کالم فیصل شہزاد چغتائی
| | |

غیور سرائیکی خطے ڊءِ حق ڊی آواز سرائیکستان ھِ

روزنامہ خبریں میں پبلش ہونے والے آرٹیکل سرائیکستان ۔ خبریں کے نام کھلا خط جنا ب اسلم اکرم زئی بطور(بحث و نظر ) کی زینت بنا ، پہلے تو مجھے حیرانگی ہوئی ہے کہ صحافت کے مقدس پیشے اور قلم کی اس طرح سے تذلیل کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔ ایک اچھا لکھاری ہمیشہ اپنی تحریر سے محبت امن اور اخلاق کا درس صفحوں پر مرکوز کرتا ہے جس سے اگر کچھ ایسے دماغ ہیں جو راہ حق پر نہیں ہیں تو ان کی راہنمائی ہو اور وہ تحریر سے کچھ سیکھیں اور پڑھ سکیں۔ میں ایک عام انسان ہوں اور آپ سب کی تحریروں سے سیکھتا ہوں لیکن اج اتنے عرصے بعد اس آرٹیکل نے صحافت اور ایک اخبار کی پیٹھ پر خنجر مارا ہے ۔ ایک صحافی تجریہ نگار دوسرے صحافی تو صحافی اگر اخبار کو ہی گھٹیا کہنا شروع کر دے تو یہ تو آزادی صحافت نہیں یہ آزادی صحافت پر حملے کے مترادف ہے ۔ جس طرح محترم ضیاء شاہد نے اپنے اخبار خبریں میں لکھا کہ آزادی رائے کا سب کو حق ہے جناب آپ اپنے اخبار کو صحافت کے خلاف استعمال ہونے پر آزادی رائے کہتے ہیں ؟ ٹھیک ہے جناب کے لنگوٹیا یار ہوں گے اسلم اکرام زئی صاحب لیکن ان کے قلم نے گزشتہ آرٹیکل میں صرف اور صرف نفرت اور لسانیت کو ہوا دی ہے ۔ جس طرح انہوں نے آپ کے آستین میں رہ کر آپ کو تو آپ کو صحافت کو بھی ڈنگ مارا ہے مثبت تحریریں ہمیشہ اثر رکھتی ہیں مگر جو تحریریں لسانیت کو ہوا دیں اور کسی حب الوطن کو کسی دوسرے ملک کی ایجنسیوں سے وابستہ کریں نہایت افسوس ناک ہے ۔ آپ نے اپنا رشتہ ملتان اخبار سے جوڑ دیا لیکن معذرت کے ساتھ جس طرح آپ نے اپنے قلم کا استعمال کیا وہ آپ کو صحافی تو دور ایک تجزیہ نگار کہنے پر بھی ملامت کرتا رہے گا ۔ قلم کاآغاز انہوں نے زبان اور نسل کی بنیاد پر پاکستان توڑنے اور نئی آزاد ریاستی بنانے کی سازش کے بارے میں کیا جس کی پشت پناہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را کر رہی ہے ۔میرے دوست کیا آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ را سیاسی تحریکوں کو چلانے میں مدد کر رہا ہے؟ آپ حقیقت اور سچ لکھنے سے گریز کر رہے ھیں اور آپ کا قلم صرف اور صرف بہتان تراشی کر رہا ہے آپ کسی بھی سرائیکی تحریک کی روح کو دیکھیں ہر تحریک کے پیچھے آپ کو سرائیکی مزدور اور سرائیکی عوام کی محنت اور خون ملے گا سرائیکی خطے میں رہنے والے لوگ اتنے بے غیرت نہیں کہ وہ کسی ایجنسی کے ایجنٹ بنیں یا ان کے لیے کام کریں لگتاہے ۔ اسلم اکرام زئی صاحب آپ کو یہ سوچنا چاہیے کہ ہر اُٹھنے والے آواز کا تعلق سرائیکی خطے سے ہی کیوں ہے ؟ کیا اس خطے میں رہنے والے سب انسان بھارت کے ایجنٹ ہیں ۔ لکھنا آسان ہے اور کسی پر بہتان تراشی کرنا بہت ہی آسان ہے لیکن سچ قلم سے لکھنا بہت مشکل ہے آپ نے اپنے قلم کا آغاز ہی جھوٹ سے کیا ہے جس خطے اور جس قوم کے بارے میں آپ نے لکھا ہے وہ قوم پاکستان میں 70فیصد کاشت کاری ، 60 فیصد ٹرانسپورٹ اور ملک کی ترقی میں اپنی نوجوانوں کی محنت لگا رہی ہے۔ محنت کش اور حب الوطن قوم پر الزام لگانا بہت ہی افسوس ناک ہے آپ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے صحافت کے میدان کو پاک و صاف رہنے دیں ایسی رائے جو کسی قوم کی ذات پر تہمت لگائے وہ ہرگز برداشت نہیں اسے آزاد رائے نہیں فساد کی بنیاد کہتے ہیں ہم تعمیری سوچ رکھتے ہیں اور پاکستان کیساتھ مخلص ہیں آپ تحریک کی بات کر رہے ہیں کسی ایک سرائیکی فرد بھی کسی را کا ایجنٹ نہیں ۔ جس انسان کا دل صاف نہ ہو اسے سب دل خراب نظر آتے ہیں قصور آپ کی عمر اب آرام کرنے کی ہے تجزیہ نگاری کے نام پر فسادات پہلانے کی نہیں ۔ آپ نے اپنے کھلے خط میں لکھا کہ یہ سرائیکستان کیا چیز ہے سب علم ہونے کا باوجود اس لفظ کو جنوبی پنجاب کہنے میں تو آپ فخر محسوس کرتے ہیں مگر سرائیکیستان کو تسلیم کرنے میں تکلیف ہوتی ہے کمال ہے۔ سرائیکستان سرائیکی خطے کا نام ہے جو پانچ دریاں پر آباد ہے اس پر رہنے والے لوگ سرائیکی کہلاتے ہیں اور اپنے خطے کی نسبت سے سب لہجوں کو سرائیکی نام دیا ہے ۔ پاکستان کی قومی زبانیں اردو، سرائیکی ، بلوچ ، سندھی ہیں لیکن قانونی زبان کا درجہ اردو زبان کو دیا گیا ہے لیکن سرائیکی خطے پر بولی جانے والی زبان سرائیکی ، سندھ میں بولی جانے والی زبان سندھی ، بلوچستان میں بولی جانے والی زبان بلوچی کو بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ ہر خطے کی مقامی زبان بھی پاکستان کی قومی زبان میں شامل ہوتی ہے۔ سرائیکی خطے یا سرائیکستان کسی شہر کا نام نہیں اس پر ایک قوم صدیوں سے آباد ہے جو سرائیکی زبان سے منسلک ہے اور تقسیم ہند سے قبل بھی وادی سندھ میں اگر کوئی خطہ زبان کے حوالے سے مضبوط تھا تو وہ سرائیکی خطہ تھا جس میں آریائیں زبان سے منسلک افراد ہجرت کرکے یہاں پر قابض ہوتے گئے اور سرائیکی خطے کو تسلیم نہ کرنی کی بڑی وجہہ بھی یہی ہے جس سرائیکی خطے پر دوسری زبانوں سے منسلک افراد قابض ہو چکے ہیں وہ سب واپس نہ چلا جائے جیسا کہ ضیا شاہد صاحب نے لکھا کہ کیا پنجابیوں کو نکال دیں ؟ میرا سوال ہے شاہد صاحب سے جناب لاہور میں سرائیکی مقیم ہیں اور تجارت میں اور محنت مزدوری میں اپنی جانیں لگا رہے ہیں تو کیا لاہور سے سرائیکی نکال دیئے گیے ؟ سندھ میں ۴ کروڑ سے زائد سرائیکی آباد ہیں جو مختلف کمپنیوں میں اپنی محنت سے اپنے بچوں کا رزق کما رہے ہیں تو کیا وہ سندھ سے نکل گئے ؟ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ سرائیکی خطے کو اگر صوبے کی حیثیت دے دی جاتی ہے تو دوسری زبانوں سے منسلک جو لوگ سرائیکی خطے پر آباد ہیں ان کو نکال دیا جائے گا ایسی ہرگز بات نہیں اگر ایک سرائیکی اپنائیت دینے کے لیے آپ سے پنجابی، سندھی ، بلوچی ، ہندکو ایسی زبانوں میں بات کر سکتا ہے تو وہ نہ ہی لسانیت کی بنیاد نہیں رکھنا چاہتا ۔ لسانیت تو کا ثبوت تو آپ کسی پنجابی سے اردو میں ، سرائیکی ، سندھی میں یا کسی بھی زبان میں بات کر کے دیکھیں وہ آپ کو جواب پنجابی میں دے گا یہ ثبوت ہے لسانیت کا اور بغض کا سرائیکیوں نے سب زبانوں کو اپنے سینے سے لگایا اور سب رنگ و نسل سے محبت کی اور ان کا وجود تسلیم کیا مگر ملک آزاد ہونے سے اب تک آپ سرائیکی بیشک نہ بولیں نہ سیکھیں لیکن آپ تو تسلیم کرنے سے بھی دور بلکہ اسے سے جڑے انسانوں کو ان کی محبت کا صلہ یہ دے رہے ہیں کہ وہ را کے ایجنٹ ہے افسوس ناک بات لکھ دی جناب آپ نے آپ نے کسی سے تو قرآن پاک پڑھا ہوگا کوئی قاری تو آپ کے بچوں کو قرآن پاک کا درس دے رہا ہو گا کسی مسجد میں نماز تو پڑھنے جاتے ہو گے تو آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ وہ امام مسجد ، وہ قاری یا تو سرائیکی ہوگا یا تو اس کا استاد سرائیکی ہوگا ۔ دین میں ہماری خدمات کو مسترد کرتے ہوئے آپ تو یہ بھی بھول گئے کہ استاد سے دینی تعلیم حاصل کرنے کا حق ادا بھی کرنا ہوتا ہے ۔ مجھے معلوم نہیں کہ آپ کی تحریر کی تعمیر کیسے ہوئے لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ اگر کسی اچھے استاد کے ہاتھ چڑھتے تو ضرور آپ کا قلم یہ سب لکھنے سے قبل رکتا ضرور اور حق اور سچ لکھنے کی کوشش کرتا۔
جناب نے لکھا کہ دھریجہ صاحب کو اٹھتے بیٹھتے سرائیکی زبان کی بنیاد پر دورے پڑتے ہیں یہ اک گھٹیا اخبار جھوک کا ایڈیٹر و پبلشر ہے ۔ جناب آپ کے الفاظ آپ کے اچھے اخلاق کی پاسداری کر رہے ہیں آپ جب ایک اخبار کو گھٹیا لکھ سکتے ہیں تو صحافت یا آزادی رائے کے کیسے حق دار ہو سکتے ہیںآپ نے ایک اخبار کو گھٹیا کہہ کر آپ نے صحافت کے منہ پر تمانچہ مارا ہے جو شاید آپ کو نظر نہیں آتا اور نہ ہی اس طرف جناب ضیاء شاہد صاحب کی نظر گئی ہے ۔ ضیاء صاحب ماشااللہ بہت پڑھے لکھے اور اچھا لکھنے والے انسان ہیں مجھے حیرت اس بات کی ہوئے ہے یہ کھلا خط جو صحافت پر ہی اپنے جوتے مار رہا ہو ایسی تحریر کو کیسے شائع کر اور یہ اسے آزادی رائے کا نام دے سکتے ہیں جو انسان صحافت کے خلاف ہے اس کے ہاتھ میں قلم دے دینا بھی صحافت جیسے مقدس پیشہ کی توہین ہے قلم اگر صحافی کے ہاتھ میں ہو وہ حق اور سچ لکھتا ہے ۔ لگتا ہے اسلم اکرام زئی نے قلم بھی فرخت کر دیا ہے اور بھارتی لابی اور ایجنسی را کے لیے کام کر رہے ہیں کیونکہ ان کی یہ تحریر مزید فساد پیدا کرے گی اور لسانیت کو ہوا دے گی ۔
مزید برآں انہوں نے لکھا کہ سرحد پار سے بھارتی خفیہ ایجنسی را زبان اور نسل کی بنیاد پر سرائیکی تحریک کی در پردہ حمایت کر رہی ہے اور اندرون جنوبی پنجاب میں بہت بڑے بڑے جلسے اور جلوسوں پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں یہ بھارت کی فنڈنگ سے ہے ۔ اسلم صاحیب عقل کے ناخون لیں مجھے لگتا ہے آج تک آپ نے سرائیکی خطے کا دورہ نہیں کیا اور نہ ہی سرائیکی خطے کو قریب سے دیکھا ہے میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ سرائیکی خطے کا سروے ضرور کریں اور اس کے بعد اپنی تحریر پڑھیں کہ آپ نے کیا لکھا ہے آپ جن جلسے جلوسوں کی بات کر رہے ہیں یہ اس خطے پر آباد غیور سرائیکی اپنے حق کی آواز اٹھانے کے لیے تھوڑے تھوڑے پیسے اکٹھے کر کے کرتے ہیں لیکن جوں پھر بھی نہیں رینگتی کیونکہ جس ذہن میں نفرتیں ہوں وہ محبت کا پیغام کبھی نہیں سمجھ سکتے ۔ اور پاکستان کی قومی زبانیں پاکستان کی سالمیت اور ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ جس قوم کی پیدائش ایک خطے کی ہو اس کا رہن سہن ثقافت اس کی زبان ایک ہوتی ہے اور اپنے اصول ہوتے ہیں اور سرائیکی خطے میں صوبے کی آواز لگانے والے غیور سرائیکی کیوں صرف یہی آواز لگا رہے ہیں یہ سب آپ بھی باخوبی جانتے ہیں اب سب کچھ دیکھ کر میں نا مانوں پالیسی پر عمل کرنا چھوڑی اور حق اور سچ لکھیں اور یہ ضرور لکھیں کہ در حقیقت سرائیکی خطے اب تک کونسی صدی میں آباد ہے یہاں کی تمام بنیادی ضرورتیں نہ ہونے کے برابر ہیں پانی ، گلیاں ، سیوریج ، بجلی ، گیس ، اسپتال ، اسکول کچھ بھی نہیں ہے مگر برابر ٹیکس ادا کرتے ہیں اور ووٹ دیتے ہیں اور جو منتخب اگر خطے سے ہو بھی جاتا ہے تو سسٹم اسے تسلیم نہیں کرتا اور ایک فرد کی آواز جہاں پورا سسٹم خراب ہو دب کر رہ جاتی ہے ۔ نا انصافی کی کوئی ایک داستان ہو تو ادھر تحریر کروں ہزار ہا داستانیں موجود ہیں اور زندہ تصویریں اب بھی سرائیکی خطے میں موجود ہیں بس دل کو بڑا کریں اور سرائیکی خطے کا دورہ کریں اس کے بعد تحریر لکھنے کی کوشش کریں بن دیکھے کسی کی ذات پر بہتان تراشی زیب نہیں دیتا اور سرائیکی قوم محنتی اور حب الوطن ہے اپنے ملک پاکستان کے لیے اولین صف میں ہے اتنے بے غیرت نہیں کہ وہ بھارت کی کسی ایجنسی کی ایجنٹ بنے اور اپنے ملک کا سودا کرے لعنت ہے ایسے لوگوں پر جو ایسی عناصر کے ساتھ مل کر اس قوم کو ذلیل کرنے کے در پر ہیں ۔
جناب مزید لکھتے ہیں کہ جلسے جلوسوں میں ایک چادر پیش کر کے جسے شاید فریدی رومال بھی کہا جاتا ہے محسن وسیب جیسے کاغذی خطابات دے کر خوش کر دیتے ہیں ۔ بات جناب دنیا کی حد تک ہے تو ٹھیک ہے لیکن نسبت رکھنے والوں کی دل عزاری کرنا اور نسبت فریدی جو سرائیکی اجرک ہے اس کی بنیاد آپ کو سرائیکی خطے میں آباد ہر مزار کی تزین و آرائش میں نظر آئے گی چاہے وہ در باہو سلطان ہو ، در فرید گنج بخش ہو ، در خواجہ فرید ہو سب جگہ اس چادر کا رنگ اس کے مزار کی تزین میں آپ کو نظر آئے گا جو صرف اور صرف ولیوں سے محبت کا اثر ہے اور اللہ کے چاہنے والوں کے لئے دل میں محبت کے جذبات ہیں اگر آپ اس کو تعصب یا متعصب سرائیکی کارکن لکھنا شروع کریں تو افسوسناک ہے ۔ ولیوں سے نسبت انسان کوں متعصب یا تعصب کرنے والا نہیں اللہ سے محبت کرنے والا بناتی ہے کیوں کہ ولیوں کا درس صرف اور صرف اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا نام ہے اور ان کی تعلیمات کی پیروی کرنا ہے ۔ کسی ولی نے اللہ اور اس کے محبوب محمد ؐ کے علاوہ کوئی بات نہیں کی اور پوری زندگی اللہ کی عبادت میں گزار دی آج اگر کوئی قوم ولیوں سے محبت کرتی ہے تو اس میں کسی قسم کی شرم اور تعصب کی بات نہیں ۔ جو ہماری بزرگ دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ان کی قبروں پر جا کر پھول اور اگربتی جلائی جاتی ہے ان کے لئے فاتحہ خوانی کی جاتی ہے ان کو کلام الہی ایصال کیا جاتا ہے صرف اور صرف کہ وہ ہمارے بزرگ تھے یہ ادب کے دائرے میں آتا ہے اور میرے دوست اس ادب کو تعصب کی شکل دے رہے ہیں جو ہرگز نا قبول ہے ۔ تحفہ دینا کوئی گناہ نہیں اور نسبت والا تحفے کی ہمیشہ قدر ہوتی ہے نسبتوں سے انسان جڑا رہتا ہے کسی نا کسی بہانے اس کی حاضری لگتی رہتی ہے خیر اسلم اکرام زئی صاحب کسی نسبت والی محفل میں بیٹھیں یہ باتیں آپ کے سمجھ سے باہر ہیں ۔ باقی جو آپ نے لکھا میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ آپ کی اور دھریجہ صاحب کی آپس کی باتیں ہیں اگر آپ دونوں بیٹھ کر ڈسکس کر لیں تو بہتر ہیں اس کا جواب تو دھریجہ صاحب بہتر دیں سکیں گے ۔
آپ کی تحریر نے سرائیکی خطے پر آباد لوگوں کے دلوں کو نفرتوں کا پیغام دیا ہے جو اس خطے کے غیور عوام کے لیے ایک اور دشمنی کی مہر ہے بغیر زمینی حقائق جانے آپ نے اتنا زیادہ لکھ دیا شاید اس کا آزالہ کرنے لئے آپ کو صدیاں لگیں اگر آپ کی تحریر حق پر ہوتی تو بالکل ہم آپ کے ساتھ ہوتے لیکن آپ نے جو اپنے قلم کے ذریعے زہر اگلا ہے وہ یہ ثبوت دیتا ہے کہ آپ پنجابی ٹولے کے ٹاوٹ ہیں اگر ایک اچھے کھرے اور مخلص لکھاری یا صحافی ہوتے تو ایسے تحریر لکھنے سے پہلے شرم سے مر جاتے کہ آپ کس خطے اور کس خطے کی عوام کی ذاتوں پر تہمت لگا رہے ہیں ۔
سرائیکی خطہ نہ ہی کسی کی سیاسی جاگیر ہے اور نہ ہی کسی کی پراپرٹی ہے اور نہ ہی کوئی منافق سربراہ ہے اس خطے کا سرائیکی خطہ پاکستان سے مخلص عوام کی آبادی ہے جو بنیاد پاکستان سے اب تک پاکستان کے شانہ بشانہ اپنی خدمات انجام دینے والے قوم کو آپ نے لسانیت اور دشمن عناصر سے جوڑا ہے جس کی پر زور مزمت کرتے ہیں اور خبریں اخبار کے مالک ضیا شاہد سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ حق اور سچ کا ساتھ دیں ۔ کسی سرائیکی قوم کے ایسے فرد کا نام بتائیں جس نے پنجابیوں ، اردو ، سندھیوں یا بلوچیوں کو اپنے اس خطے سے نکالا ہو ۔۔۔۔؟ ایسا نہیں ہم نے سب کو اپنے سینوں سے لگایا ہے آج الحمداللہ ہم سب زبانوں پر عبور رکھتے ہیں اور اپنی زبان سے زیادہ دوسری زبانوں کو اہمیت دیتے ہیں تاکہ کوئی یہ نا سمجھے کہ ہم ان کے نہیں مگر اس کا صلح اگر ایسے آرٹیکل اور کھلے خط کی صورت میں ملے گا تو ہم بھی تمام زبانوں سے نفرت کرنے لگیں گے اور یہ سب کچھ آپ کے اخبار کے غلط استعمال کی وجہہ سے ہو رہا ہے آپ نے پہلے تو صحافت پر بات کرنے دی دوسرا ولیوں کی نسبت پر تیسرا ایک ایسی قوم پر آپ نے ایسے بے وقوف انسان اسلم اکرام زئی کو لکھنے کی جرات دی جو خود دین اور دنیا سے بھی دور ہے اور جس کو نہ ہی قلم کے تقدس کا پتہ ہے اور نہ ہی یہ پتہ ہے کہ تحریروں کے جو بگاڑ انسانیت میں پیدا ہوگی وہ فساد کی شکل میں ابھرے گا ایسے شیطان صفت انسانوں کے ہاتھوں میں قلم نہیں کچھ اور ہونا چاہیئے اور اسلم اکرام زئی صاحب آپ میں اگر ردی برابر بھی سچائی ہے اور آپ کی قلم سچ اور حق پر تجزیہ یا رائے دینا چاہتی ہے تو پہلے سرائیکی خطے پر آئیں اور اپنی آنکھوں سے حقائق دیکھیں اس کے بعد قلم سے کچھ لکھیں ۔ ہم تو اپنے گھر آئے دشمنوں کو بھی سینوں سے لگاتے ہیں اور ان کی خاطر توازن اپنی ذات سے بڑھ کر کرتے ہیں آپ کو شاید اندازہ نہیں کہ اس سرائیکی خطے نے کتنی قربانیاں دی ہیں اور اب تک قربانیاں دے رہا ہے ہم نے اپنی نسلیں برباد کر دی ہیں ۔ ہم آج تک اپنا حق اور اپنے قتل کی وجہہ ڈھونڈ رہے ہیں ۔ ہماری ثقافت کو چوری کر لیا گیا ، ہمارے ہر گھر پر پنجابی کا ٹھپہ لگایا گیا کہ جو بھی پنجاب میں رہتا ہے وہ پنجابی ہے ایسا ممکن نہیں اب یہاں کی عوام باشعور ہے اور لکھنے اور جواب دینے کا ہنر جانتے ہے اپنے حق اور سچ کے لیے ضرور آواز اُٹھاتے رہیں گے ۔

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *