| |

تعارف ۔ حضرت خواجہ  سائیں بابا ولایت علی شاہ قلندر رحمتہ اللہ علیہ

 

حضرت خواجہ  سائیں بابا ولایت علی شاہ قلندر رحمتہ اللہ علیہ
چشتی نظامی صابری قادری حیدری قلندری نورانی

انٹرویو۔ فیصل شہزاد چغتائی

Ad Setup by Google

دنیا میں ہر خطے میں کہیں نہیں کہیں اللہ کے نیک لوگ اپنی خدمات انجام دے رھیں اور ایسی ہستیاں گزری ھیں جن کی فکر افکار اور دین کی محبت اور عشق حقیقی نے انہیں تاقیامت تک زندہ رکھا ھے۔ ولیوں کی تعلیمات کا صدقہ ہے کہ آج خطے میں لوگ محبتوں کا پرچار کر رہے ھیں اور ان کی قبروں پر رب العزت کی طرف سے کلام پاک ، درود پاک کی بارشیں دنیا میں رھنے والی مخلوق سے ھی کروا رہا ہے ولی کی پہچان دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد ان کے مزار اقدس پر رب العزت کی طرف سے تحائف کلام کی صورت میں ملتے رھتے ھیں ۔

 

جو کلام پڑھ کر انہیں ایصال کیا جاتا ھے در حقیقت انہیں کے صدقے اپنی مغفرت کا باعث بنتا ہے ۔ ان نیک اور برگیزدہ ہستیوں میں ایک نام حضرت خواجہ سائیں بابا ولایت علی شاہ قلندر رحمتہ اللہ علیہ کا ہے۔  جہاں لاکھوں کی تعداد میں عقیدت مند اپنی محبت کا اظہار کرتے ھیں چادر چڑھاتے ھیں اور اپنے مرشد کو اپنے اپنے انداز میں راضی کرنے کی کوشش کرتے ھیں۔ کراچی ایئرپورٹ سے متحصل ملیر کورٹ کے نزدیک حضرت خواجہ سائیں بابا ولایت علی شاہ قلندر رحمتہ اللہ علیہ کا مزار مبارک ھے جہاں ہر جمعرات مولا علی سے محبت رکھنے والے خواجہ معین الدین اجمیری رحمتہ اللہ علیہ سے محبت رکھنے والے چستی ، نظامی ، صابری ، قادری حیدری ، قلندری نورانی سلسلے میں بعیت ہوئے مرید شرکت کرتے ھیں کلام پڑھ کر ایصال فرماتے ھیں درود شریف کے نذرانے پیش کئے جاتے ھیں محفل سماع میں اپنے مرشد سے جڑے رھنے کا اظہار کرتے ھیں ۔۔۔ کوئی ان کے رنگ میں رنگ کر کوئی اپنے مرشد کے لیے نعرہ لگا کر محبتوں  کا  اظہار کرتا ہے ۔۔۔

 

عرس مبارک حضرت خواجہ سئیں بابا ولایت علی شاہ قلندر رحمتہ اللہ علیہ میں اس بار حاضری کا شرف ملا تو یہاں کے  آستانے کا نظم و ضبط اور ترتیب دیکھ کر دل بہت پر مسرت ہوا اور  اپنے ایک محسن کے توسط سے اظہار کیا کہ جناب سے ملاقات کا شرف مل جائے اور ایک مختصر سا تعارف ہو جائے اس سلسلہ میں سجادہ نشین درگاہ و چیئرمین ٹرسٹ حضرت سائیں بابا ولائیت علی شاہ قلندر رحمتہ اللہ علیہ، حضرت امیر احمد انصاری چشتی قلندری دامت برکاتہم العالیہ سے ملاقات کا شرف ملا۔ ان کی شفقت اور محبت کو الفاظوں میں تحریر نہیں کیا جا سکتا۔ اس دور میں بھی جس طرح حضرت دنیاوی معاملات کے ساتھ ساتھ آستانہ کے نظام کو سنبھالے ہوئے ھیں وہ قابل تحسین ہیں۔

 

مزار مبارک میں مدرسہ میں زیر تعلیم طلباء و طالبات کی رہائش تعلیم و تدریس کا نظام بہت ہی صاف ستھرا اور بہتر ملا مزار مبارک میں ان کی محنتوں اور کوششوں کی وجہ سے کوئی نشہ یا غلط حرکتوں میں ملوث نہیں پایا جاتا، عورتوں بیٹیوں کے لیے پردہ کا انتظام ، سیکورٹی کے امور انجام دہی روز کے معمور پر زائرین کو تحفظ اور حاضری میں کسی قسم کی رکاوٹ نا آئے تمام تر سہولتوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ایک مکمل نظام جو ہر جمعرات کو جشن کی صورت میں زائرین مریدین اور عقیدت مند بابا ولایت علی شاہ قلندر سے اپنی محبتوں کا اظہار کرتے ھیں وہاں سجادہ نشین درگاہ حضرت امیر احمد انصاری چشتی قلندری دامت برکاتہم العالیہ کی شفقت اور روحانی تعلیمات سے فیض یاب ہوتے ھیں۔

ان سے نشست میں سجادہ نشین درگاہ بابا ولایت علی شاہ امیر احمد انصاری نے بتایا کہ یہ برگزیدہ ہستیاں جس جگہ بھی مدفن ہوئیں، اپنے کردار ، تقوی ریاضت ، یاد الہی اور اللہ اور اس کے رسول کی مکمل پابندی کے باعث کل بھی زندہ تھیں اور آج بھی زندہ ھیں اور انہی ایک ہستیوں میں سے میں ایک نام حضرت سائیں بابا ولایت علی شاہ کا ھے جن کا کتابِ عمر کا کتابچہ عشق الہی کے عنوان سے شروع ہوا اور جن کے نفس کے اوپر اثباتوں کی مہر لگی ہوئی تھی آپ کا اصل نام حافظ نور احمد انصاری تھا آپ ١٨٤٢ء میں بھارتی صوبہ اترپردیش تحصیل ضلع  کیرارا  میں مشہور عالم دین حافظ بہادر الدین علی کے گھر پیدا ہوئے کس کو پتہ تھا کہ یہ نومولود آگے جا کر عجائبات عالم کا مطالعہ کرے گا۔  ایک خاموش طباء بزرگ ہوگا اللہ اس کو ایسے اعزازات سے نوازے گا بابا ولایت علی شاہ صاحب  کا سلسلہ نسبت قاضی وجہی الدین قطبِ مدینہ حضرت ایوب انصاری سے جا کر ملتا ہے۔ان کے بیٹے یحییٰ مدنی ریگستانوں کو عبور کرتے ہوئے انڈیا میں داخل ہوئے اور یہاں ان کو صوبیداری کا منصب انگریزوں نے دیا۔جب آپ کرنال میں آ کر آباد ہوئے تو کرنال میں جتنے بھی پانی پت کے لوگ تھے وہ بھی یہاں آ کر آباد ہو گئے بابا ولایت علی شاہ صاحب طریقت کے متلاشی تھے اور آپ کو اللہ نے جسامت اور ہر طرح کی خوبصورتی سے نوازا تھا ۔ ١٦ سال کی عمر میں آپ کی شادی ہوئی ، ٩ سال کی عمر میں آپ نے قرآن پاک حفظ کر لیا تو پہلا طریقت کاسبق بہنوئی کیساتھ جائیداد کا تنازعہ بنا جو بابا ولایت علی شاہ کے لیے طریقت کا پہلا سبق ثابت ہوا۔آپ نے اپنے گھر بار کو چھوڑا اور اللہ کی راہ میں نکل پڑے۔ کسی کو یہ نہیں پتہ تھا کہ وہ حافظ نور احمد انصاری ہیں کہاں لیکن شادی ہو چکی تھے شادی کے کچھ ماہ بعد آخر آپ وہاں سے نکلے تو آپ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ریگستانوں  پہاڑوں کی خاک چھانتے چھانتے خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ کوٹ مٹھن شریف والوں کے مزار اقدس پر لے آیا۔جہاں خواجہ صاحب نے اپنے فیوض سے آپ کو گوہر نایاب ھیرا بنایا آپ نے دس برس تک گونگے اور بہرے بن کر خواجہ صاحب کی خدمت کی لیکن چونکہ آپ طریقت کے متلاشی تھے اور آپ قلندری سلسلے میں جانا چاہتے تھے تو ایک رات کو بوُ علی شاہ قلندر کا خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ کو خواب میں اشارہ ہوتا ہے۔کہ یہ بچہ حافظ نور احمد انصاری اس کو ہمارے پاس بھیج دو ۔ اس لئے کہ علی کہ مہر وہی لگا سکتا ہے جو ایتھروائزڈ ہو۔خواجہ صاحب نے تو اپنا کام پورا کر دیا بعیت کر لیا عبادت کروا لی ، اپنے پاس تربیت دے دی۔اب اس کو وہی ایتھروائزڈ کر سکتا ہے جس کے پاس علی کی مہر ہو ۔ تو خواجہ صاحب کا تو بابا ولایت علی شاہ صاحب حکم تو نہیں ٹال سکتے تھے کیونکہ آپ ان کے بہت ہی چہیتے مرید تھے۔تو آخر آپ جب وہاں سے نکلے ایک رات بوُ علی شاہ قلندر کے مزار اقداس پر آئے تو نا انہیں یہ علم تھا کہ میرے محبت کرنے والے بہن بھائی یہاں رہتے ھیں بیوی میری موجود ہے باپ میرا یہاں موجود ہے۔لیکن اللہ کی راہ میں جو نکل جاتا وہ بھول جاتا ہے۔تو آپ اپنے اقتباسات میں فرماتے ھیں کہ بو علی شاہ قلندر کو میں نے اپنے مزار پر اس طرح بیٹھے ہوئے دیکھا کہ جس طرح ایک سوار گھوڑے کے اوپر بیٹھتا ہے۔بو علی شاہ قلندر نے کہا کہ نور احمد تیس سال تک تو تم نے جنگلوں ، ریگستانوں میں عبادت کرنی ہے اس کے بعد تم نے دریائے جمنا میں بالادست چلہ کاٹنا ہے حکم قلندری تھا آپ وہاں سے نکلے ٣٠ سال تک ریگستان کی خاک چھانتے رہے اور اللہ کے ذکر کے سوائے کچھ نہیں تھا تو ایک وقت ایسا بھی آیا کہ گھنٹوں بابا ولایت علی شاہ صاحب کنویں میں جنگلوں کے اندر الٹے لٹک کر ذکر کیا کرتے تھے اور آپ کو انہوں نے ذکر اسدی دیا تھا۔ذکر اسدی اس طرح ھے جس طرح شیر بولتا ہے۔یہ سمجھیں کہ ذکر کی بھی قسمیں ہیں ذکر جلید، ذکر خفی،  ذکر اسدی، تو آپ ایک دن اچانک دریا جمنا کے ساحل پر نمودار ہوئے وہاں ایک غیر مسلم کا باغیچہ تھا۔تو آپ دن بھر تو وہاں رہتے اور شام ہوتے ہی اس کے اندر گھس جاتے ہماری والدہ جب ان کے پاؤں دبایا کرتی تھی تو بتاتی تھیں کہ ان کی پنڈلیوں کے اوپر اتنے بڑے بڑے زخم تھے جیسا کہ آج کل جیلی فش کے کاٹنے سے ہوتے ھیں تو وہ  گوشت کو کھا گئیں تھیں

آخر ١٢ برس کے بعد آپ کو حکم ہوا کہ اب تمہاری عبادت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہم نے تمہیں اپنی راہ میں قبول کر لیا۔تو آپ سیدھے وہاں سے بُو علی شاہ قلندر کے مزار اقدس پر حاضر ہوئے۔اور یہ سمجھیں کہ جب آپ بُو علی شاہ قلندر کی مزار اقدس پر پھنچے تو آپ اپنے ریش بالوں سے مزار اقدس کی جھاڑو دیا کرتے تھے۔ ایک دن محفل سماع ہو رہا تھا تو آپ بیٹھے ہوئے تھے آج کل تو لوگ کوئی کودتا ہے تو کوئی کچھ کرتا ہے لیکن آپ خاموشی سے بیٹھے رھتے جب نعرہ لگاتے تھے “اللہ” کا تو جاتے تھے اوپر اور جب “ھُو”  کا نعرہ لگاتے تو نیچے آتے تو پورا منہ پھٹ گیا تھا ۔تو اندر سے بُو علی شاہ قلندر کے مزار اقدس سے آواز آتی ہے کہ جا ہم نے تجھے ولایت علی شاہ قلندر بنایا اس لیے کہ قلندر کی ڈگری صرف بُو علی شاہ قلندر ھی دے سکتے ھیں۔ان کے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا۔اس کے بعد آپ نے ابراھیم لودھی کے مزار کے پاس  ولایت علی شاہ کے نام سے ایک باغیچہ بنایا اور پھر آدھا دن یہاں باقی دن شیخ نظام الدین اولیاء اور اپنے خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار اقدس پر رھا کرتے تھے۔

وہاں آپ نے ابراھیم لودھی کے مزار کے پاس مسافر خانے بھی تعمیر کئے اور باغیچہ بھی بنایا تھا ۔ سن ١٩٢٣ میں بابا ولایت علی شاہ نے ایک وصیت لکھی تھی اس لیے کہ بابا ولایت علی شاہ کو ڈھونڈنے والے بھی میرے والد تھے۔میرے والد بابا ولایت علی شاہ کے بیٹوں میں سے ہیں۔اس لیے کہ عرف فقیر کسی کو نہیں ملتا اور پھر جب میری باری آئی تو آپ نے اس میں یہ لکھا ١٩٢٣ کی کہ ہم جس جگہ جائیداد بنائیں گے حافظ فاروق احمد انصاری کے بعد نسل در نسل اسم پسر پیدا ہوگا۔نسل در نسل کا مطلب یہ ہے کہ بڑی صفت اولاد۔اللہ کے کرم سے اللہ نے پیدا کیا میرا نام تنویر احمد رکھا گیا لیکن میں اٹک میں پیدا ہوا تو یہاں سے مجھے دیکھنے گئے تو آپ نے فرمایا کہ کیا نام رکھا ؟ کہا حضرت میں نے تو اس کا نام تنویر احمد رکھا ہے آپ فقیر احمد بھی رکھ دیں تو بھی مجھے قبول ہے آپ کہنے لگے یہ تمہاری اولاد نہیں ہے یہ میری اولاد ہے اس کا نام امیر احمد رکھیں یہ ہمارے نظام کو سنبھالے گا بندہ تو اس قابل نہیں ہاں وہ رب العزت جس سے چاہے کام لے ۔ تو درگاہ میں یہ جتنا بھی کمال دیکھ رہے ھیں یہ اللہ کے ذکر کا کمال ہے میری کوئی طاقت نہیں ہے۔ہاں البتہ میں نے پوری کوشش کی کہ درگاہ کو سنت کے مطابق رکھا جائے اس لیے کہ فقیری ہے اور فقیر وہی ہے جو سنت رسول کا پابند ہے اب میں یہاں کہوں کہ بابا ولایت علی شاہ صاحب کے مزار کے نیچے پتھر گھومتے ھیں جو بشیر علی تھے اس وقت کے ڈاکو تھے بابا ولایت علی شاہ صاحب کے سامنے آئے تو اب وہ ایک ولی بن گیا۔یہ تو ایک عام سی بات ہے لیکن سب میں بڑی چیز سنت رسول کا پابند ہونا ہے اور اللہ نے مجھے توفیق دی جتنی خرافات تھی یہاں سے وہ سب میں نے ختم کی ، جس میں زائرین نے محبتین نے اللہ کی ذات نے میرا ساتھ دیا قانون نے میرا ساتھ دیا اور آج اللہ کا کرم ہے یہاں ہر جگہ اللہ کا ذکر مل رہا ہے پوری درگاہ میں نا کوئی سیگریٹ ہے نا کوئی چرس ہے نا کوئی پیئر بیٹھے ھیں جو درگاہوں پر خرافات ہوتی ھیں میں نے اپنے طور پر اس کو ختم کرنے کی کوشش کی اور میں اس میں کامیاب ہوا ۔ اور انشاء اللہ دعا یہ فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ثابت قدم رکھے۔اس لیے کہ میرے بیٹھے ارسلان اور ذیشان بھی اسی میں لگے ہوئے ھیں اور دونوں یہ سمجھیں کہ بلدیاتی آفیسرز ھیں میں خود گورنمنٹ آفیسر ہوں۔لیکن یہ سب کچھ عطا کردہ بابا ولایت علی شاہ کا ہے میں کسی قابل نہیں ہوں ۔ اب یہ اللہ والوں کی شان ہے۔

ایک سوال کے جواب میں سجادہ نشین ولایت علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ حضرت امیر احمد  انصاری چشتی قلندری دامت برکاتہم العالیہ نے کہا کہ بابا ولایت علی شاہ صاحب جب آئے تھے توں آپ نے سب سے پہلے مسجد قائم کی اور مدرسہ بابا ولایت علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ کا قاری ممتاز درس دیا کرتے تھے۔اب بھی ماشاء اللہ مدرسہ ہذا میں ٨٠ سے زائد طلباء علم اور طالبات زیر تعلیم ہیں جو مختلف شہروں سے یہاں علم حاصل کرنے کے لیے آئے ھیں جن کی رہائش اور تمام انتظام آستانہ ہذا کی ٹرسٹ سے چلتا ہے۔ مدرسہ ہذا میں دین کے تمام امور کے بارے تربیت دی جاتی ہے وضو سے لے کر نماز ادائیگی اور حفظ القرآن تک۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ ایسے لوگوں کو دین کی تعلیم دی جائے جو اب تک دین کی تعلیم سے محروم ہیں۔ ہمارا نا کسی سیاست سے تعلق ہے نا ہی ہمارا ٹرسٹ یا ادارے اس میں جاتا ہے۔اللہ والوں  پکڑ لو اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اس سے بڑھ کر کوئی بڑی ذات نہیں۔ سلسلہ چشتیہ کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں سجادہ نشین ولایت علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ حضرت امیر احمد انصاری نے کہا کہ چشتیہ سلسلہ میں دیکھیں کہ جب ناگا ساگر کوں ایک کوزے میں بند کر دیا تو ان کی کیا طاقت ھے تو انہوں نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے بابا ولایت علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ کو معین پاکستان کا لقب عطاء کیا تھا اور بوُ علی شاہ قلندر نے ولایت علی شاہ کا لقب عطاء کیا۔جب یہاں آئے توں یہاں جنگل تھا برابر میں نواب بہاول پور کی کوٹھی تھی۔ اس وقت ان کا طوطی بولتا تھا۔ مزید ایک سوال کے جواب میں کہ مخیر حضرات اور ادارہ تعاون کرنا چاہئے تو کس طرح کر سکتا ہے؟ اس کے جواب میں سجادہ نشین امیر احمد انصاری چشتی نے کہا کہ ہم ایک رجسٹرڈ ٹرسٹ چلا رے ھیں جس میں اگر کوئی مخیر حضرات یا ادارے چاہے تو وہ مدرسہ ھذا یا لنگر میں اپنی حسب توفیق حصہ ملا سکتے ھیں۔لیکن ہماری طرف سے کسی کو امداد کے لیے یا لنگر میں حصہ ملانے کے لیے مجبور نہیں کیا جاتا اور نا ہی کہا جاتا ۔ جس کا جو دل کرے اپنی مرضی سے تعاون فرما سکتا ہے۔کیونکہ ہم توکل اللہ پر رکھتے ھیں اور جس نے اللہ پر توکل کیا وہی کامیاب ہوا اور جس نے دنیا کو دیکھ لیا وہ ختم ہو گیا۔ سجادہ نشین بابا ولایت علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ امیر احمد  انصاری چشتی نے کہا کہ اللہ رب العزت مجھے جب تک زندہ رکھے ان کی خدمت کرتا رہوں اور دین کے لیے وقف ہو جاوں اور یہاں کا نظام صحیح چلتا رہے۔آنے والے مریدین زائرین عقیدت مندوں کو میری ذات سے کسی قسم کی تکلیف نا ہو۔   سیکورٹی کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سیکورٹی کے حوالے سے گورنمنٹ سے تعاون حاصل رہا ہے جس میں پولیس اہلکار اور رینجرز اہلکار نے بھر پور تعاون کیا۔ جس کا میں مشکور ہوں۔ مریدین کے لیا کیا پیغام دینا چاھیں گے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ جب تک مریدین سنت رسول کی پابندی نا کریں گے کچھ بھی نہیں ملے گا نماز پہلے ہے فضل عین ہے ۔

صرف سلسلے میں آ گئے نماز معاف ، ایسا کچھ نہیں یہ سبھ جھوٹ ہے غلط ہے اگر ایسا ہوتا تو آپ نے یہ دیکھا ہوگا کہ ہر پیر کی اولاد یوں چوڑی ہوئی پھیرتی ہے دس اس کے ساتھ مرید ہوتے ھیں آگے بدمعاشی کرتا پھیرتا ہے وہ۔بات یہ ہے کہ تیرا دادا ولی تھا تو کیا چیز ہے؟جب تک آپ اپنے اندر عاجزی انکساری پیدا نہیں کرو گے مخلوق کی خدمت نہیں کرو گے تو آپ کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔نماز میں کوئی چھوٹ نہیں کیونکہ کوئی بھی سلسلہ سنت رسول اللہ کے بغیر ممکن نہیں اور سنت رسول ہی نماز قائم کرنے کا درس دیتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجھے امام حسین سے محبت کیوں ہے میں ایک سچہ واقعہ بتاتا چلوں۔میں ١٤ برس کا تھا اس وقت میں محمدیہ سیکنڈری میں پڑھتا تھا۔ ١٤ برس کے اندر بچے کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ میں نے کدھر جانا ہے کیا میرا مستقبل ہوگا کیا حال ہوگا۔خادم سکول چھوڑنے جاتا تھا تو کندھے کے اوپر بیٹھ کر جاتا تھا۔وہ وقت بھی دیکھا ہے میں نے تو مجھے حکم دیتے ھیں کہ رات کو ناد علی پڑھ کر سویا کرو ۔اچھا فقیر کہلوانا نا کوئی شیعہ ہے نا سنی ۔ اس لیے کہ شیعہ بھی بغیر سنتوں کے سنی ہونے کے شیعہ نہیں ہو سکتا۔ مطلب پہلے سنت ادائیگی کرے۔ پہلے دن میں نے ٹالا دوسرے دن ٹالا تیسرے دن مجھے ڈانٹ کر بابا ولایت علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے کہا یقین مانیں کہ میری جان نکل گئی۔ اس دن کا دن ہے اور آج کا دن ہے پانچ ہزار بار ناد علی صرف قرآن پڑھ کے سوتا ہوں اور یہ صرف اللہ کے ذکر کا کمال ہے میرے باپ کی طاقت نہیں کہ میں اس کو بنوا سکوں۔اور فقیر کہنا نا شیعہ ہوتا ہے نا سنی ہوتا ہے۔ انٹر ویو کے آخر میں طب نبوی اور رحانیات کے حوالے سے سوال کے جواب میں سجادہ نشین امیر احمد  انصاری چشتی نے فرمایا کہ میری اوقات نہیں ۔۔۔ میرا فرض یہ ہوتا ہے کہ میں ان کو سچی بات بتا دوں اور روحانی مسائل میں بھی مدد اللہ کے کلام سے دی جاتی ہے شفاء یاب کرنا رب العزت کا کام ہے۔ہاں اگر میں کہہ دوں کہ میں ولی اللہ ہوں تو یہ میری تباہی ہے۔

انٹرویو کے آخر میں ادارہ سرائیکی نیوز کا تعلق آستانہ بابا ولایت علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ سے قائم رکھنے کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ تمام آئندہ عرس کی لائیو کوریج کی جائے گی۔ جس پر سجادہ نشین امیر احمد  انصاری چشتی نے کہا کہ میں ادارے کا بھی مشکور ہوں کہ میں سرائیکی نیوز کی دن دگنی رات چگنی ترقی کے لیے دعا گو ہوں ۔

سرائیکی نیوز کی طرف سے مختصر تعارف کی کوشش کی گئی جس میں سجادہ نشین محترم حضرت امیر احمد انصاری چشتی قلندری دامت برکاتہم العالیہ نے محبتوں سے نوازا اور مضامین پر مشتمل گلدستہ ۔ حضرت سائیں بابا ولایت علی شاہ قلندر رحمتہ اللہ کے فکری و تعمیر اور تبلغی حوالے کے بارے کتابچہ اور حضرت خواجہ سائیں بابا ولایت علی شاہ قلندر رحمتہ اللہ علیہ کی تصویر مبارک عنایت فرمائی۔ جس پر ادارہ مشکور ہے اور انشاء اللہ دامے درمے سخنے آستانہ بابا ولایت علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ قدم بہ قدم اپنی خدمات انجام دیتا رہے گا۔

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *