ہے تو رمضان کے روزے رکھ۔ اور ان دنوں کے روزے رکھ جو رمضان سے متصل ہیں (یعنی عید کے بعد) اور ہر بدھ اور جمعرات کا روزہ رکھ اگر تو اس پر عمل کرے گا تو گویا تو نے ہمیشہ روزے رکھے۔ (سنن ابوداؤد:2432)

اب اگرچہ ہم پورے سال کے روزے نہ بھی رکھ سکیں پھر بھی اس ماہ میں کسی ایک بدھ اور جمعرات کو تو روزہ رکھ لیں۔ کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ وسوسہ آ سکتا ہے کہ یہ روزہ رکھنے کا کونسا وقت ہے؟ تو اطلاعاً عرض ہے کہ پچھلے دنوں 29 مارچ کو کرونا وائرس سے بچنے کے لیے روزے کے دن کے طور پر منایا گیا اور اب دو اپریل کو بھی عالمی طور پر روزے کے دن کو طور پر مشتہر کیا جا رہا ہے۔ دو اپریل کو جمعرات کا دن ہےاور جمعرات کا دن ویسے ہی ہمارے لیے برکت والا دن ہے۔ قدامہ بن مظعون، حضرت اسامہ بن زید سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضرت اسامہ کے ساتھ ان کا مال تلاش کرتے ہوئے وادی قری تک گئے۔ پس (انہوں نے دیکھا کہ) وہ پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے ہیں تو ان کے مولیٰ نے ان سے پوچھا کہ آپ ان دنوں میں روزہ کیوں رکھتے ہیں حالانکہ آپ بوڑھے ہیں ؟ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے تھے ایک مرتبہ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان دنوں میں روزہ رکھنے کے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پیر اور جمعرات کے دن بندوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔ (سنن ابوداؤد:2436) لیکن ہمارا مقصود اتباع رسول ہو ورنہ الٹا گناہ ہوگا ۔

اس لیے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اس مقدس مہینے میں شب برات بھی ہے ۔ جس کا روز ہ رکھنے کی بہت زیادہ فضیلت حدیث میں مروی ہے بالخصوص اس دن کا روزہ تو ضرور رکھا جائے۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ پندرھویں شعبان کی رات اپنے بندوں کی طرف خصوصی رحمت سے دیکھتے ہیں، (تو اس رات) استغفار (رحمت) طلب کرنے والوں کی بخشش کردیتے ہیں، اور رحم طلب کرنے والوں پر رحم کرتے ہیں اور حسد کرنے والوں کو انہی کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔ (کنزالعمال:7450) حضرت علی بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب نصف شعبان کی رات ہو تو رات کو عبادت کرو اور آئندہ دن روزہ رکھو اس لیے کہ اس میں غروب شمس سے فجر طلوع ہونے تک آسمان دنیا پر اللہ تعالیٰ نزول فرماتے ہیں اور یہ کہتے ہیں ہے کوئی مغفرت کا طلبگار کہ میں اس کی مغفرت کروں۔ کوئی روزی کا طلبگار کہ میں اس کو روزی دوں۔ ہے کوئی بیمار کہ میں اس کو بیماری سے عافیت دوں ہے کوئی ایسا ، ہے کوئی ایسا۔ یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے۔(سنن ابن ماجہ: 1388 )

کچھ لوگ شب برات کی عبادات کودرست نہیں سمجھتے اور لوگوں کو اس عمل سے روکتے ہیں۔ ان لوگوں سے التماس ہے کہ جو لوگ شب برات کو روزہ رکھیں یا رات کو عبادت میں گزاریں انہیں منع نہ کریں اس لیے کہ یہ لوگ اللہ کی بارگاہ میں ہی تو جھک رہے ہیں اور آپ انہیں اللہ کی عبادت سے روک رہے ہیں۔ عصر حاضر میں لوگوں کا رحجان ویسے ہی فسق و فجور کی طرف زیادہ ہے ایسے میں لوگ کسی بہانے سے کوئی اچھا کام کر رہے ہیں تو ان کے ممد و معاون بنیں۔ اس مہینے میں درود پاک پڑھنے کی بھی زیادہ فضیلت ہے تو ہمیں چاہیے کہ کثرت کے ساتھ درود پڑھیں اور ثواب کمائیں ۔ گھروں میں رہتے ہوئے ذکر و اذکار تلاوت قرآن کا اہتمام کریں اور فرآئض کی پابندی کے ساتھ ساتھ نوافل کی کثرت کے ذریعےاللہ تعالی کی خوشنودی کے حصول کو یقینی بنائیں۔اللہ رب العزت عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

مقالات ذات صلة

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا

الأكثر شهرة

احدث التعليقات