غلطی سازش یا انڈسٹری ختم کرنیکی سازش
ازقلم۔ فیصل شہزاد چغتائی
گزشتہ روز آگ سے جل جانیوالے ایک انڈسٹری جو 1987میں وجود میں جوانی ڈینم ملز کے نام سے پوری دنیا میں ڈینم فیبرک بنانے میں ابھری اور پوری دنیا میں فیشن انڈسٹری کے لیے جینز میں اہم نام تھا، مسلسل آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ سیفٹی کے ناقص انتظامات اور ہیلتھ اینڈ سیفٹی آفیسرز کا نا ہونا اس کی خامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں اتنی بڑی انڈرسٹری جو ایک اہم درجہ رکھتی ہو جہاں چار سو سے زائد افراد ہر قسم کا ڈینم فیبرک تیار کرتے ہوں اور معیاری سلائی کیساتھ پوری دنیا میں پاکستان کا نام منوا رہے ہوں اس کمپنی میں سیفٹی اینڈ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کا نہ ہونا افسوس ناک امر ھے اتنے گھروں کا روزگار سے مفلوج ہو جانا اور کروڑوں روپے کا نقصان ہو جانا ڈینم انڈسٹری پاکستان کے لیے تو افسوس ناک ھے اور پاکستان سے ایک کمپنی جو پاکستان کی شہرت میں اعلی کردار اپنی پراڈکٹ کی کوالٹی سے کر رہی تھی وہ نام آج خاک کستر ہو گیا، کل رات سے لگنے والی آگ نے پوری فیکٹری جلا دی، کراچی انڈسٹریل زون لانڈھی ، کورنگی انڈسٹریل زون، سائٹ ایریا ، حب انڈسٹریل زون اور پورٹ قاسم انڈسٹریل ایریا میں بے شمار کمپنیاں ہیں جہاں سیفٹی کے انتظامات نہ تو ہیں اور نہ ھی اس قسم کی ان کے کسی ملازم کو ٹریننگ دے جاتی ہے تاکہ ایسی واقعات کی وجہہ کی بنیاد پر کام کیا جائے جب ایک ادارے میں ہیلتھ اینڈ سیفٹی تدابیر ہی استعمال نہیں کی جائیں گی تو وہ ادارے ایسے خاکستر ہوتے جائیں گے ہر انڈسٹری کسی نا کسی کمپنی سے انشورڈ ہوتی ھے لیکن وہ گھر انشورڈ نہیں ہوتے جو اس کے جل جانے کی وجہہ سے بے روزگار ہو جائیں گے ان کی کفالت کون کرے گا ؟ یہ ایک افسوس ناک مرحلہ ھے کہ ہم چند پیسے سیفٹی پر لگانے کی بجائے انہیں سیفنگ اکاؤنٹس کی زینت بنا دیتے ہیں یا دوسرے کاموں میں اڑا دیتے ہیں اتنے بڑے شہر میں اگر ہر کمپنی میں ایک ایسا ادارہ تشکیل دے دیا جائے جو ان حادثات سے بچنی کے لیےہو فیکٹری ، اسٹاف کو کسی بھی حادثے سے محفوظ رکھنے کے لیے کام کرے تو کروڑوں روپے کے نقصان ہونے کی نوبت تک نہ آئے ۔ احتیاط لازم ہے ۔۔۔۔ بدقسمتی سے کراچی انڈسٹریل ایریاز جو پورے پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کہلاتے ہیں یہاں تو سیفٹی دور یہاں سڑکوں تک کا نظام نا ہونے کے برابر ھے نالوں سے پانی کا نکاس ، کے ایم سی کی نا اہلی کچرا سڑکوں کے کنارے ، ٨ سال پہلے کورنگی انڈسٹریل ایریا اور کراچی کی اطراف گرین بیلڈ بننے والی بیلڈز اب ویران کھنڈرات کی منظر کشی کر رہی ہیں ہر طرف کچرا دھول ، مٹی ، گٹروں کا پانی یہ ظاہر کرتا ہے کہ جو پاکستان کی ریڑھ کی ھڈی ھے اسی کو نظر انداز کر دیا گیا ہے سونے پر سہاگہ کہ ٹیکس از ٹیکس لاگو ہوتے جا رہے ہیں ٹیکس ادا بھی ہو رہے ہیں جن سے گورنمنٹ کے ادارے جو واٹر بورڈ ، کے ایم سی اور ہیلتھ سالوں سے غائب ہیں جو کچھ چل رہا ھے صرف اللہ کے رحم و کرم پر چل رہا ھے چورنگی پر نصب سگنل نا جانے کہاں گئے ، گرین بیلڈ جانے کن کی نظر ہو گئے فٹ پاتھ جو چلنے کے لئے چلائے گئے کہاں گئے یہاں تک کہ ٹرانسپورٹ مافیا ، اسٹریٹ کرائم مافیا آزادانہ طور پر ابھی تک انڈسٹری میں اپنے پنجے گڑائے ہووے ہے۔ ایسے میں کسی کی مدد اور سیفٹی کے بارے سوچنا عجیب سا ہے لانڈھی میں اتنا بڑا حادثہ ہو جانا اور فائربرگیڈرز کی گاڑی کا نا آنا پانی دستیاب نا ہونا اس کا ثبوت دیتا ہے کہ کہیں نا کہیں ہمارے ریسکیو ادارے بھی اس کے قصور وار ہیں اگر بروقت امداد مل جائے تو شاید ایسی انڈسٹری کو بچایا جا سکے لیکن انڈسٹری بچانا دوسرے فیز پر آتا ہے پہل تو انڈسٹری کے اندر سیفٹی ڈپارٹمنٹ کے کام نا کرنا اگر ہونا تو ناقص سیفٹی انتظامات اور بغیر ٹریننگ شدہ لوگ ہونا ھی حادثات کا سبب بنتے ہیں حکومت اور انڈسٹری سوچوں سے باہر نکل کر سوچے اگر خدانخواستہ اس فیکٹری میں چار سو مزدور جب آگ لگی ہوتے تو ان کے گھرانوں کی کفالت کون کرتا اس اتنے بڑے حادثے کا ذمہ دار کون ہوتا؟ اس آگ لگنے کو اب جہالت کہیں ، حادثہ کہیں ، سرکار کی مدد نا کرنا کہیں یا سیفٹی انتظامات نا ہونے کی وجہہ نااہلی کہیں ،،،،، فیکٹری جل گئی ۔۔۔ ایک برانڈ جو ڈینم ھائی کوالٹی بنا رہا تھا شاید اب پھیر سے سالوں لگ جائیں ایسی انڈسٹری بننے میں ۔۔۔۔ صرف چند خامیاں اور چند چیزیں نظر انداز کر دینے کی وجہہ ہیں اگر ہر انڈسٹری میں سیفٹی اسٹنڈرز کو نظر میں رکھا جائے تو شاید حادثات نا پید ہو جائیں چند روپے سیفٹی پر لگا کر انڈسٹری کوں اپنی مدد آپ کے تحت مزید اپنی فیکٹریوں کو محفوظ بنانا ضروری ھے اور اپنے اداروں میں موجود ایسے افراد مختص کرنے ضروری ہیں جو ابتدائی مراحل میں کام کر سکیں اگر لانڈھی میں جو حادثہ ہوا اس میں اگر ابتدائی طور پر اس آگ پر قابو پا لیا جاتا تو ایسی نوبت نہ آتی۔ یہ اگر اگر کام کرنے کے دوران لگتی تو شاید اس کا ازالہ سالوں تک بھگتنا پڑتا ۔ یہ مسلسل فیکٹریوں میں لگنے والی آگ کا سلسلہ اب ہر انڈسٹری میں ہونا حکومت کی نا اہلی بھی ھے حکومت کا فرض بنتا ہے ہر فیکٹری میں سیفٹی اسٹنڈرڈ لازمی کریں تاکہ وہاں کے لوگ بھی محفوظ ہوں اور اس طرح کے حادثات سے بچا جا سکے۔ اور جو ادارے ریسکو کرنے کے لیے موجود ہیں ان کے پاس گاڑیاں نا ہونا فائر سے نمنٹنگ کے ذرائع نا ہونا بھی قابل افسوس ہے ریسکیو میں بھرتی ہونے والے ہر فرد کی تربیت بہت ضروری ھے بغیر ٹریننگ کے کسی بھی ایسی فرد کو بھرتی نا کیا جائے جو آگ کے درجوں کی ترتیب تک نا سمجھتا ہو۔ حکومت مستقبل میں مزید ایسے حادثات سے نمنٹنے کے لیے اہم کردار ادا کرے اور ایسی ہر کمپنی کو پابند کرنے کے ساتھ ساتھ ریسکیو کرنے والے اداروں پر بھی پابندیاں لگائے کہ وہ کسی بھی حالات سے نمٹنے کے لیے ہر لمحے تیار رہیں۔ وقت پر دوا بھی اثر کرتی ھے کچھ بھی ہو ریجنٹ پلازہ ، سائٹ ایریا اور اب کورنگی انڈسٹریل ایریا یہ گواہی ضرور دیتا ہے کہ حکومت اور انڈسٹری کو ایک ٹیبل پر بیٹھ کر سنجیدگی سے ان معاملات کو حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انڈسٹری میں مزید ایسے معاملات ہونے سے بچا جائے اور انڈسٹری پاکستان کی بنیاد کی حیثیت رکھتی ھے اور معشیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے اگر انڈسٹری کو ھی نظر اندار کر دیا جائے گا وہاں کی سڑکیں وہاں کے نکاس آب ، وہاں پانی کی فراہمی، بجلی ، گیس اور تمام ایسے معاملات کی سہولیات زیادہ سے زیادہ ہوں تاکہ پاکستان ترقی کرے جو لوگ پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ان کا تحفظ بھی حکومت کا فرض بنتا ہے آخر میں اتنا کہوں گا چند ہزار یا لاکھ روپے سیفٹی کے انتظامات نہ کرنا بے وقوفی ہے اور نا اھلی بھی اج اگر سیفٹی اسٹنڈر پاکستان انڈسٹری میں لاگو کروایا جائے تو بہت سی کمپنیاں اس طرح زیر خاک ہونے سے بچ سکتی ہیں ۔ تھوڑی سی غلطی سالوں کا پچھتاوا بننے سے بچ سکتا ہے۔ آج 400 سے زاہد گھرانے بے روزگار ہوں گے اور نا جانے کب تک یہ لوگ بے روزگار بیٹھے رہیں گے ان کے گھروں کے چولہے کیسے جلیں گے اور کون ان کی مدد کرے گا ؟ وہ جس کی انڈسٹری جل گئی جو پہلے سے سکتے میں ہے یا حکومت وقت جو پہلے سے بروزگار افراد کے لئے کچھ نہیں کر رہی ؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا کوئی جواب نہیں کیوں کہ جواب وہاں بنتا ھے جہاں کوئی سسٹم ہوتا ہے۔