پاک امریکہ تعلقات‘ فیصلہ کن موڑ پر
(کالم نگار | جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ)
1950ءسے لیکر اب تک پاکستان امریکہ کا قابل اعتماد اتحادی رہا ہے اور یہ تعلقات ساٹھ (60) برسوں پر محیط ہیں۔ اس عرصے میں پاکستان نے چار مرتبہ نظام کی تبدیلی کے کٹھن مراحل طے کئے اور پھر مشرف نے افغانستان کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا غیر اخلاقی فیصلہ کرکے پاکستانی قوم کو شرمسار کیا اور دکھوں کا سامان مہیا کیا۔ 2001ءسے 2008ءکے عرصے میں پاکستان نے اپنی قومی سلامتی کے مفادات کا انتہائی سستے داموں یعنی صرف 33 بلین امریکی ڈالروں کے عوض سودا کیا (بقول صدر ٹرمپ) جبکہ پاکستان کو 120 بلین امریکی ڈالرسے زیادہ کا نقصان اٹھانا پڑا اور 60 ہزار سے زائد شہریوں اور قریب قریب چھ ہزار فوجیوں کی قیمتی زندگیوں کی قربانی دینا پڑی ہے۔ اسکے باوجود ٹرمپ کا کہنا ہے کہ “پاکستان نے امریکہ کو دھوکے اور جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔” در اصل ٹرمپ کی یہ ہرزہ سرائی ایک زوال پذیر سپرپاورکی پست ذہنیت کی علامت ہے جو شکست’ہزیمت اورشرمندگی کی عکاسی کرتی ہے۔
1989ءمیں جب افغان حریت پسندوں کے ہاتھوں سویٹ یونین کو شکست اٹھانا پڑی تواس موقع کو امریکہ نے اپنے مفادات کو عالمی سطح پر پھیلانے کیلئے غنیمت سمجھا۔ انہیں یقین کی حد تک یہ احساس تھا کہ روس کو اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کیلئے کئی دہائیاں لگیں گی جبکہ چین بھی کوئی قابل ذکر مقام حاصل کرنے سے قاصر ہوگا۔ لہٰذا امریکہ نے مسلم ممالک کو دشمن سمجھتے ہوئے ان کیخلاف کروسیڈ (صلیبی جنگیں) شروع کردیا‘ خصوصاً اسلامی حکومتوں‘ سیاسی اسلامی ممالک اور پاکستان جیسے معتدل مسلم ممالک کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا شام‘ عراق‘ صومالیہ‘لیبیا‘ یمن اور افغانستان کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا اور بیس لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کوبے دریغ شہید کر دیا۔ امریکہ نے جنگ جیتے ہوئے افغانوں کے ساتھ دھوکہ کرتے ہوئے خانہ جنگی شروع کرائی اور نائن الیون کے سانحہ کو بہانہ بناکر افغانستان پر لشکر کشی کر دی لیکن طالبان کے ہاتھوں شرمناک شکست کھانے کے باوجود وہاں سے نکلنے پر آمادہ نہیں ہیں‘ اس لئے کہ وہ افغانستان کو اپنی کالونی سمجھتے ہیں۔
گزشتہ دو عشروں کے درمیان حالات نے پلٹا کھایا ہے جو امریکہ کے مفادات کےخلاف ہیں۔انکے مقابل صدر پیوٹن کے فلسفہ تصادم کے تحت جارجیا‘ یو کرائن اور شام میں روس کی سفارتی اور عسکری کامیابیوں نے روس کو دوبارہ عالمی سیاست کے مرکزی مقام پر لا کھڑا کیا ہے اور اب وہ امریکہ کے مد مقابل ہے جس کے سبب امریکہ دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہے۔روس نے افغانستان اور پاکستان میں بھی خاصا اثرورسوخ حاصل کرلیاہے جبکہ چین نے اپنی‘ اقتصادی تعاون پر مبنی امن وترقی کی پالیسی پر گامزن رہتے ہوئے دنیا بھر میں عزت ووقار کا مقام پا لیا ہے اور اب وہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ چین کی اس روز افزوں ترقی نے امریکہ کو خوف میں مبتلاکردیا ہے جس کےخلاف اس نے انڈو۔ پیسیفک مرکز (Indo-Pacific Pivot) قائم کیا ہے جس میں بھارت کو اہم کردار دیا گیا ہے۔
1979ءکے ایرانی انقلاب کے بعدامریکہ نے ایران کو علاقائی امن کیلئے خطرے کے طور پر بدنام کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے اور قدم قدم پراقتصادی پابندیاں لگا کرایران کیلئے مشکلات پیدا کی ہیں لیکن ایران نے ان تمام چیلنجز کا قومی حمیت اور حوصلے سے مقابلہ کیا ہے اور شام‘ عراق اور یمن کی عسکری مہموں میں شامل رہ کر ان علاقوں میں غیر معمولی اثرورسوخ حاصل کرلیا ہے جو امریکہ اور سعودی عرب دونوں کیلئے تکلیف دہ ہے۔ان اقدامات نے بلاشبہ ایران کی اقتصادیات اور قومی ترقی کے منصوبوں پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ بے روزگاری کی شرح بڑھی ہے اور اسی طرح روزمرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے جو حالیہ احتجاج اور بدامنی کی بڑی وجوہات ہیں جنہیں امریکہ اور ایران مخالف لابی کی حمایت حاصل ہے۔ درحقیقت اس سازش کا مقصد ایران میں نظام کی تبدیلی ہے۔
اسی طرح کی کارروائی چند سال قبل ترکی میں بھی کی گئی تھی لیکن ناکام ہوئی تھی اور بعینہ گزشتہ چار سالوں سے پاکستان میں بھی اسی طرح کاسیاسی احتجاج جاری ہے جو نظام کی تبدیلی چاہتا ہے اور ٹیکنوکریٹ کی حکومت کاحامی ہے تاکہ پاکستان میں بھی بنگلہ دیش کی طرح کا لبرل نظام لایا جا سکے لیکن یہ احتجاج ایران کیلئے کسی قسم کی پریشانی کا سبب نہیں ہے کیونکہ ایرانی حکومت اس سے نمٹنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ ایرانی حکومت نے ابھی تک اسلامی پاسداران انقلاب (IRGC) کو سول حکومت کی مدد کیلئے نہیں بلایاہے۔ اسلامی پاسداران انقلاب کے ماتحت القدس اور بسیج فورس (Basij Force) کی تعداد دس ملین سے زیادہ ہے جو اس قسم کے احتجاج سے نمٹنے کی بھرپورصلاحیت رکھتے ہیں۔انہیں عراق کے ساتھ آٹھ سالہ طویل جنگ اور شام و یمن میں جاری جنگوں کا عملی تجربہ حاصل ہے جو ان کے قابل ذکر طاقت ہونے کا مظہر ہے۔
اپنی بہترین صلاحیتیں بروئے کار لانے کے باوجود امریکی فوجوں کے قدموں کے نیچے سے افغانستان کی سرزمین نکلتی جا رہی ہے۔ گزشتہ سال کے دوران طالبان نے 2500 سے زیادہ بڑی اورچھوٹی فوجی کارروائیاں کرکے انہیں بھاری جانی ومالی نقصان پہنچایا ہے۔
طالبان کو اب افغانستان کے سترفیصد علاقوں پر کنٹرول حاصل ہے جہاں اسلامی قوانین نافذ ہیں۔ اس طرح امریکہ کوتمام محاذوں پرشکست کا سامنا ہے‘ چاہے وہ روس ہو‘ چین ہو‘ ایران ہو یا افغانستان کا محاذ جنگ ہو ہر طرف سے ناامیدہوکر امریکہ اب پاکستان پر دباو ڈال رہا ہے کہ اسے افغانستان کی اس مشکل صورتحال سے نکالے لیکن ایسا کرنا اب پاکستان کے بس میں نہیں ہے۔ کیونکہ یہ بات باعث افسوس ہے کہ امریکی فوج ایک عظیم قوت ہونے کے باوجود قومی دفاع کی مکمل صلاحیت نہیں رکھتی ہے۔ امریکی تجزیہ نگارHarlam Ullman کے بقول امریکی فوج 700 بلین ڈالر کاسالانہ بجٹ خرچ کرکے بھی قومی دفاع میں ناکام ہے اور پاکستانی فوج کی طرف دیکھ رہی ہے کہ وہ اسے اس دلدل سے نکالے جس کا بجٹ صرف 7بلین ڈالرہے لیکن دنیا کی بہترین فوج تسلیم کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی دلدل سے نکلنے کا فیصلہ اور اختیار خود امریکہ کے پاس ہے۔ فیصلہ اب امریکہ نے کرنا ہے کہ کتنی جلدی وہ طالبان کے مطالبات تسلیم کر کے اس دلدل سے نکل سکے۔
طالبان کی شرط ہے کہ امن مذاکرات سے پہلے امریکہ افغانستان سے نکل جائے۔ اسکے بعد ہی پاکستانی فوج بھی امریکیوں کو وہاں سے نکالنے میں مدد دینے کیلئے تیار ہوگی۔ امریکیوں کو اب اس حقیقت کا بھی اعتراف کرنا ہوگا کہ طالبان دہشتگرد نہیں ہیں بلکہ حریت پسند ہیں جنہوں نے گزشتہ سینتیس سالوں میں دنیا کی بڑ ی سے بڑی عسکری قوتوں کو شکست دی ہے اوربے مثال قربانیاں دی ہیں۔وہ ناقابل تسخیر اور پرعزم ہیں اور اب انہیں نہ تودھوکے میں رکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی شکست دی جاسکتی ہے۔
یہ ہیں وہ حالات جن کا صدر ٹرمپ کو سامنا ہے۔ وہ شرمندگی اور بے چارگی کی عبرت ناک شکل ہیں اور انکی کیفیت ایک نوآموز باکسرجیسی ہے‘ جو کھیل کے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غلط جگہ (Below the belt) حملہ کرسکتا ہے۔ پاکستان کو محتاط رہنا ہوگا کیونکہ صدر ٹرمپ کے بقول پاکستان نے امریکیوں کو بےوقوف سمجھتے ہوئے‘ سوائے جھوٹ اور دھوکے کے کچھ نہیں دیا جبکہ وہ خود حددرجہ بےوقوف ہیں۔
اب تک پاکستان کا ردعمل سفارتی اعتبار سے درست ہے۔ ہماری مسلح افواج اور حکومت کو حالات کی سنگینی سے نمٹنے کیلئے اپنے آپ کواعتماد کے ساتھ تیار رکھنا ہوگا اور یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب ہمارے سیاسی قائدین الزام تراشی کی سیاست کو ختم کرتے ہوئے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے عمل کو ختم کردیں اور درپیش چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے متحد ہو جائیں۔ پچاس سالہ ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے اور اتحادیوں کا انتخاب کرنے کیلئے ہمارے پاس یہ تاریخی موقع ہے اورپنی قومی سلامتی کے پیش نظر ماضی میں اختیار کئے جانیوالے غلط راستوں کو درست کیا جاسکتا ہے۔
صدر ٹرمپ کی ہرزہ سرائی اور دھمکیوں سے نمٹنے کیلئے ہمیں اپنے دفاع میں تزویراتی گہرائی پیدا کرنا از بس لازم ہے۔ اس مقصد کیلئے ہمیں پاکستان‘ ایران‘ افغانستان اور ترکی کا اتحاد بنانے کی ضرورت ہے‘ جس کی مدد کیلئے اللہ تعالی نے پہلے ہی چین اور روس کو ہماری معاونت کیلئے متعین کر دیا ہے۔ سبحان اللہ!
وزیر دفاع دا اسرائیلی وزیر دفاع دے ناں منسوب جھوٹی خبر تِ رد عمل ڈے ڈیتا