سرائیکی صوبہ ردی کی ٹوکری
| |

سرائیکی صوبہ ردی کی ٹوکری

تحریر: فیصل شہزاد چغتائی

جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ھے ویسے ویسے ١٠٠ دن میں سرائیکی خطے کو صوبہ بنانے کے معاملے پر بات کرنا بھی گناہ جیسا تصور کیا جا رہا ہے، فیاض چوھان کا صوبہ بنانے سے منحرف ہونے کا بیان،. خسرو بختیار کا جنوبی پنجاب تحریک کو پی ٹی آئی میں ضم کر دینا اور اس موضوع پر بات نہ چھیڑنے کی تلقین کی جاتی ہے، آخر کیوں… کیا پنجاب صوبہ کوئی ملک ہے جس کی تقسیم بنگلہ دیش جیسی تصور کی جا رہی ہے،. یا پنجاب کسی کی جاگیر و وراثت میں ملی ہوئی جائیداد ہے،. کہ اتنے قرب کا سامنا کرنا پڑے گا، معذرت کیساتھ یہ نہ برصغیر ھند کی تقسیم ہے نہ ہی یہ بنگلہ دیش جیسا معاملہ ہے اور نہ ہی یہ سرائیکی خطہ کشمیر ہے، جب سرائیکی خطے پر پنجاب اور پنجابیوں کی محر لگنا شروع ہوئی، جب سرائیکی خطے پر آباد سرائیکی قوم کو دنیا میں پنجابی ظاھر کر کے پنجابی زبان اور قوم بنا کر پیش کی گئی اور جا رہی ہے تو یہ حق تلفی ہے ہر اس فرد کی جو اس سرائیکی خطے سے جڑا ہے جس خطے کے بچوں کو اپنے گھر کی حفاظت کے لیے گورنمنٹ اداروں میں جگہ نہیں دی گئی، ہر بڑی پوسٹ پر صرف پنجابی کو بیٹھا دیا گیا،. کوئی در ایسا نہیں چھوڑا کہ جہاں اس خطے کے لوگ انصاف کے لیے دستک دے سکیں، اب تو یہاں تک کہ سرائیکی خطے میں تمام اداروں میں سرائیکی بولنے پر ایسے سمجھا جاتا ہے جیسے کسی دوسرے ملک کے باشندے ہوں یا اقلیت ہوں، سڑک پر چالان کا معاملہ ہو، پولیس تھانوں میں انصاف کے لیےجانا ہو اگر آپ سرائیکی بولتے ہیں تو آپکا جو کام ھونا ہوتا ہے اسے نا ممکن کے قریب کر دیا جاتا ہے صرف سرائیکی بولنے پر، دوسری طرف اگر وہی سرائیکی پنجابی بولے تو نا ممکن کام کو ممکن بنانے کی راہ ہموار کر دی جاتی ہے ایکطرف صوبہ سندھ جہاں بچوں کو ضروری سندھی پڑھانے پر سکول کی رجسٹریشن ملتی ہے اداروں میں سندھی کے علاوہ اردو نہ ہونے کے قریب ہے وہاں تمام اعلی پوسٹ پر سندھی برجمان ہیں مگر افسوس جب سرائیکی خطے کر صوبہ بنانے کی کوئی بات کرے تو اسے منع کر دیا جاتا ہے یا موضوع تبدیل کر دیئے جاتے ہیں چاہے وہ چینل ہوں، سیاست سے جڑا کوئی فرد ہو یا سرائیکی قوم سے جڑا کوئی فرد،. اسے رد کر دیا جاتا ہے اور اب تو صوبہ کا معاملہ لالی پاپ سے نکال کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے مطلب اس خطے کو نظر انداز کر دینا،. اس قوم کو تسلیم نہ کرنا جیسا ہے، اس خطے کے اطراف میں پنجابی خاندانوں کی پلانٹنگ کرنا اس سے کون واقف نہیں، چولستان، روھی، عباسنگر، لودھراں، لیاقت پور رحیم یار خان کے اطراف میں چک بن کے آبادکاری اتنے بڑے پیمانے پر ہونا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کیوں آنکھیں موند کر رکھی ہیں،. احتساب کے در کا رخ ذرا اپنے طرف بھی کھولیں اور دیکھیں کونسے یسے لوگ ہیں جو اتنے بڑے پیمانے پر سرائیکی خطہ کی زمینیں مقامی لوگوں کی بجائے پنجابیوں کو اونے پونے نواز رہے ہیں، تحفوں میں دے رہے ہیں دوسری طرف چوھدری پرویز الہی اس خطے پر اپنی بادشاھت قائم کرنے کی جدوجہد میں لگے ہیں، اس خطے کے لوگ پنا محرومیوں کا رونہ رو رہے ہیں اور سیاست دان اپنی اپنی سیاست کے مفروضے چلا رہے ہیں،.اس خطے کی عوام کو خیرات نہیں چاہیے اس خطے کو اپنی پہچان چاھیے اس خطے پر زراعت خطرناک حد تک کم ہوتی جا رہی ہے سوسائٹیاں یکے بعد ہگرے بن رہی ہیں تو ان کی منظوریاں مل جانا زرعی مینوں پر رھائشی پراجیکٹ کا بننا زراعت کو متاثرکر رہا ہے آنیوالے سالوں میں جتنا ہم زراعت سے جڑے خاندانوں کو محتاج کر چکے ہیں وہ بھی ہجرت کر کے کراچی، لاہور، اسلام آباد جیسے شہروں میں قل مقانی کر جائیں گے، تب کون کاشتکاری کرے گا؟ سیاستدان یا چوھدری جن کو پنا حقہ بھی گرم کرنے کے لہے نوکو چاھیے، ٨٠ سے اس خطے کے لوگ قربانیاں دیتے آ رہے ہیں ہر بار صبر کا مظاہرہ کیا، ہر بارتسلیاں، وعدے، اور خواب یکھا کر لوٹا جا رہا ہے جب حق مانگیں تو آٹا، گھی، چینی جیسی سکیمیں متعارف کروا دی جاتی ہیں، لاہوری آئیں تو ٹیکسیاں نوز دیتے ہیں، نوجوان میں اپنج واہ واہ کے لیے لیب ٹاپ تقسیم ہوتے ہیں،. پر افسوس اس خطے کو شناخت نہیں فقیر بنانے پر تمام پالیسیاں مرکوز کھی جا رہی ہیں، صوبہ پنجاب نہ ملک ہے نہ ریاست اور نہ ہادشاھت جس کی. تقسیم پر تکلیف ہو یا بادشاھت ختم ہو،. جس طرح سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا، پنجاب تمام صوبے پاکستان کے ہیں ویسے یہ صوبہ سرائیکستان بھی پاکستان کا ہوگا، اس میں بھی دیگر صوبوں کی طرح ہر خاندان آباد رھنے کا اور فزائش نسل کا اختیار رکھتا ہے جس طرح سندھی قاعدہ سندھ میں پڑھایا جا رہا ہے سی طرح سرائیکی قاعدہ سرائیکستان (سرائیکی خطے‌) میں پڑھایا جائے،. پنجاب میں پنجاب قاعدہ، صوبے کے معاملے کو دبا دینا اور مسلسل حق تلفی ہونا اور کسی خطے کی تہذیب و قوم پر لفظ پنجابی مسلط کر دینا اور چپ ادھ لینا انصاف نہیں حق تلفیاں ہیں جو نسلی جنگ اس صوبہ میں چل ہی ہے اس میں سرائیکی قوم خطے و زبان سے جڑے لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے، ان کے حق دبا کر بیٹھے رھنا انصاف نہیں، خطے کے غیور عوام روٹی پڑا مکان نہیں اپنی پہچان چاھتے ہیں،. خدارا، اس قدیم خطے کو ظر انداز نہ کیا جائے یہاں کی ثقافت،. زبان کو رد کرنا افسوسناک ہے یہاں کے پڑھے لکھے نوجوان مجبور ہو کر نقل مکانی کر کے دنیا میں آباد ہوتے جا رہے ہیں ان پر وسائل محدود ہیں روزگار کے در بند ہیں، انصاف کے در بند ہیں، علاج کے در بند ہیں تو کہاں جائیں، کسی دوسرے کی شناخت قوم خود پر مسلط کرنے کا طلب خود قوم کو ختم کر دینا،. اتنے بڑی قوم و زبان اور خطے کو پہلے پنجاب اور قوم کو پنجابی میں منتقل کر دینا نا انصافی ہے، اس خطے کے عوام اگر آہ ھی کریں تو گنہگار ٹھہریں، میری درخواست ہے موجودہ حکومت سے خدارا اس خطے کو مزید نظر انداز نہ کیا جائے جائے ، یہ قوم اپنی تہذیب اپنی زبان اپنا رسم و رواج رکھتی ہے سرائیکی مکمل زبان کے وارث ہیں جو نہ کسی زبان کا لہجہ ہے نہ اس کی کڑی تاریخ میں کہیں پنجابی زبان سے ملتی ہے، سرائیکی صوفیاء کرام پر ھی افسوس ماسکنگ کی جا رہی کہ وہ پنجابی تھے، تو عام لوگ جواس خطے کے وارث ہیں وہ کس کھیت کی مولی ہیں؟ پنجابیت فضل بنا دی گئی ہے اور سرائیکیت حقیر تر قوم، کیوں؟ صبر کرنے والی قوم صبر کا حق صوبہ سرائیکستان چاھتی ہے جسے ردی کی ٹوکری کی میں ڈال دیا گیا ہے وزیر اعلی عثمان زدار تو ایسے پنجاب نواز بن چکے ہیں ہ ہ اپنے گھر کے حالات بھول چکے ہیں، سب قومیں اپنی شناخت رکھتی ہیں سرائیکی صوبہ بننا تقسیم نہیں اور نہ ہی کسی پنجابی کی حق تلفی، یہ صوبہ حق ہے اس خطے کا، شناخت ہے، جو کہ ملنا ضروری ہے. تاکہ یہاں کے مقامی اپنی شناخت کیساتھ زندہ رہ سکیں نا کہ کسی دوسری شناخت کیساتھ.

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *