بات جہاں سے چلی وہیں رہ گئی ۔۔۔
| |

بات جہاں سے چلی وہیں رہ گئی ۔۔۔

حکومت کی طرف سے سرائیکی قوم کو صوبے کی نوید سنانا اور ساتھ ہی یہ کہنا کہ ملتان اور بہاول پور کی وجہہ سے صوبے کا سیکرٹریٹ تونسہ شریف رکھا جائے گا یہ سرائیکی قوم کے لیے ایسے ہے کہ ایک اچھی خبر کیساتھ بری خبر سنا دینا۔ صوبہ سرائیکستان کی بنیادی وجہہ دے فاصلہ ہے مطلب اگر صادق آباد رحیم یار خان کے لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے سفر کرتے ہیں تو انہیں تونسہ تک رسائی کے لیے کم و بیش نصف لاہور کا سفر طے کرنا ہوگا۔ بات تو جوں کی توں ہی رہ جائے گی یا ایسا اگر کہا جائے تو غیر مناسب نہ ہوگا کہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا، قوم ستر سال سے صبر کر رہے ہے اور ثابت قدمی امن کا مظاہرہ کر رہی ہے اور اپنی مجبوریوں کو احسن انداز میں بار بار حکومت کی زیر نظر کرتی رہتی ہے درخواست کرتی ہے گزارش کرتی ہے۔ میں اسی قوم کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی فیصلہ خود سے لے لینا مناسب نہیں ۔ اس وقت وسیب کا درد مسافت ہے کہ لوگ اپنے مسائل کو لاہور تک لانے میں اور پھر وہ مسائل حل ہونے میں یا بجٹ منظوری میں اور فنڈز ملنے میں ٥ سال کا عرصہ صرف ہوتا رہا ہے اور پھر سے اب اگر ہم تونسہ شریف کو سیکریٹریٹ کے لے منتخب کریں گے تو یہ بھی زیادتی جیسا ہوگا ، ایک زیادتی تو حکومت پہلے اس قوم کے ساتھ کر رہی ہے وہ زیادتی کسی اور کی شناخت کو سرائیکی پر مسلط کرنا ، مطلب صوبہ جنوبی پنجاب، پنجاب کے لیے معذرت کیساتھ پنجابی خود کہتے ہیں کہ پنجاب صرف پنجابی بولنے والوں کی سر زمین ہے تو دوسرے طرف کسی اور قوم پر اپنی پہچان مسلط کردینا ان کی پہچان کی حق تلفی ہے۔ اگر دینا ہے تو لولہا لنگڑا صوبہ ہرگز نہ دیا جائے زمینی خواھشات کے مطابق صوبہ کا نام #سرائیکستان رکھا جائے اور ملتان بہاول پور یا کسی اور شہر کی بجائے جغرافیائی طور پر جو شہر درمیان میں آتا ہے اور جو معیار پر پورا اترتا ہے مثال کے طور پر سیکورٹی ایسے دیگر معاملات جہاں خوش اسلوبی سے چل سکتے ہیں جہاں ہر سمت سے صوبے کے لوگ ایک جیسی مسافت کر کے سیکریٹریٹ میں پہنچ سکتے ہیں تو وہ بہتر امر ہوگا۔ یہ تاریخی لمحہ ہے اس تاریخ ساز فیصلے کو انجام دینے کے لیے بنیاد مضبوط رکھنی ایسی ہرگز کوشش نہ کی جائے جیسی جو بعد میں بنگلہ دیش سی صورتحال پیدا ہو، جب ہم سب پاکستانی قوم ہیں تو ایسی سوچ کی بیداری کہ پنجاب تقسیم ہو گا ، یا کسی قوم کو حق دیں تو اس پر ہماری شناخت مسلط کریں مطلب صوبہ جنوبی پنجاب رکھا جائے، یہ دل اعزاری ہوگی ہر اس فرد کی جو اس قوم اس سرائیکی خطے سے جڑا ہے اور اپنے اس خطے سے محبت رکھتا ہے۔ ابھی بہت وقت ہے اس طرف اعلی حکام ، خصوصا محترم وزیر اعظم عمران خان نیازی ، محترم وزیر اعلی عثمان بزدار و دیگران سے گزارش کرونگا کہ تاریخ میں اچھی فیصلے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور سنہری حروف کی جگہ رکھتے ہیں اور اگر تاریخ میں کچھ غلط فیصلے ہو جاتے ہیں تو وہ بھی یاد رکھے جاتے ہیں مگر ان کے لیے اچھی سوچ اور اچھے الفاظ نہیں ہوتے۔ اس لیے اگر اللہ رب العزت نے اگر یہ سنہرا موقع دیا ہے تو تاریخ ساز فیصلہ عمل میں لایا جائے جس سے وسیب (سرائیکی خطے) کے ٧٠ سال سے منتظر لوگوں کو ان کی مخلصی کا صلہ ملے۔ بنیاد جو کی صوبہ کا نام ہے اس کا صحیح انتخاب کیا جائے اگر کسی کو لفظ سرائیکستان سے الرجی ہے تو سرائیکی صوبہ ، یا وسیب صوبے کا نام تجویز کیا جائے، مگر صوبہ جنوبی پنجاب مسلط نہ کیا جائے، جس طرح سے ایک احسن فیصلہ خیبر پختونخواہ کا فیصلہ کر کے ہوا وہاں کے لوگوں کے دل جیت لئے گے اگر ان پر بھی شمالی پنجاب، مغربی پنجاب رکھ دیا جاتا تو ان کے تاثرات اس سرائیکی خطے پر آباد قوم سے منفرد نہ ہوتے۔ یہاں کے لوگ ملک و قوم اور سرائیکی خطے سے محبت رکھتے ہیں اور اپنی ہی شناخت کو تسلیم کرنے کے خواہشمند ہیں نا کہ کسی اور کی شناخت اپنے اوپر مسلط کرنے کے لہذا اچھا فیصلہ عمل میں لایا جائے تاکہ اس خطے پر آباد ان تمام لوگوں کو ان کا حق مل سکے جنہوں نے اس پی ٹی آئی کو کامیاب کراوایا ، یہ پہلے الیکشن تھے جہاں اپوزیشن کی طرف سے پیسوں کی آفریں تھیں مگر لوگوں نے بڑے پیمانے پر مسترد کر کے پی ٹی آئی کو منتخب کیا تاکہ ان کے درد کا ازالہ ہو سکے ، خطے کا ہر فرد سوالیہ نظروں سے حکومت کے ہر فیصلے کا منتظر ہے مگر حکومت اس بارے میں کوئی احسن فیصلہ کرے تاکہ کسی کی دل اعزاری نہ ہو اور ہمارا ملک مزید ترقی کی راہ پر گامزن ہو، نام صوبہ سرائیکی ہو سرائیکستان ہو ، یا وسیب ، اس سے وہاں آباد قوموں پر کسی قسم کا کوئی اثر نہ پہلے پڑا اور نہ ہی اب پڑے گا ، جیسے ہر قوم برادری سندھ ، بلوچستان ، پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں آباد ہے ٹھیک اسی طرح اس صوبے میں بھی سب کو اختیار ہوگا سب ویسا ہی چلے گا لیکن خطے پر خوشیاں آ جائیں گیں۔ سرائیکی صوبہ ، سرائیکستان میں اکثریتی ایسے شہر کو ہرگز نظر انداز نہ کیا جائے جہاں اکثریت سرائیکی زبان و ثقافت سے جڑی ہے ایسے شہر میں ڈیرہ اسمعیل خان اور ٹانک جیسے شہر ہیں جن میں ٧٨ فیصد سے زائد لوگ سرائیکی زبان سے جڑے ہیں اور اپنی دھرتی سے محبت رکھتے ہیں ایسے شہروں کو بھی صوبہ سرائیکستان میں ملایا جائے تاکہ فیصلے بار بار نہ ہوں ایک بار فیصلہ ہو اور اچھا فیصلہ ہو۔ اللہ ملک و قوم کو مثبت راہ اور سوچ پر رکھے اور بلا تفریق ملک و قوم کے جو حق میں ہو بہتر فیصلہ کیا جا نہ کہ ایسا فیصلہ مسلط کر دیا جائے جس سے مستقبل میں یہ اچھائی گلے پڑ جائے۔

تحریر۔ فیصل شہزاد چغتائی

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *